تقسیم میراث کی اہمیت

میرے والد صاحب کا انتقال ہوئے تین سال ہوگئے ہیں ۔ والدہ الحمد للہ ابھی حیات ہیں ۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ سبھی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم سب بھائی مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔
براہ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میراث تقسیم کرنی ضروری ہے؟ نہ تقسیم کرنے پر کیا وعیدیں ہیں ؟ میراث میں کس کا کتنا حصہ ہوگا؟ ہمارے تین مکانات ہیں ۔ کیا ایک یا دو مکانات فروخت کرکے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟

میراث کے چند مسائل

ایک صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے وارثوں میں صرف ان کی بیوی، ایک بیٹی اور ماں ہے۔ ان کے علاوہ اور کوئی رشتے دار نہیں ہے۔ ان کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
براہِ کرم مطلع فرمایئے؟

ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس کے رشتے داروں میں صرف اس کی بیوی، باپ اور تین بھائی تھے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پندرہ دن کے بعد اس کے باپ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

میری اہلیہ کا چند دنوں قبل انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ شرعی اعتبار سے اس کی تقسیم ہوجائے۔ ہمارا ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں ۔ لڑکے اور بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ چھوٹی لڑکی ابھی زیر تعلیم ہے۔ اہلیہ کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ بہ راہ کرم مطلع فرمائیں کہ بینک کی رقم کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟

ہمارے ماما جان غلام رسول صوفی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انھوں نے کئی سال پہلے ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اس کی پرورش کی اور جوان ہونے پر اس کی شادی اپنے بھانجے الطاف احمد سے کی۔ الطاف احمد کی بیوی طاہرہ کے ہاں دو لڑکے اقبال اور عامر پیدا ہوئے۔ طاہرہ شادی کے چند سال بعد فوت ہوگئی۔ چوں کہ غلام رسول اور ان کی بیوی عمر رسیدہ اور بیمار ہونے کی وجہ سے گھریلو کام کاج کرنے سے قاصر تھے، لہٰذا وہ دونوں میاں بیوی الطاف احمد کے یہاں رہنے لگے۔ تقریباً سات سال تک الطاف احمد کے گھر میں رہنے کے بعد غلام رسول کا انتقال ہوگیا۔ پس ماندگان میں ان کی بیوی سندری بیگم، اکلوتی بہن فاطمہ، جو کہ الطاف احمد کی ماں ہے اور ایک بھائی غلام محی الدین صوفی ہے۔ اس کے علاوہ غلام رسول کے دو مرحوم بھائیوں کی بھی اولادیں ہیں ، جو الگ سے اپنا گھر اور کاروبار چلاتے ہیں ۔ مرحوم غلام رسول نے اپنے پیچھے کچھ ملکیت چھوڑی ہے۔ از روئے شریعت یہ ملکیت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس سلسلے میں آپ کی رہ نمائی درکار ہے۔ امید ہے قرآن و سنت کے مطابق اس بارے میں رہ نمائی فرمائیں گے۔

ہمارے ایک عزیز کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کی جائداد ان کے وارثوں میں کس نسبت سے تقسیم کی جائے گی؟
وہ لا ولد تھے۔ ان کی اہلیہ اور ماں باپ کا انتقال پہلے ہوچکا ہے۔ ایک بھائی اور دو بہنیں اور ایک ماں شریک بہن تھیں ۔ وہ سب بھی فوت ہوگئے ہیں ۔ پس ماندگان میں صرف چار بھتیجے، چھے بھتیجیاں ، نو بھانجے اور دو بھانجیاں زندہ ہیں ۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک لڑکی کو گود لے لیا تھا، جس سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے حق میں ایک تہائی سے کم کی وصیت موجود ہے۔
براہ کرم مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق وراثت کی شرعی تقسیم سے مطلع فرمائیں ۔

میری پھوپھی کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے ذاتی اکاونٹ میں کچھ رقم تھی۔ اس کی تقسیم کیسے عمل میں لائی جائے؟ واضح رہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے شوہر اور دو بہنیں حیات ہیں ۔ بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے، البتہ بھتیجے اور بھانجے ہیں ۔

میراث کی عدم تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل

میرے والد صاحب نے اپنے ذاتی سرماے سے ایک دوکان لگائی۔ اس سے پورے گھر کا خر چ چلتا تھا۔ انھوں نے اپنی معاونت کے لیے میرے ایک بھائی کو اور کچھ دنوں کے بعد دوسرے بھائی کو شریک کیا۔ چند سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ترکے کی تقسیم عمل میں نہیں آئی۔ بڑے بھائی اس دوکان کی آمدنی سے پورے گھر کا خرچ اٹھاتے رہے۔ لیکن اب وہ گھر کا خرچ اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوکان سے ہونے والے منافع کے صرف وہی حق دار ہیں ، دوسرے بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو بھائی دوکان چلا رہا ہے صرف وہی کل منافع کا حق دار ہے یا وہ صرف اجرت کا مستحق ہے اور منافع میں تمام ورثاء شریک ہوں گے؟ وہ دوکان ایسی ہے کہ اگر اسے صرف کرایے پر اٹھا دیا جائے تو ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ آسکتا ہے۔

