اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام

میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں ۔ جب میں ہندستان سے یہاں آرہا تھا ،اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں جارہا ہوں ،اس لیے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔جس علاقے میں میرا قیام ہے، یہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کررہے ہیں ۔بہت سے اسکول اور ہسپتال ان کے ذریعے سے چل رہے ہیں ۔مسلمان یہاں پانچ فی صدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔انگریزی نہیں بول سکتے حالاں کہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کررہے ہیں ۔ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں ۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں ۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں ۔وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں ۔ اس کے علاوہ دُور دُور کہیں اذان کی آوازبھی نہیں آتی۔یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلے میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہا ں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں ۔ ایک انسانی رواداری۔اس معاملے میں یہ لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔غیر ملکی کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں ،ان کے اوپر مغربی طرز فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں ۔
ان حالات میں آپ مشورہ دیجیے کہ کس طرح اسلام کی صحیح نمائندگی کی جائے اور یہاں کے لوگوں کو انگریزی میں کون سا لٹریچر دیا جائے۔پڑھا لکھا طبقہ انگریزی لٹریچر سمجھ سکتا ہے۔’’پردہ‘‘ کی طرح اگر کوئی کتاب شراب نوشی پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایے!
دوسرے یہ بھی آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح انسان صحیح راہ پر قائم رہے جب کہ ماحول اور سوسائٹی دوسرے رنگ میں رنگے ہوں ۔

کچھ عرصے سے امریکا میں آکر مقیم ہوں ۔ یہاں کے لوگوں سے دینی و اجتماعی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اللّٰہ نے جتنی کچھ سمجھ بوجھ دی ہے اور آپ کی تصانیف اور دوسرے مذہبی لٹریچر سے دین کا جتنا کچھ فہم و شعور پیدا ہوا ہے، اس کے مطابق اسلام کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں ۔ مگر یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بظاہر مادی آسائشوں پر مطمئن ہیں اور انھی سے مزید اطمینان حاصل کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ان لوگوں کے مسائل اور دل چسپی کے موضوع ہمارے موضوعات سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کی گمراہیوں کی نوعیت و کیفیت بھی اپنے ہاں کی گمراہیوں سے الگ اور شدید تر ہے۔ جس طرزِ استدلال سے ہم مسلمان معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ راست کی طرف بلا سکتے ہیں اور انھیں اسلام کے اصولوں کا قائل بنا سکتے ہیں ، وہ طرزِ استدلال یہاں شاید کارگر نہ ہو۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں کے ماحول اور ذہنیت کو سامنے رکھ کر تبلیغ و تلقین کا اصول اور طریق کار واضح کریں اور مجھے سمجھائیں کہ یہاں لوگوں کو ان کے فکر و عمل کی گمراہی اور ضرر رسانی کا احساس کس طرح دلایا جاسکتا ہے اور انھیں آمادہ اصلاح کرنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں ۔ یہاں کسی بڑی تعداد کو اسلام کی جانب مائل کرنا اوردائرہ اسلام میں داخل کرنا تو مشکل نظر آتا ہے بس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آغاز کار میں کیا طریقہ اختیار کرنا مناسب ہوگا۔

