طبقۂ علما کو دعوت دینے کی حکمتِ عملی

عنایت نامہ مایوسی کی حالت میں پہنچا۔ اس نے میرے قلب ودماغ پر جو اثر کیا وہ احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔میں نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں ،ان کو لے کر میں ہر جماعت میں داخل ہوا لیکن ہر جگہ سے بد دل ہوکر لوٹا اور آخر کار فیصلہ کرلیاکہ اب کسی جماعت میں دخل نہ ہوں گا بلکہ انفرادی حیثیت سے جو کچھ خدمت دین ممکن ہوگی، انجام دوں گا۔اسی خیال کے تحت محلے کی مسجد میں بعد نماز فجر تفسیر حقانی اور بعد نماز عشا رحمۃ للعالمین مؤلفہ قاضی سلمان منصور پوری یکم اکتوبر۱۹۴۹ء سے سنانی شروع کی۔میرے خیالات اس کام سے اور پختہ ہوگئے۔ستمبر۱۹۵۱ء میں اتفاقیہ ایک شخص کے ذریعے مجھے’’سیاسی کش مکش‘‘کا تیسرا حصہ مل گیا۔میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا، میرے خیالات کی دنیا نے پلٹا کھایا اور اب میں جماعتِ اسلامی کی طرف متوجہ ہوگیا۔لٹریچر کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا اور پھر مسجد میں خطبات سنانے کا سلسلہ شروع کردیا۔اس کو شروع کرنے کے بعد وہ فتنہ پھوٹا جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ۔
یہاں فضا میں یکے بعد دیگرے نوبہ نو فتوے پھیل رہے ہیں جن کی نقلیں ارسال خدمت ہیں ۔اِدھر میں جماعت کے اجتماع میں شرکت کے بعد جب لوٹا تو معلوم ہوا کہ بستی میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اب اگر’’مودودی خیالات‘‘ کے لوگ مسجد میں خطبہ وغیرہ پڑھیں تو ان کو پیٹ دینا چاہیے۔چنانچہ اپنے امیر جماعت سے استفسار کیا اور انھوں نے جواب میں مشورہ دیا کہ اس سلسلے کو روک دیاجائے۔
اس دوران میں میں نے بعض بڑے علما سے خط وکتابت بھی کی اور ان حضرات کے خطوط میں سے بعض کی نقلیں بھیج رہا ہوں ۔نقلوں پر ترتیب کے لیے میں نے نمبر ڈال دیے ہیں ۔
یوں تو میں عملی کام کے لیے ساری ہدایات اپنی مقامی جماعت سے حاصل کرتا ہوں ،لیکن چوں کہ ان فتووں اور خطوط کا تعلق آپ کی ذات سے اور آپ کی تصانیف سے ہے، لہٰذا ان کو آ پ تک پہنچا رہا ہوں ۔آپ براہِ کرم ان کے جوابات تحریر فرمائیں اور اس کی اجازت دیں کہ جوابات کو شائع کیا جاسکے۔

احکامِ شریعت کی پابندی پر برہمی

ہمارے ہاں کے ایک نوجوان رکنِ جماعت اپنے بڑے بھائی کی زیر سرپرستی تجارت کررہے ہیں ۔ لین دین میں احکامِ شریعت کی پابندی اور وقت پر نماز پڑھنے کے لیے چلے جانے کی بِنا پر ان کے بڑے بھائی سخت برہم ہیں اور ان پر سختی کررہے ہیں ۔اب تک ان کے کئی خطوط میرے نام آچکے ہیں جن میں انھوں نے لکھا ہے کہ’’تیری(یعنی راقم الحروف کی) وجہ سے میرا بھائی خراب ہوگیا ہے،اس پردیوانگی طاری ہے، کاروبار میں اسے کوئی دل چسپی نہیں رہی، رات دن تیرا وظیفہ پڑھتا ہے،تو شیطان ہے، انسان کی شکل میں ابلیس ہے،ماں باپ اور اولاد میں اور بھائیوں میں جدائی ڈالتا ہے،میرے بھائی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھ،اس کے نام نہ خط لکھ نہ سہ ماہی اجتماع میں شرکت کی دعوت دے، بلکہ اس کو جماعت سے خارج کردے ورنہ…!‘‘ اِ س سلسلے میں مناسب ہدایات سے سرفراز کیجیے۔