کیا قرض کی واپسی اضافہ کے ساتھ جائز ہے؟

ایک حدیث نظر سے گزری، جس کا مضمون کچھ یوں ہے:
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میرا رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرض تھا۔ جب آپ نے وہ واپس کیا تو کچھ بڑھا کر دیا۔‘‘
کیا اس سے سود کا جواز نہیں نکل رہا ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض کی واپسی کے وقت اگر بغیر فی صد طے کیے زیادہ دیا جائے تو وہ سود نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ اپنی خوشی سے حضرت جابرؓ کو کچھ ہدیہ دینا چاہتے تھے تو کیا اسے قرض کی واپسی کے وقت ہی دینا ضروری تھا؟ میں اس حدیث کو قرآن کے مطابق تسلیم کروں یا اس کے خلاف؟
بہ راہ کرم میرے اس اشکال کو رفع فرمادیں ۔

مردوں اور عورتوں کے مشترکہ دینی اجتماعات

زندگی ِ نو میں ’رسائل و مسائل‘ کالم میں کچھ عرصہ پہلے ’تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل‘ کے عنوان کے تحت آپ نے جو جواب تحریر کیا تھا، وہ یقینا تحریکی خواتین کے بہت سے خدشات دور کرنے والا تھا۔ اس سلسلے میں کچھ اور سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہ کرم ان کے جوابات سے نوازیے۔
ہمارے تحریکی اجتماعات عموماً مسجدوں میں ہوتے ہیں ۔ خواتین مسجد کے ایک کمرے میں بیٹھتی ہیں اورSound Box کے ذریعے درس قرآن یا تقریر سنتی ہیں ۔ بعض اجتماعات دوسرے مقامات پر ہوتے ہیں ۔ وہاں پردے کے ذریعے خواتین کی نشست الگ کردی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مرد شرکاء کے پیچھے ایک بڑا پردہ لگادیا گیا۔ خواتین اس کے پیچھے برقع میں بیٹھیں ۔ اجتماع کے اختتام پر ایک ذمے دار نے کہا کہ یہ پردہ نہیں ، بلکہ پردہ در پردہ ہے۔ ابھی حال میں میقاتی پروگرام کی تفہیم کے لیے صرف خواتین کا اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں کوئی مرد شریک نہیں تھا، سوائے حلقے کے دو ذمے داروں اور مقامی امیر کے۔ یہ تینوں حضرات کرسیوں پر بیٹھے، ان کے روٗ بروٗ خواتین برقعے میں بیٹھیں ۔ یہ پروگرام مسجد میں صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے تک چلتا رہا۔ آپ چاہے انبیائے کرام علیہم السلام کے اوصاف کے حامل کیوں نہ ہوں اور چاہے آپ کا دل و دماغ کتنا ہی پاک صاف اور شیطان کے شر سے کتنا ہی محفوظ کیوں نہ ہو، لیکن اس کے باوجود ایسی نشست کہاں تک تحریکی مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔
میرے ناقص خیال میں چہرے کے پردے میں آنکھیں بھی شامل ہیں اور آج کل کے پردے میں آنکھوں کا کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم نفسیاتی طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آنکھیں دراصل انسانی جذبات و کیفیات کی ترجمان ہوتی ہیں ۔ انسان کے غصے، خوف، نفرت، عداوت اور محبت سب کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہوتا ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی تصنیف ’احیاء علوم الدین‘ میں لکھاہے کہ ’’انسان کے دل میں شیطان آنکھوں کی راہ سے داخل ہوتا ہے‘‘ اور آج کل کا پردہ دیگر دروں کو بند کرتا ہے، لیکن اصل در کو کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
تحریک میں پہلے کی بہ نسبت اب خواتین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ اجتماعات کی شکل اور نوعیت بھی بدلتی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ مشترکہ اجتماعات کی شکل و صورت متعین کی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ مشترکہ تحریکی اجتماعات میں خواتین کی نشست کہاں پر ہو؟ وہ اجتماع گاہ سے متصل کمرے میں بیٹھیں ، یا مرد شرکاء کے پیچھے برقعے میں بیٹھیں ، یا پھر مردوں کے پیچھے ایک بڑا پردہ باندھ دیا جائے، جس کے پیچھے خواتین کی نشست ہو؟