اختیاراَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْن کا شرعی قاعدہ
اختیاراَھْوَن الْبَلِیَّتَیْن (دو بلائوں میں سے کم درجے کی بلا کو اختیار کرنے کا مسئلہ) ایک سلسلے میں مجھ کوعرصے سے کھٹک رہا ہے۔آج کل اس مسئلے کا استعمال کچھ اس طرح ہورہا ہے کہ وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔
ہم مسلمانوں میں سے چوٹی کے حضرات(جیسے علماے دیو بند،مولانا حسین احمد مدنی، اور مولانا ابوالکلام آزاد)کا جماعتِ اسلامی کے پیش کردہ نصب العین سے اختلاف ایک ایسا سوال ہے جس پر میں دل ہی دل میں برابر غور کرتا رہا ہوں ۔ میرا خیال یہ ہوا کہ ان حضرات کی نگا ہ میں نصب العین کو ترک کرنا اھونہوگا لہٰذا انھوں نے ترک کیا اور جماعتِ اسلامی کے نزدیک اس کا قبول کرنا اہون ہوگالہٰذا انھوں نے اسے اختیا ر کرلیا۔میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ترجمان القرآن میں مولانا مدنی کی ایک تحریر پڑھی جس میں واقعی یہ اقرار موجودتھا کہ اَھْوَنُ الَبِلیَّتَیْن کو انھوں نے اختیار فرمایا ہے۔ اس پر مجھ کو حیرت ہوئی۔پوری بات اور آگے چل کر کھلی جب ’’الانصاف‘‘(انڈیا) میں جمعیت کی پالیسی کے متعلق مولانا کا یہ بیا ن نظر سے گزرا کہ کانگریس اور کمیونسٹ جو دو بلیتین تھیں ان میں سے ہم نے اھون یعنی کانگریس کواختیار کیا ہے۔
میں یہ سمجھتا تھا کہ قرآن نے حالت اضطرار میں سؤر کا گوشت کھالینے کی اجازت جہاں دی ہے وہاں بلیتین سے مراد اس حرام کے ترک یا اختیار کی دومتبادل صورتیں ہیں ۔یعنی یا تو آدمی سور کھا کر جان بچا لے یا نہ کھا کر مقام عزیمت پر فائزہونے کی فضیلت حاصل کرے۔ لیکن کیا اس سے یہ بھی مراد ہے کہ دو حرام چیزوں میں سے ایک کو اہون سمجھ کر منتخب کیاجائے۔ مثلاً ایک طرف سؤر کا گوشت ہو اور دوسری طر ف گدھ کا گوشت، تو کیا ایک فاقے سے مرنے والا یوں سوچے گا کہ سؤر کا گوشت زیادہ ثقیل ہے اور گدھ کا گوشت زود ہضم ہے لہٰذا اہون گدھ کا گوشت ہوا؟