ہمارے اسلامی حلقوں میں آج کل یہ موضوع زیر بحث ہے کہ جس ملک میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر تسلط حاصل ہو، وہاں تحریک اسلامی کے کارکنوں کو مسلمانوں کے قومی معاملات میں کس حد تک دل چسپی لینی چاہیے۔ جو لوگ ان مسائل میں حصہ لینےکے حامی ہیں وہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کی ان مساعی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے بچا کرلے جانے کے لیے انھوں نے اختیار فرمائیں ۔ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ یہ اندیشہ رکھتے ہیں کہ ان معاملات میں الجھ جانے کے بعد تحریک اسلامی کا اصولی موقف مجروح ہو جائے گا اور اس کی بین الاقوامی اور بین الانسانی دعوت اپنا اپیل کھو بیٹھے گی۔ فریق اول کے استدلال کا اہم اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو اللّٰہ نے بعثت محمدی سے قبل اقوام عالم میں منتخب اور افضل تر قرار دیا تھا، اسی طرح دنیا اور دنیا کے جس ملک میں بھی مسلمان نام کی ایک قوم آباد ہے، وہ بھی برگزیدہ اور مجتبیٰ ہے۔ اس لیے اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اس کے پرسنل لا اور تعلیمی و تہذیبی ادارات کا بقا اقامت دین کے لیے ناگزیر اور اولین توجہ کا مستحق ہے۔
دوسرے لفظوں میں جب نبوت بین الاقوامی دور میں داخل ہوئی اور ایک سے زائد اقوام کے لیے ایک ہی نبی مبعوث ہونے لگے تو جس طرح ایک قوم کے اندر ایک فرد کو منتخب کرکے نبوت سے سرفراز کیا جاتا تھا، اسی طرح اقوام عالم میں سے بھی ایک قوم کو چن کر کارِ نبوت کی انجام دہی پر مامور کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کو دعوتِ ایمان دینا حضرت موسٰی کے مشن کا جز صرف اسی حد تک تھا جس حد تک بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ آپ سے استدعا ہے کہ ایک غیر مسلم اقتدار کے دائرے میں آپ اقامتِ دین کا طریق کار واضح کریں اور بتائیں کہ حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کا جو تعلق بنی اسرائیل اور قوم فرعون سے تھا، اس کی صحیح نوعیت آپ کے نزدیک کیا تھی اور بنی اسرائیل کے قومی مسائل پر انھوں نے خصوصی توجہ کیوں مبذول فرمائی؟

اسلامی ریاست اور نظمِ جماعت

ایک بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن جھاڑ کر جماعت سے اتنی دُور جاکھڑے ہوئے گویا انھیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہوچکے ہیں ۔یہ نظام اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے۔اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظام اطاعت کے گرد جمع ہوچکی ہیں ۔لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظم کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ،حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں ، اور ان کی تمام اطاعتیں اور وفا داریاں اسی تنظیم کاحق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرز استدلال ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا حق انجمن سازی (right to form association) ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاو ت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کا موقع نہیں ملے گا؟اگر ملے گا تو ایک نظام اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے۔علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔

