بوڑھوں کے لیے رفاہی اداروں کا قیام

آج کل بوڑھوں کے لیے ’اولڈ ایج ہومس‘ کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ تقریباً تمام بڑے شہروں میں یہ ادارے قائم ہیں ۔ عموماً انھیں چلانے والے غیر مسلم ہیں ۔ کیا شرعی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے ایسے ہومس قائم کرناجائز ہے؟
بہ راہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل اظہار ِ خیال فرمائیں ۔

اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت کلمۂ طیبہ پڑھ لے؟

میں ایک سلاٹر ہاؤس میں کام کرتا ہوں ۔ یہاں بڑے پیمانے پر جانوروں کا ذبیحہ ہوتا ہے۔ ذبح کا عمل صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائے اس کی نگرانی کے لیے دو مستند علماء مامور ہیں ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ٹرک سے جانوروں کو اتارتے وقت محسوس ہوا کہ ایک جانور بے دم ہو رہا ہے۔جھٹ سے ایک مزدور نے اس کی گردن پر چھری پھیر دی۔ البتہ چھری چلاتے وقت اس نے بسم اللہ، اللہ اکبر کہنے کی بہ جائے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا۔ خیال رہے کہ مزدور مسلمان تھا، لیکن ان پڑھ تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوا کہ یہ ذبیحہ جائز ہوا یا نہیں ؟ سلاٹر ہاؤس کے عالم صاحب سے رجوع کیا گیا تو انھوں نے اسے ناجائز قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ جانور ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے۔ غیر اللہ کا نام لینے سے ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس فتویٰ کے صحیح ہونے پر مجھے کچھ شبہ ہے۔ کیا کلمۂ طیبہ پڑھ کر ذبح کرنے سے جانور حرام ہوجائے گا؟ مزدور نے اسے اللہ کے رسول ﷺ کے نام سے تو نہیں ذبح کیا ہے؟
بہ راہِ کرم اس مسئلے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں ۔

ملکیت کا مسئلہ

یہاں کی ایک دینی تنظیم کا، ایک جگہ معمولی تعمیر شدہ دفتر تھا۔ دینی ذہن رکھنے والے ایک بلڈر نے پیش کش کی کہ وہ اپنے والد محترم کے ایصال ِ ثواب کے لیے اپنے خرچ سے تنظیم کی عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کی یہ پیش کش قبول کرلی اور اعتماد کی فضا میں اپنی زمین اور تعمیر شدہ معمولی عمارت ان کے حوالے کردی، جسے توڑ کر اس زمین پر از سرِنو بلڈنگ کی تعمیر کا کام ہونے لگا۔ ساری باتیں زبانی ہوئیں ، کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا گیا۔ تعمیر کے دوران ہی بلڈرنے بعض سیاسی و معاشی مصلحتوں کا حوالہ دے کر تنظیم کے ذمے دار سے ایک مشترکہ ایگریمنٹ پر دستخط کروا لیے، جس کی رو سے نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو منزلیں تنظیم کی اور دو منزلیں بلڈر کی قرار پائیں ۔ بلڈر نے اس موقع پر تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے صراحت سے کہا کہ یہ محض بعض قانونی ضوابط کی خانہ پری ہے، ورنہ پوری عمارت اصلاً تنظیم کی ملکیت ہوگی۔ لیکن عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے انھوں نے تنظیم کے حوالے نہیں کیا، بل کہ اس کی اوپری دو منزلیں اپنے قبضے میں رکھتے ہوئے اس میں اپنا ذاتی دفتر قائم کرلیا، نیز اس میں ایک دینی پروجیکٹ شروع کردیا۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ پوری عمارت کی ملکیت تنظیم کی تسلیم کرتے ہوئے اسے تنظیم کے حوالے کردیں ، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ مجبوراً تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کے سامنے چار تجاویز رکھی ہیں : (۱) وہ غیر مشروط طور پر نئی تعمیر شدہ عمارت کو تنظیم کے حوالے کردیں ۔ (۲) اگر وہ اس کا کچھ حصہ کسی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو تنظیم کے ذمہ داروں سے اس کی باضابطہ اجازت لے لیں ۔ (۳) وہ بلڈنگ پر صرف شدہ رقم تنظیم سے لے کر پوری عمارت تنظیم کے حوالے کردیں ۔ (۴) یا آخری چارۂ کار کے طور پر زمین کی رقم تنظیم کو لوٹا دیں ۔
اس پس منظر میں آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل امور پر فتویٰ دے کر ہماری رہ نمائی فرمائیں :
(۱) تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لے کر اور اس کا غلط فائدہ اٹھا کر نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو منزلیں اپنے نام سے رجسٹرڈ کروالینا اور اس پر اپنا دعویٰ کرنا کیا دھوکا نہیں ہے؟ شریعت میں دھوکا دینے والے کے لیے کیا وعید آئی ہے؟
(۲) بلڈر کبھی عمارت کے نصف حصے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی پوری عمارت پر تنظیم کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں ، لیکن اس کی حوالگی کے لیے مختلف شرائط عائد کرتے ہیں ۔ حوالگی کے لیے شرائط کی فہرست دینا شریعت کی رو ٗ سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟
(۳) کسی کی عمارت پر بہ زور و جبر قبضہ جمائے رکھنا کیا شریعت کی رو ٗ سے صحیح ہے؟
(۴) بلڈر قانونی پیپرس کا حوالے دے کر عمارت کی دو منزلوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ غاصب اور ظالم نہیں ہیں ؟ کیا غاصب و ظالم کے دباؤ میں آکر اس کی کوئی تجویز قبول کرلینا صحیح ہے؟ کیا یہ ظلم کا ساتھ دینا نہیں ہوا؟
(۵) تنظیم کے ذمہ داروں کے لیے کیا رویہ صحیح ہے؟ وہ حکمت کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کریں یا مذکورہ بلڈر سے رقم لے کر معاملہ رفع دفع کرلیں ؟

