ایک مقامی جماعتِ اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں :
… صاحب عرصے سے سرگرمی سے کام کررہے ہیں ، رکنیت کے اہل ہیں ، عرصے سے ان کی درخواست پڑی ہے… ان کی ذاتی زندگی شریعت کے مطابق ہے۔مگر دکان کے حسابات اصلی پیش نہیں کرتے…کیوں کہ انکم ٹیکس والے نفع کی فی صدی اتنی زیادہ لگاتے ہیں کہ اگر اصل بِکری (sale) دی جائے تو ساری آمدنی ٹیکس میں چلی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے…
اس پر حلقے کی جماعتِ اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں :
درخواست کنندہ نہایت صالح نوجوان ہے اور جماعت کے کاموں میں کافی ایثار اور سرگرمی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔اس کے بار ے میں صرف انھی جعلی حسابات کا معاملہ ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اگر صحیح حسابات پیش کیے جائیں تو سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی نذر نہ صرف منافع کی کمائی بلکہ پونجی کا ایک حصہ بھی ہوجاتا ہے۔ان حالات میں وہ نہایت مجبوری کی حالت میں غلط حسابات پیش کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ ایک ایسے شخص کو جو جان بوجھ کر غلط بات کو صحیح بناکر پیش کرتا ہے،رکنیت کے لیے کیسے قبول کرلیں ۔چوں کہ یہ ایک منفرد کیس نہیں ہے…اس لیے اپنی اور حلقے کی مجلس شوریٰ کی راہ نمائی کے لیے یہ درخواست آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں کہ آپ ہمیں اس کے متعلق مشورہ دیں کہ ایسے حالات میں ہم کیا رویہ اختیار کریں ؟
مفتی: مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
اقامتِ دین اور اُسوہ صحابہ کرامؓ
صحابہؓ کی زندگی کو دیکھیے تو تعجب ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے، اُونچے نیچے، محتاج اور غنی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع خاندان کے رشتے میں پروے گئے تھے۔ ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ہوتی تھی اور ایک کا فاقہ سب کا فاقہ ہوتا تھا۔ایک کا بوجھ اُٹھانے کے لیے سب کے بازو حرکت میں آجاتے تھے۔مگر ہمارا حال کیا ہے؟اگر ہمارے بچے فاقہ کشی کررہے ہیں اور ہم فکر ِمعاش میں بدحواس ہورہے ہیں تو ہم اُن رفیقوں کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں جو اِن مشکلات کی تلخیوں سے نا آشنا ہیں ۔ کبھی کبھی اس اُلجھن میں پڑ جاتا ہوں کہ وہ زندگی جو عہدِ رسالت وصحابہ کے اندر پیدا ہوگئی تھی اس عہد کے لیے خاص تو نہ تھی ۔کبھی یہ خیال گزرتا ہے کہ اس زندگی کی فطرت ہی ایسی ہے کہ یہ عام نہیں ہوسکتی۔میں سوچتا ہوں کہ ہمیں اپنے جذبۂ رفاقت کو اتنا زور دار بنانا چاہیے کہ جماعت ایک خاندان کی شکل اختیا رکرجائے، اور جماعت کے استحکام کے لیے یہ ایک لازمی چیز ہے۔
دعوت کے اثر کے لیے سچائی اور تقویٰ کی ضرورت
]ملازمت چھوڑے کی وجہ سے[ عوام میں میری بے اثری بڑھ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ذوق وشوق سے دورانِ ملازمت میں وہ میری بات سنا کرتے تھے یا حمایت کا دم بھرا کرتے تھے ، اب وہ ختم ہورہا ہے۔ بلکہ میری باتوں کا اُن پر اُلٹا اثر ہوتا ہے۔مہربانی فرماکر راہ نمائی کیجیے۔
حکمت ِ تبلیغ
ایک شخص کوایک مدرسے میں تبلیغ کے لیے ملازم رکھا گیا ہے ۔اب مدرسے کے منتظمین خود ہی اس کی تبلیغی مساعی کوروکنا چاہتے ہیں ۔مثلاً بعض آیات بچوں کو یاد کرانے میں وہ مانع ہوتے ہیں ۔ ایسی چند آیات درج ذیل ہیں :
(۱) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ({ FR 1026 }) ( المائدہ:۵۱)
(۲) وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۔۔۔ ({ FR 1027 }) ( البقرہ:۱۹۰)
