حضرت ابراہیم ؈ کا دَورِ تفکُّر
آپ نے تفہیم القرآن میں سورۂ الانعام کے رکوع ۹سے تعلق رکھنے والے ایک توضیحی نوٹ میں لکھا ہے کہ:
’’وہ (حضرت ابراہیم ؑ) ھٰذَا رَبِّیْ کہنے سے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے، کیوں کہ ایک طالب ِحق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لیے ٹھیرتا ہے،اصل اعتبار ان کا نہیں بلکہ اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر نبوت وہبی ہوتی توحضرت ابراہیمؑ کو عام انسانوں کی طرح خدا کے الٰہ ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے میں شک اور تحقیق کی ضرورت نہ ہوتی۔اگر انھوں نے عام انسانوں کی طرح دماغی کاوشوں اور منطق وفلسفہ ہی سے اﷲ کی الوہیت کو پایا تو نبوت ایک کسبی معاملہ ہوا اور ایک فلاسفر اور نبی کے حصولِ علم میں کوئی فرق نہ ہوا۔