حق ِ وراثت حاصل کرنے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا

میرے والد کا عرصہ قبل انتقال ہوگیا ہے۔ بڑے بھائیوں نے صریح ناانصافی کرتے ہوئے تجارت میں سے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو محروم کردیا ہے۔ وہ موروثہ جائیداد کو تقسیم کرنا نہیں چاہتے۔ کسی کی ثالثی بھی انھیں منظور نہیں ۔ عدالتوں میں کارروائی کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے خاصے مصارف کی ضرورت ہوتی ہے اور دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں ۔ پھر عدالت ہر بات کا ثبوت چاہتی ہے۔ یہ سوچ کر ہم نے اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا تھا اور علیٰحدہ زندگی گزارنی شروع کردی تھی۔ مگر حال میں ایک صاحب نے کہا کہ اپنا حق لڑ کر لینے کا حکم ہے، ورنہ آپ گنہ گار ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ جب جب ہم نے حق مانگا ہے، بات لڑائی جھگڑے اور خون خرابے تک پہنچ گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔ برائے مہربانی شرعی طریقہ بتائیں ۔ کیا خون خرابہ کرکے حق حاصل کرنا صحیح ہوگا؟

میراث کے چند مسائل

میرے شوہر کا انتقال دو سال قبل ہوگیا ہے۔ میں ایک گرلز اسکول کی پرنسپل شپ سے وظیفہ یافتہ ہوں ۔ کچھ جائیداد میرے شوہر کی موروثی ہے، کچھ ان کی خریدی ہوئی ہے اور کچھ جائیداد میں نے اپنی آمدنی سے بنائی ہے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے، دوسرے رشتہ دار ہیں ۔ میں ان تمام جائیدادوں کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہوں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔
(۱) میرے خسر صاحب اور ساس صاحبہ کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔ چند ایکڑ زرعی زمین ان کے ورثہ میں تھی۔ خسر صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان میں سے میرے شوہر کا حال میں انتقال ہوگیا ہے۔ اس جائیداد میں میرے شوہر کا یا میراکیا شرعی حق بنتا ہے؟
(۲) میرے شوہر نے ایک مکان ہاؤسنگ بورڈ سے قسطوں پر خریدا تھا۔ ابھی تقریباً ایک لاکھ روپے ہاؤسنگ بورڈ کو اور ادا کرنا ہے۔ انتقال کے وقت ان کے اکاؤنٹ میں تیرہ ہزار روپے تھے۔ ان کے تین بھائی اور پانچ بہنیں حیات ہیں ۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس کی شرعی تقسیم کس طرح کی جائے؟
(۳) اپنے والدین سے وراثت میں مجھے چند ایکڑ زرعی زمین ملی ہے۔ اس کے علاوہ میری آمدنی سے بنایا گیا مکان اور کچھ پلاٹ ہیں ۔ میری جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ میری حیات کے بعد کا ہے۔ مگر میں چاہتی ہوں کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ یا نزاع میرے میکے اور سسرال والوں کے درمیان نہ ہو۔ فی الوقت میرے تین بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں ۔ دو بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے بچے موجود ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں :
(الف) مجھ جو زرعی زمین اپنے والدین سے ملی ہے کیا وہ پوری زمین ان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کرسکتی ہوں ؟ فی الوقت اسے بیچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ میری بہنوں کی زمین بھی مشترک ہے۔ کیا اس کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے؟
(ب) میں اپنی کل جائیداد میں سے کتنا حصہ اللہ کی راہ میں دے سکتی ہوں ؟
(ج) کیا میں اپنی جائیداد ثواب ِ جاریہ کے لیے یا رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرسکتی ہوں ؟

