کیا تصوّف مفید ہے؟

تصوّف جس کی دوسری تعبیر احسان وسلوک بھی ہے،جس کی تعلیم اکابر نقش بندیہ،چشتیہ،سہروردیہ، قادریہ، وغیرہ نے دی ہے،جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اس تصوّف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یامضر؟

تصوّف کی اصطلاحات

سلسلۂ تصوّف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں ۔ قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں ۔

حضرت حسن بصریؒ کو حضرت علیؓ سے خِرقہ ملنے کی روایت

ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت حسن بصریؒ کو حضرت علی ؓ نے خرقہ عطا فرمایا تھا اور یہ تمام طرق فقر حضرت علیؓ سے شروع ہوتے ہیں ۔ اس وقت میرے سامنے ملا علی قاریؒ کی موضوعات کبیر ہے۔ روایت خرقہ کے متعلق موصوف کی تحقیق ملاحظہ فرما کر آپ اس پر مدلل تبصرہ فرمائیں ۔ عبارت یہ ہے:
حَدْیثُ لَبْس الْخِرقْۃَ لِلْصْوفِیَّۃِ وَکَوْنِ الْحَنَ الْبصَرِیْ لَبسَہَا مِنْ عَلِیؓ، قَالَ ابْنُ دِحْیَۃَ و ابْنُ الصَّلَاحِ اِنَّہٗ بَاطَلٌ، وَکَذَا قَالَ الَعَسْقَلَانیِ: اِنَّہ لِیْسَ فِی شَئیِ مَنْ طُرُقِھَا مَایُثبْتُ وَلَمْ یَرِدْفِی خَیَرٍ صِحْیَح وَلَا حَسَنٍ وَلَا ضَعِیْفٍ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم أَلْبْسَ الْخِرْقَۃَ عَلَی الصُّورَۃِ الْمُتَعارَفَۃِ بِیْنَ الصُّوْفِیۃ لِأحَدٍ مِنْ الصَّحَابَۃِ وَلاَ أمَرَ أَحَداً مِنْ الصَّحَابَۃِ یَفْعَلْ ذَالِکَ وَکُلُّ مَا یُرْوَیٰ مِنْ ذَالِکَ صَرِیْحاً فَبَاطلٌ۔ قَالَ: ثُمَّ اِنَّ مِنْ الْکَذِبِ الْمفُتْرِیٰ قَوْلُ مَنْ قَالَ:إ نَّ عَلِیّاً أَلبْسَ اَلْخِرْقَۃَ لِلْحَسَنِ الْبَصْریِ فَاِنَّ اَئِمَّۃَ الْحَدِیثِ لَمْ یُثْبِتُوْالِلْحَسَنِ مِنْ عَلِیّ سَمَاعاً فَضْلاً عَنْ اَنْ یّلُبِسْہٗ الْخِرْقَۃَ۔ ({ FR 1571 })
’’صوفیہ کے خرقہ پہننے کی حدیث اور یہ قصہ کہ حسن بصریؒ کو حضرت علیؓ نے خرقہ پہنایا تھا، ابن دِحیہ اور ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ باطل ہے اور ] اسی طرح [ ابن حجر عسقلانی ؒکہتے ہیں کہ جن طریقوں سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے اور کسی صحیح یا حسن بلکہ ضعیف روایت میں بھی یہ بات نہیں آتی ہے کہ نبی ﷺ نے صوفیہ کے متعارف طریقے پر صحابہ میں سے کسی کو خرقہ پہنایا ہو یا کسی صحابی کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہو۔ اس سلسلے میں جو کچھ روایت کیا جاتا ہے وہ باطل ہے۔ پھر ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت حسن بصریؒ کو خرقہ پہنایا تھا۔ ائمۂ حدیث کے نزدیک تو حضرت حسنؒ کا حضرت علیؓ سے سماع تک ثابت نہیں ہے کجا کہ ان سے خرقہ پہننا۔‘‘

