اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام
میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں ۔ جب میں ہندستان سے یہاں آرہا تھا ،اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں جارہا ہوں ،اس لیے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔جس علاقے میں میرا قیام ہے، یہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کررہے ہیں ۔بہت سے اسکول اور ہسپتال ان کے ذریعے سے چل رہے ہیں ۔مسلمان یہاں پانچ فی صدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔انگریزی نہیں بول سکتے حالاں کہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کررہے ہیں ۔ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں ۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں ۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں ۔وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں ۔ اس کے علاوہ دُور دُور کہیں اذان کی آوازبھی نہیں آتی۔یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلے میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہا ں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں ۔ ایک انسانی رواداری۔اس معاملے میں یہ لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔غیر ملکی کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں ،ان کے اوپر مغربی طرز فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں ۔
ان حالات میں آپ مشورہ دیجیے کہ کس طرح اسلام کی صحیح نمائندگی کی جائے اور یہاں کے لوگوں کو انگریزی میں کون سا لٹریچر دیا جائے۔پڑھا لکھا طبقہ انگریزی لٹریچر سمجھ سکتا ہے۔’’پردہ‘‘ کی طرح اگر کوئی کتاب شراب نوشی پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایے!
دوسرے یہ بھی آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح انسان صحیح راہ پر قائم رہے جب کہ ماحول اور سوسائٹی دوسرے رنگ میں رنگے ہوں ۔