اسلام بلا جماعت

جو شخص آپ کی جماعت کے اُصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کررہا ہو ،وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

اِقامتِ دین کی سعی ،فرض عین یا فرض کفایہ

میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں ، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق بھی ہیں ۔ اس کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ فریضۂ اقامت دین جس کے لیے یہ جماعت کام کررہی ہے ، وہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس لیے جب اس میں کچھ لوگ حصہ لے رہے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ہر ایک شخص حصہ لے۔اگر کسی شخص کی دنیوی مصلحتیں اسے اس کام سے روکتی ہیں اور وہ ان کی وجہ سے اس جماعت سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیتا ہے اور اقامت دین کے لیے ذاتی طور پر بھی علیحدہ سے کوئی کام نہیں کرتا تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اس سے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال تو بس نماز جنازہ کی سی ہے۔اگر کسی شخص کے پاس وقت اور فرصت ہے اور اس کی طبیعت چاہتی ہے تو وہ اس میں شرکت کرے اور اگر وقت وفرصت نہیں ہے اور طبیعت نہیں چاہتی تو اسے پورا اختیار ہے کہ اس میں حصہ نہ لے۔
یہ بات تو وہ فریضۂ اقامت دین کے بارے میں کہتے ہیں ۔اب رہی جماعت کی تنظیم،اس سے منسلک ہونا،اس کے امیر کی اطاعت، اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر، اور اس نصب العین کے لیے ہرقسم کی جانی ومالی قربانیاں ، تو ان امور کو وہ بالکل نوافل کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ امور تو ایسے ہیں جیسے نماز تہجد، جو اﷲ تعالیٰ کے یہاں مراتب عالیہ کے حصول کے لیے تو ضروری ہے لیکن محض بخشش و نجات کے لیے ضروری نہیں ہے۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اس راہ پر اپنی جانیں نثار کردیں اور اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی مستقبل کی زندگیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تو کیا انھوں نے یہ سب کچھ محض ایک نفل کام کے لیے کیا؟تو وہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ان کی وہ ساری قربانیاں محض بلند مراتب کے حصول کے لیے تھیں ،ورنہ ایسا کرنا ان پر فرض نہیں تھا۔ انھوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ان کے سامنے اخوان کے مثال پیش کی گئی۔ان کا انداز استدلال اس قسم کا ہے کہ اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا تو اخوان اور ایسے ہی دوسرے اہل حق جنھوں نے اﷲ کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں ، وہ لائق ستائش ٹھیرانے کے بجاے الٹے لائق ملامت ٹھیریں گے، کیوں کہ محض نفل کام کے لیے اپنی جان دینا اور اپنے پس ماندگان کو کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ جانا غلو فی الدین نہیں تو اور کیا ہے، اور اس کا مرتکب اﷲ کے نزدیک مستحق عذاب ہی ہوسکتا ہے۔

اوامرِ دین میں فریضۂ اقامت دین کی حیثیت

اکثر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا رہا ہے کہ اسلام کے ارکان کی حیثیت سے پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ،ان میں فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد شامل نہیں ہے، حالاں کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹے رکن کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔اگر ایسا ہوتا تو اسلام محض نماز،روزہ،حج اور زکاۃ تک محدود نہیں رہ سکتا تھا، بلکہ اس کے وہ تقاضے بھی ہر مسلمان کے سامنے ہمیشہ موجود رہتے جن کا شعور پیدا کرنے کے لیے علیحدہ سے ہر دور میں تحریکیں اٹھتی رہی ہیں ۔ صراحتاً تحریر فرمایئے کہ دین کے اوامر میں فریضۂ اقامت دین کی کیا حیثیت ہے۔