مردوں کے لیے عورتوں سے علمی استفادہ؟

(۱) کیا کوئی عورت مردوں کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پردے کی حالت میں تقریر کرسکتی ہے؟
(۲) کیا کسی مسلم خاتون اسکالر کی تقاریر، دروس ِ قرآن و حدیث وغیرہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے، کسی مرد کے لیے سننا جائز ہے؟
بہ راہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب سے نوازیں ۔

تحریکی خواتین کا دائرہ عمل

میں الحمد للہ جماعت اسلامی ہند کی رکن ہوں ، دس سال سے زیادہ عرصے سے جماعت سے وابستہ ہوں اور اس کی سرگرمیوں میں حسب توفیق حصہ لیتی ہوں ۔ لیکن پچھلے کچھ وقت سے میں ایک الجھن میں مبتلا ہوں ۔ میری الجھن خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق ہے۔ میں کچھ سوالات آپ کی خدمت میں بھیج رہی ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہ نمائی کرکے الجھن دور فرمائیں ۔
۱- جماعت کے بڑے اجتماعات میں ، جو علاقے، حلقے یا مرکز کی سطح پر منعقد ہوتے ہیں ، مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں ۔ کیا ایسے مشترک اجتماعات میں کوئی عورت درسِ قرآن یا درسِ حدیث دے سکتی ہے، تقریر کرسکتی ہے یا مذاکرے میں حصہ لے سکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ نماز باجماعت میں اگر امام سے کوئی غلطی ہوجائے اور اس کو متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف دستک دیں ، زبان سے کچھ نہ بولیں ۔ جب نماز جیسی عبادت میں عورتوں کا آواز نکالنا ممنوع ہے تو مردوں کے درمیان ان کا تقریر کرنا اور درس دینا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کا آواز کا بھی پردہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اس میں بھی بہ ہر حال کشش ہوتی ہے۔
۲- میں اپنے شہر کی ناظمہ ہوں ۔ اس ذمّے داری کی وجہ سے مجھے امیر مقامی، ناظم شہر، ناظم علاقہ اور کچھ دیگر مردار کان سے خواتین کے سلسلے میں فون پر بات کرنی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے بھی فون آتے ہیں ۔ کیا میرا ان سے فون پر بات کرنا صحیح ہے؟ کہیں یہ شرعی حدود سے تجاوز تو نہیں ؟
۳- کہا جاتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار اس کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو‘‘ (الاحزاب: ۳۳) مولانا سید ابوا لاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ’پردہ‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال فرمایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’عورت کو ایسے تمام فرائض سے سبک دوش کیا گیا ہے، جو بیرون خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ مثلاً اس پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے، اس پر جہاد بھی فرض نہیں ، اس کے لیے جنازوں میں شرکت بھی ضروری نہیں ۔ بل کہ اس سے روکا گیا ہے۔ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی، اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی، لیکن اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ اس کو محرم کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ غرض ہر طریقے سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور ا س کے لیے قانون ِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہے۔‘‘ ان باتوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں میں ٹِک کر بیٹھنے کا حکم دیا ہے تو خواتین کا مقامی سطح کے ہفتے وار اور ماہانہ اجتماعات اور علاقے اور حلقے کی سطح کے اجتماعات میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا کس حد تک درست ہے؟ اور وہ دعوتی کاموں میں کس حد تک سرگرم رہ سکتی ہیں ؟ کیا ان کا دیگر خواتین کی اصلاح کے لیے اور ان سے انفرادی ملاقاتوں کے لیے بار بار ان کے گھروں میں جانا صحیح ہے۔
حدیث کی روٗ سے عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور وہ اس کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ گویا گھر سے باہر کی خواتین کے درمیان تبلیغ و اصلاح کی ذمے داری ہماری نہیں ہے، تو پھر ہم خواتین کو اپنے گھر سے باہر جاکر دیگر خواتین کو اکٹھا کرکے اجتماعات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
۴- میں نے ایم اے تک پڑھائی کی ہے۔ میرے شوہر چاہتے ہیں کہ آگے بھی پڑھائی جاری رکھوں یا ٹیچنگ کروں ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر تو نکلنا پڑے گا۔ بسا اوقات ان اداروں میں مخلوط تعلیم کا نظم ہوتا ہے۔ کیا ان اداروں کو جوائن کیا جاسکتا ہے؟ پردے کے اہتمام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشش جائز ہے یا غیر ضروری ہے؟
۵- میں نے انٹر کرنے کے بعد جماعت کے ایک پرائمری اسکول میں دو سال ٹیچنگ کی۔ اس وقت تک مجھے دین کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں ۔ وہاں پڑھانے کے دوران اسکول کے پرنسپل، منیجر اور بعض دیگر افراد نے میری تربیت کی، مجھ میں دین کا شعور پیدا کیا اور میری زندگی کو تحریک سے جوڑدیا۔ ان لوگوں کی حیثیت میرے نزدیک معلم جیسی ہے۔ آج بھی میں اپنے دینی مسائل کا حل جاننے کے لیے ان حضرات سے مدد لیتی ہوں ۔ میں ان سبھی کے سامنے رو در رو بیٹھ کر بات کرتی ہوں ۔ اس موقع پر میں ساتر لباس میں تو ہوتی ہوں ، مگر چہرہ نہیں ڈھانپتی۔ یہ سبھی حضرات تحریک اسلامی کے رکن ہیں اور عمر دراز ہیں ۔ میری رہ نمائی فرمائیں کہ مجھے اسی طریقے پر رہنا چاہیے یا ان لوگوں سے ملنا جلنا ختم کردینا چاہیے؟
محترم! مجھے ڈر لگتا ہے کہ جن کاموں کو میں نیکی سمجھ کر کر رہی ہوں ، کہیں ان سے میرے گناہ تو نہیں بڑھ رہے ہیں ؟ میری آخرت تو نہیں خراب ہو رہی ہے؟ میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے اللہ کے عائد کردہ حدود پامال ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں ؟