صوفیاء کے تزکیہ و تربیت کے طریقے

صوفیہ کے درمیان سبع لطائف کا ایک تدریجی اور ارتقائی طریقہ مروج ہے۔ کتب احادیث میں یہ طریق ذکر و فکر مروی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بھی راے گرامی تحریر فرمائیں ۔

حُکّام کو خط کتابت کے ذریعے دعوت دینا

میں جناب کی توجہ ایک اچھی تجویز کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں ، میری راے ہے کہ جس طرح مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے اپنے دور کے اکابر و اعیان اورحُکام سلطنت امرا و زرا کی طرف پُر ازنصائح مکتوبات لکھ کر تبلیغ حق کا فریضہ ادا کیا، آپ بھی یہ طریق کار اختیار فرمائیں ۔

ترکِ سنت اور مقامِ ولایت

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلے کا گول مول جواب دیتے ہیں ،اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہوکر انکار کردیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں ،کیوں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ،آپ ہمیشہ مسئلے کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں ۔خدا کرے میرا یہ حسن ظن قائم رہے۔
گزارشات بالا کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجیے:
(۱)کوئی تارک الدنیا بزرگ ولی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
(۲) حضرت رابعہ بصریؒ نے کیوں سنت نکاح کو ترک کیا تھا؟
(۳) حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ سیّد بابا فرید الدین گنج شکر کے ایک باطنی اشارے پر تاعمر شادی نہ کی تھی۔ آپ کے نزدیک پیرو مرشد کا خلاف سنت اشارہ کرنا اور مرید کا باوجود استطاعت کے سنت نکاح کو ترک کرنا کس حد تک درست ہے؟

نفسِ اَمّارہ سے بچنے کے لیے کارگر ہتھیار

شیطان اور نفس امارہ کے حملوں سے بچنے کے لیے کون کون سے شرعی اصول وضوابط اختیار کیے جائیں تاکہ حلاوت ایمان نصیب ہو اور کفر وعصیان سے دل بیزار ہو۔ کیا اورادو وظائف بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتے ہیں ؟

نمائشِ فقر کا مطالبہ

آپ حضرات موجودہ برسرا قتدار طبقہ اور امرا پر سخت تنقید کرتے ہیں ،اس بنا پر کہ وہ زبان سے تو’’اسلام اسلام‘‘پکارتے ہیں ، عوام اور غربا کی ہم دردی کا راگ الاپتے ہیں ،مگر ان کے اعمال ان کے اقوال سے سراسر مختلف ہیں ۔ لہٰذا خود آپ حضرات کے لیے تو یہ اشد ضروری ہے کہ(جب کہ آپ ایک اسلامی سوسائٹی برپا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ) آپ کے اقوال و افعال میں کامل یکسانیت ہو۔ ورنہ آپ کی تنقید موجودہ اُمرا اور برسر اقتدارطبقے پر بے معنی ہے۔
میں جانتاہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام وآسائش کے سامان مہیا کریں ،اچھی غذائیں کھائیں ، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو،غریبی اور بے چارگی ہو،خصوصاًایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے،عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پُرتکلف زندگی گزارے؟کیا رسول اﷲ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی جب کہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟آپ کے بعض ارکان کی ایک حد تک متعیشانہ (luxurious) طرزِ زندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔براہِ کرم میرے اس ذہنی خلجان کو دور کردیں ۔

علمِ ظاہر اور علمِ باطن

اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’علمِ باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضات ومجاہدات سے حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہوئے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انھوں نے کتاب و سنت اور فقہ وکلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو’’علمِ ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد’’ علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں ، تب کہیں جاکر انھیں ’’روحانی ‘‘علوم حاصل ہوئے اور ان کو انھوں نے ہمیشہ علومِ ظاہری پر ترجیح دی۔ براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے علمِ باطنی کی کیا تعریف ہے؟اس کی حقیقت کیا تھی؟اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں ؟کیا یہ علم ریاضات ومجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟اور کیا علومِ ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