فریضۂ اقامت دین اور والدین کی مخالفت

صوبہ جاتی اجتماع سے واپس آنے پر میں یکایک ان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں ۔آپ کی شدید مصروفیات کا علم رکھنے کے باوجود ان احوال کا تفصیلی تذکرہ آپ ہی کے اس ارشاد کی بِنا پر کررہا ہوں کہ اس نوعیت کے اُمور سے آپ کو پوری طرح مطلع رکھنا ضروری ہے۔ خیر تو۱۹؍ اکتوبر کو والد مکرم کا جو گرامی نامہ موصول ہوا ہے،وہ لفظ بلفظ درج ذیل ہے:({ FR 1017 })
’’برخوردارِ نورِ چشم… بعد دعاے ترقی درجات کے واضح ہو کہ اب تم خود مختار ہوگئے ہو،ہماری سرپرستی کی ضرورت نہیں ،کیوں کہ ہم مکان پر بیمار پڑے ہیں اور تم کو جلسوں ({ FR 1020 }) کی شرکت لازم اور ضروری۔ اب اﷲ کے فضل سے نوکر ہوگئے ہو۔ہم نے اپنی تمام کوشش سے تعلیم میں کام یاب کرایا اور اس کا نتیجہ پالیا۔عالم باعمل ہوگئے کہ باپ کا حکم ماننا ظلم اور حکمِ خدا کے خلاف قرار پایا۔ اوروں کا حکم ماں باپ سے زیاد ہ افضل!خیر تمھاری کمائی سے ہم نے اپنی ضعیفی میں بڑا آرام پا لیا۔ آئندہ ایک پیسا بھی ہم لینا نہیں چاہتے۔جو تمھارا جی چاہے کرو اور جہاں چاہے رہو، خواہ سسرال میں یا کسی اورجگہ۔ البتہ ہم اپنی صورت اس وقت تک نہیں دکھلانا چاہتے جب تک جماعت سے استعفا نہ دے دو۔تم نے برابر اس مراق میں (یعنی تحریک اسلامی کی خدمت میں ) سب تعلیم کاکام خراب کردیا۔مگر ہمارا نصیحت کرنابے کار ہے۔ بس یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے نہ آنا۔ ہمار اغصہ بہت خراب ہے۔ فقط۔‘‘
والدِ مکرم کے اس خط کا جواب راقم الحروف نے یہ لکھ دیا:
’’محترمی!کل آپ کا گرامی نامہ بدست… موصول ہوا۔اسے دیکھ کر اور آپ کی بیماری کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔یقین جانیے مجھے خبر تک نہ تھی کہ آپ بیمار ہیں ۔نہ آپ نے کوئی خط لکھا نہ مجھے کسی اور ذریعے سے حال معلوم ہوا، ورنہ میں یقیناً وہاں نہ جاتا۔ یہ ایک عذرِ شرعی تھا جس کی بِنا پر سفر کو ملتوی کیا جاسکتا تھا۔
والدین کے احسانات اور ان کی مہربانیوں کا کون انکار کرسکتا ہے۔پھر آپ نے تو اعلیٰ تربیت کی اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔اسی تعلیم سے مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ دین کو دنیا میں غالب کرنا،خدا کے کلمے کو بلند کرنا، دنیا میں اسلام کا سکہ چلانا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میں نے گردو پیش کی دنیا پر نظر ڈالی اور مجھے ایک ہی جماعت اس مقصد کے لیے صحیح طریقے اور اصلی اوربہترین ڈھنگ سے کام کرتی ہوئی نظر آئی، اور وہ جماعت’’جماعت ِ اسلامی‘‘ ہے۔ اس لیے اگر مجھے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو اس سے منسلک رہنا ضروری ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ دین کے غلبے کی کوشش اگر مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے!
والدین کا حکم ماننا ضروری!ان کی اطاعت فرض! لیکن کہاں تک،جب تک خدا ورسولؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر دین کو غالب کرنا ضروری ہے تو وہ کیا یوں ہی آرام سے بیٹھے ہوئے، بے اَن تھک کوشش کیے ہوئے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی بہت سہل کام ہے؟کیا دین کے لیے اتنی قوت اور اتنا وقت بھی صرف نہیں کرنا چاہیے جتنا ہم اپنے پیٹ کے لیے کرتے ہیں ؟کیا یہ کام تنہا ایک آدمی کے کرنے کا ہے؟بہرحال دین کے لیے جس جماعت میں بھی رہ کر کام کیا جائے گا،اس میں وقت بھی صرف ہوگا،مال بھی خرچ کرناہوگا، تکلیف بھی ہوگی ،کچھ دنیوی کاموں کا حرج بھی ہوگا،اور کسی نہ کسی قوت سے تصادم کا ڈر بھی ہوگا اور آپ پھر منع فرمائیں گے۔پھر لِلّٰہ! آپ ہی بتایے کہ اس کام کی اور کیاصورت ہوسکتی ہے؟آپ کی سرپرستی سے محروم ہوجانا میری انتہائی بدنصیبی ہے۔لیکن یہ تو خیال فرمایے کہ آپ کس چیز سے مجھے منع فرمار ہے ہیں ۔ذرا غور تو کیجیے، کہیں یہ حکم خدا کے خلاف تو نہیں ہے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ( التوبہ:۲۴)
’’اے نبیؐ ! فرما دیجیے کہ اگر تمھارے باپ،تمھارے بیٹے، تمھارے خاندان، تمھارے وہ اموال جو تم نے محنت سے کماے ہیں اور تمھاری وہ سوداگری جس میں گھاٹا پڑجانے سے تم ڈرتے ہو، اور تمھاری مرغوب آرام گاہیں تمھیں اﷲ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں سرتوڑ کوشش کرنے کے مقابلے میں محبوب ترہوں ، تو انتظار کرواس گھڑی کا کہ اللّٰہ کا فیصلہ صادر ہوجائے، اوریاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔‘‘
میں سخت حیرت اور انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ دین کے غلبے کے لیے جوکوشش میں کررہا ہوں ،اس پر آپ ناراض ہیں ۔آخر آپ ہی فرمایے کہ اس صورت میں میرا فرض کیا ہے؟مندرجہ بالاآیت کو ملحوظ رکھ کر سوچیے۔
حاضر ہونے کو جی چاہتا ہے مگر آپ کے عتاب سے خائف ہوں ۔دیکھیے آپ کیا اجازت فرماتے ہیں ۔‘‘
یہ جواب اس پس منظر کی بِنا پر لکھا گیا تھا کہ والد صاحب وقت کے ضیاع صَرفِ مال اور خوفِ قوتِ متسلّطہ کی بِنا پر جماعت میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں ، نیز یہ کہ ان کے اشارے پر…سے ایک بہت مدلل قسم کا طویل وعریض خط آیا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہرحال حق واسلام جماعت اسلامی میں منحصر نہیں ، تنہا کام کیجیے یا کسی اور جماعت میں رہ کر۔
والد محترم کی طرف سے مجھے ابھی تک منقولہ بالا عریضے کا جواب نہیں ملا ہے۔ اندریں حالات مناسب ہدایات سے مستفید فرمایئے۔