برائیوں کے طوفان کا مقابلہ یا خلوت نشینی

میں نے اپنے بعض اعزّہ اور بزرگوں کی خدمت میں فریضۂ اقامت دین کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش شروع کررکھی ہے۔اس سلسلے میں میرا تبادلۂ خیال ایک ایسے رشتہ دار سے ہوا جو اصطلاحی علم بھی رکھتے ہیں ۔اقامت دین کے فرض کی اہمیت کے بھی منکر نہیں ۔مگر اداے فرض کے لیے آمادہ ہوجانے کے بجاے جہلا کے سے عذرات پیش کرتے ہیں ۔ان کے پیشِ نظر یہ حدیث ہے: اِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَ إِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ وَرَأَيْتَ أَمْرًا لَا يَدَانِ لَكَ بِهِ فَعَلَيْكَ خُوَيْصَةَ نَفْسِكَ ({ FR 958 })
اس سے استدلال کرکے وہ اپنے آپ کو اداے فرض سے بری کرتے ہیں اور اس کو اتنی وسیع اور وزنی دلیل سمجھتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ان کے نزدیک پورے قرآن اور سارے ذخیرۂ حدیث کی حجت بھی غیر اہم ہے۔ مثلاً میں نے حدیث شریف مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ… الخ ({ FR 1023 })اور لتاخذن ید المسی ئِ الحدیث اور مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا۔۔۔‘‘({ FR 1150 }) الحدیث اور اسی طرح آیت کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ({ FR 1151 })(آل عمران:۱۱۰ ) اور وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ … ({ FR 1152 }) (آل عمران:۱۰۴) اور بالخصوص وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ …({ FR 1153 }) (الانفال:۲۵) سب ہی کو ان کے اطمینان کے لیے پیش کردیا اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اُس حدیث کا محمل یہ نہیں ہے کہ آپ فریضۂ اقامت دین سے سبک دوش ہوگئے ہیں !آمرین بالمعروف اور ناہین عن المنکر کی تمام تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ’’شحِّ مطاع‘‘اور’’ہواے مُتبِع‘‘ ان سب کے زمانوں میں برسر عمل تھی مگر انھوں نے مایوسی کو گناہ سمجھا اور سعی کی،تو کیا العیاذ باﷲ وہ غلطی کے مرتکب تھے؟اب میں آپ سے اس حدیث کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔

قیادت کی حکمت عملی

یہ امر تو مسلّم ہے کہ شارع کو خود اپنے احکام میں تغیرو تبدل کرنے اور تقدیم و تاخیر کرنے یا ان میں رخصتیں دینے اور استثنا نکالنے کے اختیارات حاصل ہیں ، مگر کیا شارع کے ان تصرّفات پر قیاس کرکے اور ان سے کچھ اصول مستنبط کرکے دوسرے بھی انھیں نئے پیش آمدہ مسائل پر چسپاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ؟ اور یہ اختیار آخر کس کو حاصل ہے؟‘‘

خلافت کے لیے جدوجہد یا امام مہدی کا انتظار

ایک صاحب جو علم دین سے بخوبی واقف ہیں ،خطبۂ جمعہ میں پیغمبر خدا ﷺ کی اس حدیث پر کہ’’میرے بعد۳۰سال خلافت ہوگی، بعد میں شاہی دور شروع ہوگا اور آخر میں امام مہدی صاحب جن کا حسب نسب یہ ہوگا،تشریف لائیں گے اور خلافت قائم کریں گے‘‘یوں حاشیہ آرائی کی کہ جو لوگ ظہور امام مہدی سے پہلے خلافت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہ محض ڈھونگ رچاتے اور دکان داری چلاتے ہیں ۔اس حاشیہ آرائی کے متعلق راے گرامی کیا ہے؟

سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول واحکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالات موجودہ قابل عمل نہیں ہیں ۔عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح مفہوم اور آمادگی عمل بہت کم ہے۔اسلام جس ذہنی وعملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے، اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رونما ہوجائے۔سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کا جذبہ اوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

فقہی اختلاف کی وجہ سے فرض کام سے رک جانا

میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ({ FR 1065 }) ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتأمل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