پاکستان میں مسیحیت کی ترقی کے اصل وجوہ

اس ملک کے اندر مختلف قسم کے فتنے اٹھ رہے ہیں ۔سب سے زیادہ خطرناک فتنہ عیسائیت ہے۔ اس لیے کہ بین المملکتی معاملات کے علاوہ عام مسلمانوں کی اقتصادی پس ماندگی کی وجہ سے اس فتنے سے جو خطرہ لاحق ہے،وہ ہر گزکسی دوسرے فتنے سے نہیں ۔
اندریں حالات جب کہ اس عظیم فتنے کے سدباب کے لیے تمام تر صلاحیت سے کام لینا ازحد ضروری تھا، ابھی تک جناب کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی دکھائی نہیں دیتی،بلکہ آپ اس فتنے سے مکمل طور پر صرف نظر کرچکے ہیں ۔ ابھی تک اس طویل خاموشی سے میں یہ نتیجہ اخذ کرچکا ہوں کہ آپ کے نزدیک مسیحی مشن کی موجودہ سرگرمیاں مذہبی اعتبار سے قابل گرفت نہیں اور اس فتنے کو اس ملک میں تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق حاصل ہے،خواہ مسلمانوں کے ارتداد سے حادثہ ٔ عظمیٰ کیوں کر ہی پیش نہ ہو۔ مہربانی فرما کر بندے کی اس خلش کو دور کریں ۔

قبولیت ِدُعا کے لیے قبروں پر چلہ کشی

مشائخ صوفیہ کے بعض تذکروں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ فلاں صاحب نے فلاں بزرگ کی قبر پر مراقبہ اور چلہ کیا؟ اور یہ بھی کہ فلاں بزرگ کا یہ قول اور تجربہ ہے کہ فلاں قبر پر اﷲ سے دعا مانگنا قبولیت کا سبب ہوتا ہے؟اس کی دین میں کیا اصل ہے؟

دُعا میں بزرگوں کی حرمت وجاہ سے توسل

یہ جو دُعائوں میں ’’بجاہ فلاں ‘‘اور ’’بحرمت فلاں ‘‘ کا اضافہ ملتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ سنت رسولؐ کیا بتاتی ہے؟ صحابہؓ کا کیا معمول رہا ہے؟ اور اس طرح (بجاہ… بحرمت) دُعا مانگنے سے کوئی دینی قباحت تو لازم نہیں آتی؟

میں نے ایک مرتبہ دریافت کیا تھا کہ بجاہ فلاں یا بحرمت فلاں کہہ کر خدا سے دعا کرنے کا کوئی شرعی ثبوت ہے یا نہیں ؟آپ نے جواب دیا تھا کہ اگرچہ اہل تصوّف کے ہاں یہ ایک عام معمول ہے لیکن قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہوسکی۔میں اس سلسلے میں ایک آیت قرآنی اور ایک حدیت پیش کرتا ہوں ۔سورۂ البقرہ میں اہل کتاب کے بارے میں آیا ہے:
وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ( البقرہ:۸۹)
’’یعنی بعثت محمدی سے پہلے یہودی کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔‘‘
اس کی تفسیر میں امام راغبؒ نے مفردات میں فرمایا ہے:
اَیْ یَسْتَنْصِرُوْنَ اللّٰہ بَبَعثَۃِ مُحمَّدٍ({ FR 1529 }) ’’یعنی بعثت محمدی کے ذریعے اﷲ سے مدد مانگتے تھے۔‘‘
وَقِیْلَ کَانُوْا یَقُوْلُونَ اِنَّا لَنُنْصَرُ بِمُحمَّدٍ عَلَیہ السلام عَلَی عَبَدَۃِ الْاَوْثَانِ۔({ FR 1530 })
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہودی یوں کہتے تھے کہ ہم کو بت پرستوں کے مقابلے میں محمد علیہ السلام کے ذریعے سے نصرت بخشی جائے گی۔‘‘
وَقِیْلَ یَطْلُبُوْنَ مِنَ اللّٰہِ بِذْکٰرِہِ الظَّفَرَ({ FR 1531 }) ’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کے ذریعے اﷲ سے فتح مانگتے تھے۔‘‘
ترمذی شریف کے ابواب الدعوات میں ایک حسن صحیح غریب حدیث مروی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اﷲ سے دُعا کریں کہ وہ میری تکلیف کو دور کردے۔آپﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دُعا کروں ، اور اگر صبر کرسکتے ہو توصبر کرو، صبر تمہارے لیے بہتر ہے۔اس نے عرض کیا: آپ دُعا فرمائیں ۔ آپﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا اور یہ دعا پڑھنے کی ہدایت فرمائی:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ۔({ FR 1532 })
’’خدایا! میں تیرے نبی محمد (ﷺ) نبی رحمت کے ذریعے سے تجھ سے دُعا کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔میں نے اپنی اس حاجت کے لیے اے پروردگار تیری طرف توجہ کی ہے، تاکہ تو میری حاجت پوری کرے۔ پس اے اﷲ! میرے حق میں محمد( ﷺ) کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
کیا اس آیت اور اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ دُعا میں بحرمت سیّد المرسلینؐ ،یا بجاہ نبی ؐ، بطفیل نبی ؐ ،یا ببر کت حضورؐ کہنا صحیح اور جائز ہے؟

مسئلہ حیات النبیﷺ

آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبی کا مسئلہ ہر وقت گونجتا رہتا ہے اور علماے کرام کے نزدیک موضوع سخن بنا ہوا ہے۔شروع میں تو فریقین اپنی اپنی تائید میں علمی دلائل دے رہے تھے مگر اب تکفیر بازی،طعن وتشنیع اور پگڑی اچھالنے تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ الا ماشاء اﷲ۔
بعض مساجد میں بآواز بلند کہا جارہا ہے کہ انبیا اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ دنیا میں زندہ تھے اور حیات النبی کا منکر کافر ہے۔ بعض دوسرے حضرات حیات جسمانی کے عقیدے کو مشرکانہ بلکہ منبع شرک قرار دے رہے ہیں ۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہوتا ہے، وہاں ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو قرآن کریم اور خبر متواتر کے خلاف نہ ہو،مانی جاسکتی ہے۔لیکن جب بات عقیدے کی حد تک پہنچ جائے تو وہاں قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔آپ براہِ کرم میرے دل کی تسلی اورتشفی کے لیے مسئلہ حیات النبیﷺ پر روشنی ڈالیں ۔