جماعت اسلامی کی تحریک اور قرآن وسنت کے دلائل

آپ وحی والہام کے مدعی نہیں ہیں بلکہ ریاست اسلامیہ میں آپ کے لحاظ سے اب وحی والہام کی گنجائش تک باقی نہیں ہے۔ ان حالات میں آپ محض چند دلائل سے خودکیوں کر مطمئن ہیں کہ آپ کی تحریک ہی صحیح معنوں میں دین کے مزاج کے مطابق ہے اور انقلاب قیادت کا حقیقی تصور آپ کی جماعت کے بغیر نہیں مل سکتا؟ ممکن ہے دوسری جماعتیں صحیح مسلک پر قائم ہوں اور آپ کی ساری بنیاد غلط فہمی پر مبنی ہو۔

اسلامی نظامِ جماعت میں آزادیِ تحقیق

’’ تفہیمات‘‘ کا مضمون’’مسلکِ اعتدال‘‘جس میں صحابہ کرامؓ اور محدثین کی باہمی تجریحات کو نقل کیا گیا ہے اور اجتہادِ مجتہد اور روایتِ محدث کو ہم پلا قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس مضمون سے حدیث کی اہمیت کم اور منکرین حدیث کے خیالات کو تقویت حاصل ہوتی ہے،یہ راے نہایت درجہ ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کا نتیجہ ہے۔
اس قسم کے سوالات اگر آپ کے نزدیک بنیادی اہمیت نہیں رکھتے تو جماعت اسلامی کی ابتدائی منزل میں محدثین وفقہا اور روایت ودرایت کے مسئلے پر قلم اُٹھانا مناسب نہیں تھا۔ اس مسئلے کے چھیڑ دینے سے غلط فہمیاں پھیل نکلی ہیں ۔ اب بہتر یہ ہے کہ بر وقت ان غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا جائے، کیوں کہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے والے خیالات جس لٹریچر میں موجود ہوں ،اسے پھیلانے میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں ،حالاں کہ نظم جماعت اسے ضروری قرار دیتا ہے۔
میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ تحریریں مع تنقید اخبارات ورسائل میں شائع کردی جائیں ۔

