افضل المؤمنین

کیا بحیثیت خلیفہ اول و بحیثیت کبر سنی و دیگر محاسن کے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دوسرے خلفا یعنی حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت علیؓ پر فضیلت و برتری حاصل ہے؟ یہ مسئلہ ایک مدت سے زیر بحث ہے۔ اسے حل فرما کر ممنون کیجیے۔

حضرت علی ؓ اور فَدَک کی جائداد

آیت تطہیر میں حضرت علی ؓ شامل ہیں یا نہیں ؟اگر ہیں تو فدک کی جائداد مانگتے وقت وہ حق پر تھے یا نہیں ؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ آیت تطہیر میں شامل ہونے کی وجہ سے حضرت علیؓ کی طرف سے کسی وقت بھی ایسی بات یعنی مطالبۂ فدک کا گمان نہیں ہوسکتا۔وضاحتاً دو صورتیں پیدا ہیں ۔ ایک فدک کا مانگنا، دوسرے فدک کا نہ دیا جانا… ایسی صورت میں صرف ایک ہی چیز درست ہوسکتی ہے۔ یا تومانگنا،یا نہ دیا جانا۔اس میں کون سی چیز صحیح ہے۔ترجمان القرآن بابت ماہ نومبر۱۹۵۸ء میں حضرت علیؓ کی طرف آپ نے یہ کئی جگہ اشارہ کیا ہے کہ حضرت علیؓ کو علم تھا کہ رسولؐ کی میراث نہیں ہوتی، پھر بھی انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس کا مطالبہ کیا، یہ کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟

حضرت علیؓ کی اُمید واریِ خلافت

جماعتِ اسلامی کے ارکان بالعموم موجودہ زمانے کے جمہوری طریقوں پر جو تنقیدیں کرتے ہیں ،ان میں من جملہ اور باتوں کے ایک بات یہ بھی کہاکرتے ہیں کہ جو شخص خود کسی منصب یا عہدے کا امید وار ہو یا اس کا دعوے دار بنے،اسلام کی رُو سے وہ اس کا مستحق نہیں ہے کہ اسے منتخب کیا جائے۔اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ جو خلافت کے اُمید وار یا دعوے دار تھے،اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟

رسول اﷲ ﷺ کی میراث کا مسئلہ

باغ فد ک کے مسئلے پر آپ کی تحقیق کیا ہے ؟اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے حضرت سیّدہ فاطمہ ؓ پر ظلم کیا گیا۔ کیا آں حضورؐ کی میراث میں سے حضرت فاطمہ ؓ کا حق نہ دینا خلیفۂ اوّل ودوم کے لیے درست تھا؟

دیگر ادیان و مذاہب کی کتابوں سے استفادہ

آپ کی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے مطالعے کے بعد میرا یقین تھا کہ سنسکرت زبان پر آپ کا عبور ایک لازمی چیز ہے۔ مگر اس شام سیر کے وقت دورانِ گفتگو میں آپ کا یہ فرمانا کہ آپ نے سب کچھ ویدوں کے بارے میں انگریزی کتابوں سے لیا ہے، سچ مُچ یہ جملہ سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شخص برقی رَو کے چھو جانے سے جھٹکا سا محسوس کرتا ہے۔ جیسے آپ نے فرمایا تھا کہ ایچ جی ویلز کا اسلام کے بارے میں براہ راست کیا علم ہے جو انھوں نے اسلام اور حضرت محمد (ﷺ) کی پاکیزہ زندگی پربے معنی نکتہ چینی کرکے رکھ دی، بعینہٖ آپ کا سنسکرت زبان سے براہِ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے وید بھگوان کے بارے میں آپ کے احساسات مستندنہیں کہے جاسکتے۔آپ تسلیم کریں گے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں آزادانہ ترجمہ کرنے پر بھی اصل منشا پورا نہیں ہوتا،چہ جائیکہ اسے پھر تیسری زبان میں پیش کیا جائے۔ رشی دیا نند نے تو مہی دھرا اور رسائن آچاریہ کے وید بھاشیہ کو ہی لغو ٹھیرایا ہے،پھر کہاں آپ ’’مَیکس مُلر‘‘ اور دیگر یورپین اصحاب کے ترجمے سے راے قائم کرتے ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ان نیک اور بلند خواہشات کا جو آپ ہندوئوں کے دل ودماغ سے تعصب دُور کرکے انھیں اسلام سے صحیح طورپر روشناس کرانے کے لیے اپنے دل میں رکھتے ہیں ،احترام کرتے ہوئے میں مؤدّبانہ گزارش کروں گا کہ آپ آئندہ اپنی ان کتابوں پر نظر ثانی فرماتے وقت،جن میں خاص طور پر ہندولٹریچر کے حوالے (references) پائے جاتے ہیں ،کسی ایسے شخص کی امداد حاصل کریں جو ہندو ابھیاس اور ہندو لٹریچر پر براہِ راست عبور رکھتا ہو۔(مجھے ذاتی طور پر ایسے ایک دو اصحاب سے قربت کا فخر حاصل ہے)۔اُمید ہے کہ آپ کی ذات مبارک پر میرا منشا واضح ہوگیا ہوگا۔

