آیت فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ({ FR 1505 }) (یونس:۹۴ (سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب خود پیغمبر اسلام بھی قرآن کی وحی کے متعلق شک میں پڑ جاتے تھے تو اس صورت میں شک کو نکالنے کے لیے آپ کو حکم ہوا کہ اہل کتاب سے آپ اپنے شک کو نکلوا لیجیے، جس سے واضح ہے کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام کو بھی شک میں ڈالنے والی چیز ہے اور اہل کتاب کی کتاب اور تعلیم ایسی چیز ہے کہ قرآن کے متعلق شک رکھنے والے کو بھی وہی دُور کرتی ہے، تو اس صورت میں بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور سے اور مسیح کے بعد آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ اور قرآن کریم کی نسبت تو یہ ہے، مگر تورات کی نسبت لکھا ہے قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ({ FR 1506 }) (آل عمران:۹۳ ( جس سے ظاہر ہے کہ توراۃ قابل استشہاد ہے اور وہ اس صورت میں کہ محفوظ ہو اور محرف و مبدل نہ ہو۔ اور یہ صورت بھی پہلی صورت پیش کردہ کی موید ثابت ہوتی ہے۔

صحابہ کرامؓ کی باہمی اُلفت و محبت

مجھے چند روز قبل فضائل صحابہ کے موضوع پر اظہار خیال کا موقع ملا۔میں نے حسب توفیق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ({ FR 1660 }) (الفتح:۲۹ ) کی تشریح کی۔ بعد میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف تو صحابہ (رضی اللّٰہ عنہم) کی یہ صفت بیان کررہا ہے لیکن واقعات کی تصویر اس کے برعکس ہے۔جنگ جمل وصفین میں دونوں طرف اکابر صحابہ (رضی اللّٰہ عنہم) موجود تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی ایک فریق کے ہمراہ تھیں ۔ ان واقعات کی روشنی میں رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ کی صحیح توجیہ کیا ہوسکتی ہے؟ میں نے حتی الوسع اس معاملے پر غور کیا۔ بعض کتب دینیہ اور ذی علم احباب سے بھی رجوع کیا مگر کلی اطمینان نہ ہوسکا۔ آپ براہِ کرم ان واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ا رشاد قرآنی کی صحیح تأویل وتوجیہ بیان کریں جس سے یہ اشکال رفع ہوجائے۔

کچھ علما کی طرف سے آپ کے خلاف یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں صحابہ کرام پر نکتہ چینی کی ہے اور ان کے مقام و مرتبے کو پوری طرح سے ملحوظ نہیں رکھا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیے کہ احترام صحابہؓ کے بارے میں آپ کا مسلک کیاہے اور آیا اس سلسلے میں اہل سنت کے درمیان میں کوئی اختلاف راے پایا جاتا ہے۔

صحابہ کرامؓ کو بُرا بھلاکہنا

صحابہ کرام ؓ کو برا بھلا کہنے والا، ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنے والا جو دین داروں کی شان سے بعید ہیں ،فاسق وگناہ گار ہے یا نہیں ؟

حدیث اور توہین صحابہ

بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: أَصْحَابِي أَصْحَابِي فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي۔۔۔إِلَى قَوْلِهِ۔۔۔ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ({ FR 1621 })
قیامت کے دن ’’میرے بعض اصحاب‘‘کو بائیں طرف سے گرفتارکیا جائے گا تو میں کہوں گا (انھیں کچھ نہ کہو) یہ تو میرے اصحاب ہیں ،یہ تو میرے اصحاب ہیں ۔ جواب ملے گا کہ تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹی چال چلے۔ اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ کی طرح کہوں گا کہ خداوندا! جب تک میں ان میں موجود رہا،ان کے اعمال کا نگران رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان کا رقیب تھا۔
اس روایت سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی توہین اور تحقیر مترشح ہوتی ہے۔کیا یہ روایت صحیح ہے؟
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ تعدادایسے لوگوں کی بھی ہے جنھیں مجرم کی حیثیت سے فرشتے قیامت کے دن بائیں طرف سے گرفتار کریں گے اور یہ کہ انھوں نے دنیاکی زندگی میں سرورِ دوعالمﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کے طریقے کو چھوڑ کر غلط روش اختیار کی۔
اصحاب سے مراد جناب کے صحابہؓ ہی ہیں ،اس کے قرائن یہ ہیں :
(۱) لفظ اصحاب خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جنھوں نے آپ کی زندگی میں ایمان کے ساتھ آپ سے تعاون کیا اور آپ کی رفاقت اختیار کی،انھیں اصحاب کا لقب دیا گیا۔
(۲) ایک روایت میں خود حضورﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ(اے جماعت صحابہ!) تم میرے اصحاب ہو اور جو اہل ایمان تمھارے بعد آنے والے ہیں ،ہمارے اخوان ہیں ۔({ FR 1591 })
(۳) حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی فضیلت، بزرگی اور منقبت کے سلسلے میں جو روایات آئی ہیں ،ان میں بھی اصحاب کا اطلاق صحابہ کرام پر ہے ۔
(۴) حضور ﷺ کے احتجاج پر فرشتے جواباً عرض کریں گے کہ ’’آپ کے جدا ہوجانے کے بعد ان لوگوں نے آپ کے طریقے کو چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے نئے طریقے ایجاد کرلیے۔ حدیث إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ({ FR 1513 }) کے الفاظ اس پر شاہد ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک آپؐ زندہ رہے تو یہ لوگ آپ کے وفادار ساتھی کی طرح آپؐ کے دین کے پیرو کار رہے، لیکن جوں ہی آپ نے اس عالم ناسوت کو چھوڑا تو انھوں نے پھر دین میں رخنے ڈالنے شروع کیے۔
(۵)پھر آں جناب حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح معذرت فرمائیں گے۔({ FR 1592 })
ان قرآنی الفاظ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ معاملہ حضورﷺکے اصحاب کا ہے۔