ہمہ گیر ریاست میں تحریکِ اسلامی کا طریقِ کار

یہ بات تو اب کسی مزید استدلال کی محتاج نہیں رہی کہ ایک مسلمان کے لیے، بشرطیکہ وہ اسلام کا صحیح شعور حاصل کرچکا ہو،صرف ایک ہی چیز مقصد زندگی قرارپاسکتی ہے ،اور وہ ہے حکومتِ الٰہیہ کا قیام۔ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے صرف وہی طریقِ کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس کی فطرت سے عملاً مناسبت رکھتا ہو اور جو اس کے اصلی داعیوں نے عملاًاختیار کیا ہو۔ حکومتِ الٰہی کے نصب العین کے داعی انبیاے کرام ہیں ۔ اس لیے طریقِ کار بھی وہی ہے جو انبیا کا طریقِ کار ہو۔
انبیا کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں فی الجملہ دو قسم کے پیغمبر دکھائی دیتے ہیں :
ایک تو وہ جن کی دعوت کے ظہور کے وقت اسٹیٹ ایک منظم اور مؤثر طاقت کی حیثیت سے سوسائٹی میں کارفرما نظر آتا ہے۔ اور اکثر حالات میں وہ ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کلّی طور پر شخص واحد میں مرکوز ہوتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف ؈ اور حضرت موسیٰ ؈۔
دوسرے وہ جن کا واسطہ ایک ایسی سوسائٹی سے پڑتا ہے جس میں اسٹیٹ ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھا اور زیادہ سے زیادہ سرقبیلی(patriachal) قسم کا اسٹیٹ تھا۔ جیسے خاتم النّبیین ﷺ۔
دونوں صورتوں میں طریقِ کار کا اختلاف نمایاں ہے جو غالباًاسی سیاسی اختلاف احوال کا نتیجہ ہے۔
لیکن جتنی جامعیت او رہمہ گیری اسٹیٹ نے اب حاصل کرلی ہے اور جس طرح اس نے آج کل فرد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور جتنی منظم ومؤثر اور مضبوط طاقت، فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے اس نے اب اختیار کرلی ہے،اس کی مثال شاید پچھلی تاریخ میں نہ مل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی طریق کار جو تقریباًغیر ریاستی (stateless) سوسائٹی یا حدسے حد سرقبیلی حکومت میں کام یاب طورپر استعمال کیا گیاتھا، اب بھی اس قسم کی کام یابی کا ضامن ہوسکتا ہے؟کیا آج کل کے بدلے ہوئے حالات میں اسی مقصد کے لیے کام کرنے والی پارٹی کو اپنا فنِ انقلاب انگیزی کافی حد تک بدلنا پڑے گا؟
خاتم النّبیین ﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس کے برعکس حضرت یوسف ؈ کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا۔ چنانچہ انھوں نے جب قوتِ متسلّطہ (sovereign power) کو ا قتدار منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ({ FR 1131 }) (یوسف:۵۵ ) کہہ کر اقتدار سنبھال لیا،اور اس طرح اپنا مشن پورا کرنے کے لیے پہلے کے قائم شدہ اسٹیٹ کو استعمال میں لے آئے۔ موجودہ زمانے کا اسٹیٹ حضرت یوسف ؈ کے عہد کے اسٹیٹ سے کہیں زیادہ جامع،ہمہ گیر اور منظم ہے۔ اس کو اکھیڑ کر ایک نیا اسٹیٹ وجودمیں لانے کے لیے جو انقلاب بھی ہو گا، اس کا راستہ خون کے لالہ زاروں سے ہوکر گزرے گا۔ جیسا کہ بالشویک روس میں ہوا۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام محض توڑ پھوڑ قسم کا انقلاب نہیں چاہتا، بلکہ اس کا پروگرام کچھ زیادہ نازک ہے۔ان حالات میں تو زیادہ موزوں طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ بجاے کلی انقلاب کے جتنا کچھ اقتدار حاصل ہوسکے، اسے قبول کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے۔اگر اس پوزیشن کو قبول کرلیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ملک کی موجودہ مسلمان جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی درست نہیں ہوگی، بلکہ تائید بھی ضروری ہوجائے گی۔
یہ بات واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے مراد سول سروس کے مناصب نہیں ، جیسا کہ کسی نواب صاحب نے ’’ترجمان‘‘({ FR 1032 }) کی ایک اشاعت میں یوسف؈ کے سلسلے میں فرمایا ہے، بلکہ ایک منظم جماعت کی جدوجہد کے بعد جماعتی حیثیت سے قوت حاکمہ (sovereign power) سے اختیارات لے کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا مراد ہے۔

مقتضیاتِ دین کی بروقت صراحت

اجتماع({ FR 962 }) میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت وتبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گزشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم واستقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت وجرأت کے ساتھ ادا ہوتی رہیں ۔
اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر({ FR 963 }) کے بعض فقرے میرے بعض ہم درد رفقا کے لیے باعثِ تکدّر ثابت ہوئے اور دوسر ے مقامات کے مخلص ارکان وہم دردوں میں بھی بددلی پھیل گئی ۔عرض یہ ہے کہ منکرینِ خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم،تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے ؟کیا ان کے اعتراضات وشبہات حکمت وموعظۂ حسنہ اور حلم وبردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیتِ جذبات کا پتا دے رہے تھے۔
تقریر کی صحت میں کلام نہیں ،صرف انداز تعبیر اور طرزِ بیان سے اختلاف ہے۔قرآن کا اُصول تبلیغ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ({ FR 1132 }) (آل عمران:۱۵۹ ) سے اخذ کیا جاسکتا ہے، اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں ۔مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ آپ کی عام عادت تبلیغ وتفہیم میں حکیمانہ ہے۔ اسی بِنا پر اس دفعہ خلافِ عادت لب ولہجہ کو سخت دیکھ کر تعجب ہوا۔