حضرت سلیمان ؈ کے مردہ جسم کاعصا کے سہارے کھڑا رہنا

سورہ سبا آیت۱۴، ح۲۴، صفحہ۱۹۰۔ حضرت سلیمانؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گُھن نے عصا کو کمزور کر دیا اور جِنّوں کو (اور یقینا انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید ازقیاس ہے اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنّوں (اور دیگر عمائدِ سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمانؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت وصامت کیوں کھڑے ہیں ؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انھیں بھی انتقال کا پتا نہیں چلا (جو ناممکن ہے) یا انھی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟
مفسر محترم نے جس بات کو صاف اور صریح فرمایا ہے وہ خود ایک پہیلی ہے۔

حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کے دو اہم اجزا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں :’’پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اﷲ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کاقانون بنانے کی دعوت دی جائے،دعوت عام ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔‘‘ کیا دعوتِ توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑنے کیا، غیر متعلق چیز نہ تھی؟

بنی اسرائیل کا مسلمان ہونا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ مزید لکھتے ہیں :’’ دوسرا جز یہ ہے کہ جتھا ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان بوجھ کر اور سمجھ کر قبول کریں ،جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اﷲ کے لیے خالص کردیں ۔‘‘ کیا سب بنی اسرائیل ایسے ہی تھے ؟کیا ان کے اعمال سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے؟ کیا فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ان میں سے کسی نے بھی دین ِ موسوی قبول کرنے سے انکار نہیں کیا تھا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟حالاں کہ کسی سعی اورکش مکش کا پتا قرآن پاک سے نہیں چلتا جس کی بنا پر بنی اسرائیل کے لکھو کھا آدمی تمام کے تمام مشرکانہ طاقتوں کے زیر دست رہنے کے باوجود ایک دم ایمان لے آئے ہوں ۔جو برتائو یہودیوں نے حضرت مسیح ؈ کے ساتھ کیا،وہی برتائو حضرت موسٰیـ کے ساتھ اس زمانے کے کچھ بنی اسرائیل حکومت کی طاقت کو حرکت میں لا کر کرسکتے تھے اور اگر اُن میں کچھ کافر تھے تو وہ فرعون کے ساتھ غرق ہوئے یا نہیں ؟

بنی اسرائیل کے شرک پرحضرت ہارون ؈ کاردعمل

اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ ۔ ( طٰہ:۹۴)
’’نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔‘‘
یہ حضرت ہارون ؈ کا مقولہ ہے، اس کا کیامطلب ہے؟حالاں کہ حضرت مسیح ؈ بنی اسرائیل ہی کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ میں تمھیں لڑانے آیا ہوں ۔

حضرت مسیح ؈ کی بن باپ کے پیدائش

لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ان کا طریق استدلال یہ ہے کہ جب فرشتے نے حضرت مریم ؉ کو خوش خبری سنائی کہ ایک پاکیزہ لڑکا تیرے بطن سے پیدا ہو گا، تو انھوں نے جواب دیا کہ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور نہ میں بدکار ہوں ۔ جب یہ فرشتہ نازل ہوا اس وقت اگر حضرت مریمؑ کو کنواری مان لیا جائے اور بعد میں یوسف نجار سے ان کی شادی ہوگئی ہو اور اس کے بعدحضرت مسیح ؈کی پیدائش ہو تو کیا خدائی وعدہ سچا ثابت نہیں ہوگا؟
ان کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ خدا اپنی سنت نہیں بدلتا اور اس کے لیے وہ قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں :
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا (الفتح:۲۳) ’’اور تم اللّٰہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ لڑکے کی پیدائش ایک عورت اور ایک مرد کے ملاپ کا نتیجہ ہے ۔کیوں کہ ازل سے یہ سنت اﷲہے اور یہ اب تک قائم ہے۔
براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک درست ہے۔اگر وقت کی کمی کے باعث طویل جواب لکھنا آپ مناسب نہ سمجھیں تو کتابوں کا حوالہ ہی ہمارے لیے کافی ہوگا۔

صوفیہ کے بعض طریقے ،شریعت کی روشنی میں

میں دعوت الی اﷲ اور اقامت دین اﷲ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں ،اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں ۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوّف کو نہیں مانتے۔آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوّف اور غیر اہل تصوّف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔باقی میں جب صوفی نہیں ہوں تو مکار تو نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوّف کا دعویٰ کروں ۔آپ کا یہ جواب سیدھا سادا اور اچھا تھا، مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات( ص ۳ا) میں لکھتے ہیں :
’’ذکر الٰہی جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے،اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔‘‘
یہ چوٹ اگر آپ جمیع صوفیہ پر نہ کرتے تو آپ کی دعوت کو کیا نقصان پہنچتا؟اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو واقعی صوفیہ کا حا ل معلوم نہیں یا آپ صوفیہ سے نفرت ظاہر کرکے تحریک اسلامی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس لیے ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔امید ہے کہ آپ اپنی اس عبارت میں تبدیلی کردیں گے۔

آپ نے تھوڑی سی بدگمانی سے کام لے کر یہ سمجھا کہ شاید میں اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتا۔ الحمد ﷲ مولانا… نے ایسی تربیت دی کہ ہم دونوں میں فرق کریں ۔ اصلاح باطن کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،بعینہٖ یہی نصیحت ہم اپنے متعلقین کو کرتے ہیں ۔ ہم میں اور آپ میں شاید کوئی لفظی اختلاف ہورہا ہو۔مثلاً شوافع ] کذا! شافعیہ[ وحنابلہ سے ہم اختلاف کرتے ہیں مگر ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ امام شافعی ؒ کی راے غیر صحیح یا باطل ہے۔ مزید آپ فرماتے ہیں کہ وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیہ کے مختلف گروہوں نے ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔ میں ان کی کچھ مثالیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ نیز یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جو شخص صحیح کے خلاف طریقے پر ہے، اس کو آپ کیا فرمائیں گے؟ میں تو اس کے ساتھ صرف اختلاف نہیں بلکہ مخالفت بھی رکھتا ہوں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ایک شخص کو صحیح کے خلاف طریقے پر بھی سمجھیں اور پھر اس کے ساتھ مخالفت بھی نہ رکھیں ۔
جو طریقہ کتاب وسنت سے ہٹ کر نہ ہو،بلکہ اس کی روح اور مغز تک پہنچنے کے لیے ایجاد کیا گیاہو،اس کو غالباً آپ اپنے اصول کے مطابق اجتہاد فرمائیں گے (بدعت نہیں فرمائیں گے)۔ اسے قبول کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے مگر اسے باطل یا غیر صحیح نہیں فرما سکتے۔اگر فرمائیں گے تو پھر اس سے نہ صرف اختلاف راے ہوگا بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔
ان امور کے بارے میں تصریح فرماویں تو بحث ختم ہوجائے گی۔

کیا تصوّف مفید ہے؟

تصوّف جس کی دوسری تعبیر احسان وسلوک بھی ہے،جس کی تعلیم اکابر نقش بندیہ،چشتیہ،سہروردیہ، قادریہ، وغیرہ نے دی ہے،جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اس تصوّف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یامضر؟

تصوّف کی اصطلاحات

سلسلۂ تصوّف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں ۔ قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں ۔