گزارش ہے کہ آپ کی علمی تحریرات سے دوسری بحثوں کے علاوہ صحابہ ذوی النجابہ کے متعلق بھی معیارِ حق ہونے نہ ہونے کے عنوان سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ مجھے اس اختلاف کی حقیقت سمجھ میں نہیں آتی اس لیے سخت تشویش ہے۔ فریقین کے لٹریچر پڑھنے سے جو مواد سامنے آیا ہے اس میں ثمرۂ اختلاف کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ صحابہ کرامؓ کو مرحوم و مغفور آپ بھی مانتے ہیں اور معصوم دوسرے حضرات بھی نہیں سمجھتے۔ نیز صحابہ کا اجماع اور مجموعی طرزِ عمل آپ کے نزدیک بھی حجت ہے اور ہر ہر صحابی کا ہر ہر فعل مطلقاً ان کے نزدیک بھی قابل تقلید اور حق کا معیار نہیں ۔ باقی ہر صحابی کی مجموعی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے، اس کے فریقین قائل ہیں ۔ رہی یہ بات کہ حضرات صحابہ کرام کے متعلق تاریخی ریسرچ کرکے آپ نے جو صحیح یا غلط واقعات لکھے ہیں ان کو اس بحث کی بنیاد بنایا جائے تو میرے ناقص خیال میں ان جزوی اور انفرادی واقعات کے وقوع یا عدم وقوع سے ایک خاص درجہ میں صحابہ کے معیارِ حق ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے اس خاردار لمبی بحث سے دامن بچاتے ہوئے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ بھی ان واقعات سے قطع نظر فرماتے ہوئے خالص علمی رنگ میں خالی الذہن ہوکر معیارِ حق کا مفہوم واضح فرمائیں جس سے آپ کو انکار ہے۔ میں اپنا حاصل مطالعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، اگر آپ اس سے اتفاق فرمائیں تو فبہا، ورنہ اس پر علمی گرفت فرمائیں ۔
ظاہر کہ جو کچھ کتاب و سنت کے اندر مذکور ہے اس کے لیے تو کسی مزید معیار کی ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ خود اپنے غیر کے لیے معیار ہیں ۔ مثلاً زُلات صحابہ وغیرہ جن کی تفصیل بے فائدہ ہے۔ ہاں آئندہ آنے والے مسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں نفیاً یا اثباتاً کوئی صراحت موجود نہیں ، ایسے امورِ جزئیہ میں حضرات صحابہ کرام کے اقوال و افعال کو حجت سمجھنا چاہیے کیوں کہ صحبت نبی کے اثر سے ان کے قلوب و اذہان ہماری نسبت صحت و صواب کے زیادہ قریب ہیں ۔ صحابہؓ کو شرفِ صحابیت کے علاوہ نبوت سے قوی اور قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے دینی و دنیاوی مسائل میں ایک قسم کی بالائیت حاصل ہونے کو ہی معیارِ حق ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غیر صحابی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقوال و افعال کی صحت پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل قائم کرے یا کم از کم کسی صحابی کو ہی اپنی تائید میں پیش کر دے۔ لیکن صحابی کے قول و فعل کے خلاف جب تک نص سے کوئی قوی دلیل قائم نہ ہو تو اس کا صحابی سے ثابت ہونا ہی اس کی صحت کے لیے سند ہے۔ مزید دلیل کی حاجت نہیں ۔ نبوت سے غایت قرب کے سبب یہ اعتماد کا درجہ انھیں مل سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس امتیاز کی بدولت جو قرب نبوی کے طفیل انھیں حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم انھیں غیر معصوم سمجھتے ہوئے قرآن و حدیث کا شارح سمجھیں اور جو تعبیر وتو جیہ ہمارے ذہن میں آئے اس کی تصدیق و تصویب کے لیے صحابہ کے در کی دریوزہ گری کی جائے۔ حتیٰ الامکان دین کی تعبیر میں ان سے اختلاف روانہ رکھا جائے۔ اگر آپ اس میں کسی تفصیل کے قائل ہیں تو مع مستدلات تحریر فرمائیں ۔

حضرت علی ؓ اور اُن کے مخالفین کا معاملہ

میں ایک مسئلے میں آپ کی راہ نمائی کا طالب ہوں ۔وہ یہ ہے کہ آپ نے محرم کے ایام میں اپنی ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ حق علیؓ کے ساتھ تھا۔اس کامطلب تو یہ نکلا کہ حضرت علیؓ کے مقابلے میں آنے والے لوگ باطل پر تھے۔آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ کی تین گروہوں کے ساتھ خوں ریز لڑائیاں ہوئیں ،لیکن انھوں نے حدود اﷲ سے تجاوز نہ کیا، اور مقابل گروہ کے افراد کو نہ تو کبھی قتل کیا اور نہ ان کے بیوی بچے،لونڈی غلام بناے۔آخر حضرت علیؓ نے کون سی لڑائی میں فتح پائی تھی کہ وہ یہ انداز اختیار کرتے؟

امام حسینؓ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا

جب حضرت حسینؓ کا وقت آیا تو سب صحابہ ؓ نے انھیں کوفہ جانے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے کسی کی بات بھی نہ سنی۔ آپ ہی فرمائیں کہ ایک منظم حکومت کے مقابلے میں جب کہ سواے ہلاکت کے کچھ نظر نہ آتا ہو،مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہونا کوئی دانش مندانہ اقدام ہے؟ کیا اسلام یہی تعلیم دیتا ہے؟ایسے مواقع پر جب کہ بالکل انسان بے بس ہو کسی منظم حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتو اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