چہرہ اور آواز کا پردہ: معتدل نقطۂ نظر

’تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل‘ کے زیر عنوان ایک مراسلہ نگار خاتون کی ذہنی الجھنوں اور عملی دشواریوں کا جو جواب محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے عنایت فرمایا ہے، اس میں بعض امور قابل غور ہیں ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’بعض فقہاء عورت کی آواز کے پردے کے قابل ہیں ، لیکن بعض فقہاء کا خیال ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔‘‘ تائید میں انھوں نے سورۂ الاحزاب کی آیات: ۳۲- ۳۳، پیش کی ہیں ۔ اس سے موصوف نے یہ روشنی اخذ کی ہے کہ ’’اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں سے بات ہی نہ کریں ، بل کہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ وقت ِ ضرورت بات کرتے وقت وہ اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ کریں ‘‘ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ ’روشنی‘ صحابۂ کرام کو بھی نظر آئی تھی؟ تابعین اور تبع تابعین نے بھی یہ روشنی اخذ کی تھی؟ اور ان حضرات کا اور ان کی خواتین کا عمل اسی روشنی میں تھا؟
مولانا مودودی آیت مذکور میں ’قَرْنَ‘کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’آیت کا منشا یہی ہے کہ عورت کا اصل دائرئہ کار اس کا گھر ہے۔ اس کو اس دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور گھر سے باہر صرف بہ وقت ضرورت ہی نکلنا چاہیے۔‘‘
محترم ندوی صاحب نے ایک عالم دین کی حیثیت سے بتایا ہے کہ ’’اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے چہرے کھولنے نہ کھولنے کا مسئلہ اختلافی ہے۔ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف عہد صحابہ سے موجود ہے۔ دونوں گروہوں کے پاس مضبوط دلائل ہیں ۔ مناسب ہے کہ عورت کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے لیے جو موقف بہتر سمجھتی ہو اختیار کرلے۔‘‘
جماعت اسلامی کے بنیادی لٹریچر میں غالباً کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جس میں چہرے کے بے پردہ ہونے کے دلائل دیے گئے ہوں اور یہ ترغیب دی گئی ہو کہ جماعت سے منسلک خواتین خود انتخاب کرلیں کہ چہرہ کھول کر باہر نکلنے کا موقف انھیں پسند ہے یا چہرہ ڈھانپ کر۔ خود ندوی صاحب بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک دونوں قرآن و سنت کے مزاج کے عین مطابق ہیں ۔
میں اپنی تمام تحریکی بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس موضوع پر کم سے کم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے مباحث پڑھ لیں ، جو سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں ان بزرگوں نے تفہیم القرآن اور تدبر قرآن میں تفصیل سے فرمائے ہیں ۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں ندوی صاحب فرماتے ہیں : ’’مولانا مودودیؒ عورت کے لیے اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کے قائل ہیں ۔‘‘ میں عرض کروں گا کہ صرف قائل نہیں ، بل کہ مدلل بحث کرکے فرماتے ہیں : ’عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔‘‘ مولانا نے تفصیل سے ان کی آراء نقل کی ہیں ۔ اور یہ عبارت تو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے، بہ ہر حال اگر وہ تعبیر کی بد دیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرکے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص ۱۳۲)