(۳) وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ… ({ FR 1028 }) (المائدہ:۴۷)
…ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ… ({ FR 1029 }) (المائدہ:۴۵ ) ۔۔۔ہُمُ الکٰفِرُوْنَ ({ FR 1030 }) ( المائدہ:۴۴)
اب ایسے شخص کے متعلق شریعت کا کیاحکم ہے؟اسے مدرسے میں رہنا چاہیے یانہیں ۔
میں نے ایک طالب علم کو جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دی اور زبانی طورپر بھی اس کو جماعت کے نصب العین کی طرف دعوت دیتا رہا،جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب وہ اس مقصد کے لیے اپنے آپ کو بالکل وقف کرنے کا تہیہ کرچکا ہے۔نتیجے کے طورپر اس کا ماحول بھی اس کا دشمن ہورہا ہے اور وہ بھی اس سے سخت بیزار ہے۔اب اس کی خواہش یہ ہے کہ اپنے مقصد کی خاطر ہجرت کرکے دارالاسلام چلا جائے۔ اس کی والدہ بعض شرائط پر راضی ہوگئی ہیں مگر والد سے اجازت ملنے کی کوئی توقع نہیں ۔ اس لیے اس نے مجھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا والدین کی اجازت اور مرضی کے علی الرغم دارالاسلام ہجرت کر جائوں ؟‘‘ میں نے اس کو جواب دے دیا ہے کہ ’’مکہ سے مدینہ جانے سے قبل تمام مہاجرین نے اپنے والدین سے اجازت نہیں مانگی تھی۔‘‘ اس کا دوسرا استفسار یہ تھا کہ’’ کیا جماعت میری پشت پناہی پر آمادہ ہوگی؟کہیں ایسا نہ ہو کہ میں … وہاں بُرے سلوک اور مصائب سے دوچار ہوں ۔ ‘‘ اس کے جواب میں میں نے اس کو لکھ دیا ہے کہ ’’گو اس کے متعلق صاف صاف کچھ کہنا میرے لیے مشکل ہے، مگر اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ نظامِ باطل کے تحت ہزاروں روپے کی کمائی۱ ور ساری دنیوی لذتیں نظامِ حق کی جدوجہد کی خاطر فقر وفاقہ کی زندگی کے مقابلے میں ہیچ ہیں ۔رسولِ عربیؐ کا اسوہ،جس کے اتباع کا ہم مسلمان دم بھرتے ہیں ، ہم کو یہی بتاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود تم کو یقین رکھنا چاہیے کہ جماعت ہمیشہ اور ہر وقت ایسے لوگوں کی پُشت پناہی پر آمادہ ہے جونظامِ باطل سے بھاگ کر نظامِ حق کی طرف آرہے ہوں ۔ بلکہ وہ ایسے لوگوں کا خیر مقدم کرے گی بشرطیکہ وہ صرف حق پرست اور حق طلب ہوکر جارہے ہوں ۔‘‘
ا ب ان امور کے متعلق براہِ راست آپ سے ہدایتیں مطلوب ہیں ۔
اس سلسلے میں ایک چیز اور بھی سامنے آگئی ہے۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ،میں ایک مدرسے میں معلم ہوں ۔جب میری ان تبلیغی سرگرمیوں کی اطلاع حکومت کے محکمۂ تعلیمات کو ملی تو اس نے مجھ سے چند سوالات کیے، جن میں مجھ سے جماعت کی حیثیت ،اس کے مقاصد، امیرِ جماعت کی شخصیت وغیرہ اُمور کی بابت استفسار کرتے ہوئے یہ جواب طلب کیا گیا ہے کہ تم ایک فرقہ وار جماعت کے رُکن کیوں ہو اور فلاں طالب علم کو کیوں اس بات پر ورغلاتے ہو کہ وہ موجودہ نظامِ تعلیم کو ترک کرکے خلاف مرضیِ والدین دیگر ممالک کو ہجرت کرجائے… وغیر ذالک۔ فرمایے اس مراسلے کا کیا جواب دوں ؟ میرا ارادہ تو صاف صاف اظہارِ حق کا ہے ۔
امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینے کا طریقہ
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں ایک عرصے سے پریشان ہوں ۔ نہی عن المنکر کے متعلق جب میں احکام کی شدت کو دیکھتی ہوں اور دوسری طرف دنیا میں منکر کا جو حال ہے اور جتنی کثرت ہے ،اس کا خیال کرتی ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان احکام پر کیسے عمل کیا جائے۔اگر برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کے بجاے زبان سے منع کرنا مطلوب ہو (کیوں کہ ہاتھ سے نہ سہی،مگر زبان سے کہنے کی قدرت سواے شاذصورتوں کے ہوتی ہی ہے) تو پھر تو انسان ہر وقت اسی کام میں رہے، کیوں کہ منکر سے تو کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہوتی۔ لیکن بڑی رکاوٹ اس کام میں یہ ہوتی ہے کہ جس کو منع کیا جائے،وہ کبھی اپنی خیر خواہی پر محمول نہیں کرتا بلکہ اُلٹا اسے ناگوار ہوتا ہے۔میرا تجربہ تو یہی ہے کہ چاہے کسی کو کتنے ہی نرم الفاظ میں اور خیر خواہانہ انداز میں منع کیا جائے،مگر وہ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا، بلکہ کوئی تو بہت بے توجہی برتے گا، کوئی کچھ اُلٹا ہی جوا ب دے گا اور اگر کسی نے بہت لحاظ کیا تو سن کر چپ ہورہا ۔مگر ناگوار اسے بھی گزرتا ہے اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔
مثلاًہم راہ چلتے میں کسی عورت کو بے پردہ دیکھتے ہیں تو اگر اس کو سرراہ ہی منع نہ کیا جائے تو دوسرا کون سا موقع ہمیں ایک ناواقف عورت کو سمجھانے کا مل سکے گا۔کیا راستے میں روک کر سمجھانا آپ کے نزدیک مناسب ہے؟اسی طرح جس عورت کا چال چلن درست نہ ہو،اس کو کیسے نصیحت کی جائے؟ چاہے کوئی عورت کتنی ہی رسواے زمانہ ہو لیکن نصیحت کرو تو برا مانے گی۔ اگر درس یااجتماع میں بلایا جائے تو کبھی نہیں آئے گی۔پھر ان کے معاملے میں اس فریضے کوا دا کرنے کی صورت کیا ہو؟آخر میں اس بارے میں بھی آگاہ فرمائیں کہ عورت کے لیے کیا مردوں پر تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے؟
عوام کے جاہلانہ عقائد کے ساتھ سلوک
مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور شر ک میں مبتلا ہے۔قبروں پر حاجات لے کر جانے اور نہ جانے کا سوال بہت اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔اس سلسلے میں اگر مصلحتاً سکوت کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کو قبول کرنے کے ساتھ لوگ شرک کرنے کی گنجائش کو بھی بحال رکھیں ۔ یوں بھی مصلحت اندیشی تابکَے، آخر بھانڈ اپھوٹتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوکے رہتا ہے کہ ہم قبروں پر جاکر حاجات طلب کرنے کے خلاف ہیں ۔ جہاں یہ بات کھلی بس فوراًہی آدمی کو وہابی کا سرٹیفکیٹ ملا اور کسی کو وہابی قراردینے کے بعد لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدکنے لگتے ہیں کہ کہیں یہ بلّوریں عقائد کے اس محل پر پتھر نہ پھینک مارے جس کی تعمیر میں ان کے آبائ و اجداد نے پسینے بہاے ہیں اور جس کی حفاظت میں عمریں گزار دی گئی ہیں ۔میں بھی اسی خدشے کا ہدف بن رہا ہوں ۔
نظامِ اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب
جن لوگوں سے پاکستان کے آئندہ نظام کے متعلق گفتگو ہوتی ہے وہ اکثر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ اور دوسرے اہلِ علم اسلامی حکومت کا ایک دستور کیوں نہیں مرتب کرتے تاکہ اسے آئین ساز اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرایا جائے؟ اس سوال سے صرف مجھ کو ہی نہیں ، دوسرے کارکنوں کو بھی اکثر وبیش تر سابقہ پیش آتا ہے۔گو ہم اپنی حد تک لوگوں کو بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن ضرورت ہے کہ آپ اس سوال کا جواب ’’ترجمان القرآن‘‘ میں دیں ، تاکہ وہ بہت سی غلط فہمیاں صاف ہوسکیں جن پر یہ سوال مبنی ہے۔
توسیع اور استحکام کے درمیان توازن
اگر یہ کہا جائے کہ اسلام اس تیز رفتاری سے پھیل رہا تھا کہ اس مناسبت سے اس میں داخل اور شامل ہونے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلفاے اسلام نے نظام اسلامی اور مسلم معاشرے کو پورے طورپر استوار اور مستحکم (consolidate) کیے بغیر اس کی توسیع (expansion) کیوں ہونے دی؟
آج کے مسلمان کی بات تو الگ رہی، کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ خلافتِ راشدہ کے عہد میں اکثر وبیش تر جو لوگ اسلام لائے،وہ زیادہ تر سیاسی اقتدار کے خواہاں تھے؟