تاریخ کا دورِ کمال ، تاریخ اسلام کا دورِ اولین

آپ نے رسالہ’’ اسلام اور جاہلیت‘‘ کے اخیر میں یہ فرمایا ہے کہ ’’تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار ہوگئے تھے، نہ ان سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے، نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔‘‘اگر صاف گوئی پر معاف فرمایا جائے تو میں نہایت ادب وانکسار سے گزارش کروں گا کہ آپ نے یہاں طرف داری سے کام لیا ہے،یہاں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں صرف ایک بھگوان کرشن کی شخصیت پیش کروں گا، جن کی دو حرفی تقریر نے کہ: ع
فعل سے وابستگی واجب نہیں تیرے لیے
فرض کی تکمیل کر، خواہش صلہ کی چھوڑ دے
ویر اَرجن جیسے مجاہد پر ایک ہیبت کا عالم طاری کر دیا اور اس کے بازو میں برقی طاقت پیدا کردی، اور اس تاریخی واقعے کی یادگار میں گیتا جیسی ممتاز کتاب ظہور میں آئی۔بڑے بڑے مخالف بھی کرشن بھگوان کی زندگی میں کوئی اخلاقی رخنہ نہ پیش کرسکے ۔’’بھگوان ‘‘کا لفظ میں نے صفتی معنوں میں لیا ہے،اوتار کے معنوں میں نہیں ۔ آپ نے ایسی شخصیتوں کو نظر انداز کرکے اسلام سے پہلے کی تاریخ کے معاملے میں تعصب کا ثبوت دیا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ میری آنکھیں ترستی رہیں کہ آپ کسی جگہ کسی ہندو کیرکٹر کا نمونہ پیش کریں ،مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
آپ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں میرے خطوط اور اپنے جوابات شائع فرما کر اسلامی پریس کے لیے دل چسپی کا سامان مہیا کردیا۔ دہلی کا ایک روزنامہ’’حکومت الٰہیہ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے ان خطوط کا حوالہ دے کر آپ پر خوب برسا ہے۔عجیب منطق ہے کہ دیدہ دانستہ عین اسلامی تعلیم کو جھٹلایا جارہا ہے۔
مرحوم مولانا محمد علی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’جہاں تک مسلمانوں کے ایمان کا تعلق ہے ،میں ایک فاسق وفاجر مسلمان کو گاندھی جی سے بہتر سمجھتا ہوں ۔‘‘لیکن آپ نے اصل اسلام پیش کرکے اور مسلمانوں کی ایمانی قوت کو الم نشرح کرکے نہ صرف مسلمانوں کی ،بلکہ تمام انسانیت کی زبردست خدمت انجام دی ہے۔ آپ کے اسلامی لٹریچر کے طفیل وہ محسوس کررہے ہیں کہ انھیں کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہوگئے ہیں ۔مگر میری گزارش یہ ہے کہ جب آپ کی حکومتِ الٰہیہ ہر فر دِبشر کے لیے انسانیت کے ناطے سے یکساں جاذبیت رکھتی ہے اور آپ کا منشا بھی یہی ہے کہ بلحاظ مذہب وملت اسے عوام تک پہنچایا جائے ۔پھر آپ اپنی مساعی(struggle) کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود رکھتے ہیں ؟

گائے کی تعظیم اور پوجا کی تاریخ

آپ گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی، ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں ۔

معقول آدمیوں کے جاہلانہ عقائد کی وجہ

گائے کی تعظیم وتقدیس جو ہندو بھائیوں میں رائج ہے،اس کی وجہ سے سیکڑوں دفعہ ہندو مسلم فسادات واقع ہوچکے ہیں ۔آخر یہ کیا مسحوریت ہے کہ ہندوئوں میں بڑے بڑے معقول عالم موجود ہیں لیکن کوئی اس مسئلے کی نوعیت پر غور نہیں کرتا،حتیٰ کہ گاندھی جی جیسے فہمیدہ اور جہاں دیدہ لیڈ ر بھی مذہبیت کی اُسی کشتی پر سوار ہیں جسے عوام نے ایسے ہی چند مسائل پر جوڑ ملا کر تعمیر کیا ہے۔

تناسخ کا عقیدہ

تناسخ کا عقیدہ ہندو قوم کے ہاں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ہندوئوں کے سوا کوئی دوسری قوم بھی اس کی قائل ہوئی ہے یا نہیں ،تاہم یہ عقیدہ بھی سنجیدہ تنقید کا مستحق ہے۔

گرنتھ صاحب اور انسانیت کی راہ نمائی

سکھ قوم کی مذہبی کتاب ’’گرنتھ‘‘ صرف اخلاقی پندو نصائح کا مجموعہ ہے اوراس کو بلحاظ موضوع ومباحث ’’گلستاں ‘‘،’’بوستاں ‘‘ وغیرہ کتا بوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے صالح اور صوفی منش بزرگوں کے ارشادات ونصائح اس میں جمع کیے گئے ہیں ۔ کتاب کو مدوّن کرنے والے کا منشا کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس منشا کے بالکل خلاف اب یہ ایک قوم کی الہامی کتاب بن گئی ہے۔ حالاں کہ اس میں نہ تو تمدنی مسائل سے بحث ہے ،نہ معاشرت سے کوئی سروکار،نہ معاشیات وسیاسیات میں اس میں کوئی راہ نمائی مل سکتی ہے۔ مگر میری عقل کام نہیں کرتی کہ تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ تک کیوں کر اس پر مطمئن ہیں ؟