محترم ندوی صاحب آج جس معاشرے میں رہتے ہیں اس سے بہ خوبی واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے سماج میں ’روشن خیالی‘ اور ’جدیدیت‘ کی جو لہر چل رہی ہے وہ ہماری خواتین اور خود ارکان و کارکنان کے لیے کتنی بڑی آزمائش ہے؟! ہر سطح کے اجتماعات میں اظہار خیال، درس، تقریر وغیرہ کے لیے خواتین کو استعمال کیا جا رہا ہے، ’غضِ بصر‘ کا کیا حشر ہورہا ہے؟!!
تحریکی رفقاء آواز اور چہرے کے پردے پر تو تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور دیگر متعدد کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور دلائل سے بھی واقف ہیں ۔ البتہ کوئی کتاب غالباً اس موضوع پر اردو میں دستیاب نہیں ہے، جس میں خواتین کی آواز اور چہرے کی بے پردگی پر قرآن و سنت سے دلائل دیے گئے ہوں اور دور نبوی اور اس کے بعد کے ادوار میں اس کے رواج پانے کے ثبوت پیش کیے گئے ہوں ۔ میری ندوی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود بھی اس پر لکھیں اور ایسی تصانیف کی نشان دہی بھی فرمائیں ، تاکہ ہم سب کو درست رائے قائم کرنے میں سہولت ہو۔

کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟

مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے، جو بینک اور حکومت کے دیگر اداروں کی طرف سے دیے جانے والے سود کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندستان دار الحرب ہے، اس لیے یہاں کے مسلمان غیر مسلموں سے ہی نہیں ، بل کہ مسلمانوں سے بھی سود لے سکتے ہیں ۔ اگر کوئی ملک واقعی دار الحرب ہے تو کیا اس ملک میں سود کا لین دین مسلمانو ں کے درمیان جائز ہے؟ فقہ کے اس مسئلے کا تعلق قیاس سے ہے یا حدیث سے؟ اس کے جواز میں بہ طور دلیل کوئی حدیث ہے تو بہ راہ مہربانی نقل کیجیے۔ سود کا تعلق گہرے طور پر اخلاقیات سے ہے۔ یہ بات اسلامی روح کے خلاف نظر آ رہی ہے کہ دار الاسلام میں تو سود حرام ہو، لیکن دار الحرب میں مسلمان غیر مسلموں سے سود لے۔ جس طرح زنا اور چوری مسلم ملک میں حرام ہے، اسی طرح سود بھی مسلمانو ں کے لیے ہر ملک اور ہر صورت میں حرام ہونا چاہیے۔ بہ راہ کرم مدلّل طور پر اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں :

سودی کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنا

ایک صاحب لائف انشورنس کی ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہوگئے ہیں ۔ ادھر ان سے ہمارے کچھ تعلقات بڑھے ہیں ۔ انھوں نے ہمارے پروگراموں میں آنا شروع کیا ہے اور ہمیں بھی اپنے گھر بلاتے ہیں ۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ کیا کسی لائف انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس میں ملازمت کرنے والے کسی شخص کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے؟