اِقامتِ دین کی سعی ،فرض عین یا فرض کفایہ
میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں ، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق بھی ہیں ۔ اس کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ فریضۂ اقامت دین جس کے لیے یہ جماعت کام کررہی ہے ، وہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس لیے جب اس میں کچھ لوگ حصہ لے رہے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ہر ایک شخص حصہ لے۔اگر کسی شخص کی دنیوی مصلحتیں اسے اس کام سے روکتی ہیں اور وہ ان کی وجہ سے اس جماعت سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیتا ہے اور اقامت دین کے لیے ذاتی طور پر بھی علیحدہ سے کوئی کام نہیں کرتا تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اس سے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال تو بس نماز جنازہ کی سی ہے۔اگر کسی شخص کے پاس وقت اور فرصت ہے اور اس کی طبیعت چاہتی ہے تو وہ اس میں شرکت کرے اور اگر وقت وفرصت نہیں ہے اور طبیعت نہیں چاہتی تو اسے پورا اختیار ہے کہ اس میں حصہ نہ لے۔
یہ بات تو وہ فریضۂ اقامت دین کے بارے میں کہتے ہیں ۔اب رہی جماعت کی تنظیم،اس سے منسلک ہونا،اس کے امیر کی اطاعت، اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر، اور اس نصب العین کے لیے ہرقسم کی جانی ومالی قربانیاں ، تو ان امور کو وہ بالکل نوافل کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ امور تو ایسے ہیں جیسے نماز تہجد، جو اﷲ تعالیٰ کے یہاں مراتب عالیہ کے حصول کے لیے تو ضروری ہے لیکن محض بخشش و نجات کے لیے ضروری نہیں ہے۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اس راہ پر اپنی جانیں نثار کردیں اور اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی مستقبل کی زندگیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تو کیا انھوں نے یہ سب کچھ محض ایک نفل کام کے لیے کیا؟تو وہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ان کی وہ ساری قربانیاں محض بلند مراتب کے حصول کے لیے تھیں ،ورنہ ایسا کرنا ان پر فرض نہیں تھا۔ انھوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ان کے سامنے اخوان کے مثال پیش کی گئی۔ان کا انداز استدلال اس قسم کا ہے کہ اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا تو اخوان اور ایسے ہی دوسرے اہل حق جنھوں نے اﷲ کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں ، وہ لائق ستائش ٹھیرانے کے بجاے الٹے لائق ملامت ٹھیریں گے، کیوں کہ محض نفل کام کے لیے اپنی جان دینا اور اپنے پس ماندگان کو کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ جانا غلو فی الدین نہیں تو اور کیا ہے، اور اس کا مرتکب اﷲ کے نزدیک مستحق عذاب ہی ہوسکتا ہے۔