حقیقی ضرورت کی وجہ سے فوٹو کا جواز

انٹرنس کے امتحان میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت میں شرکت کے لیے درخواست کے ہمراہ فوٹو ارسال کرنا لازمی ہے۔ پھر کیا ایسی صورت میں فوٹو کھنچوانا جائز ہے؟مولانا مفتی کفایت اﷲصاحب سابق صدر جمعیت العلما نے اس صورت کو جائزفر مایا ہے۔میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فعل جائز کیوں کر ہو سکتا ہے؟

تصویر سے اظہارِبراء ت

ماہ جولائی۱۹۶۲ء کے ترجمان( تفہیم القرآن) میں تصویر کے مسئلے کو جس خوبی سے آپ نے کتاب و سنت کی روشنی میں حل کیا ہے ،ایمان کی بات ہے کہ ذہن مسلمان ہو تو حق بات دل میں اتر کر رہتی ہے۔ اگر واقعی تصویر حرام ہے تو پھر آپ کی تصویر اخبار میں دیکھی جائے تو بڑا رنج ہوتا ہے۔عموماًعلماے کرام تصویر کو ناجائز بتاتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔
جواب: آپ شاید اس خیال میں ہیں کہ آج کل بھی کسی شخص کی تصویر اسی وقت اُتر سکتی ہے جب وہ خود کھنچوائے،حالاں کہ اس زمانے میں آدمی کی تصویر بالکل اسی طرح اُتاری جاتی ہے جیسے کسی شخص کو اچانک گولی مار دی جائے۔اخبارات میں میری جو تصویریں شائع ہوئی ہیں ،ان میں میری مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔تصویر کے بارے میں میں نے اپنا مسلک شروع سے واضح رکھا ہے۔ اگر اس کے باوجود لوگ تصویر لینے سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے اور آپ کو مجھ سے پوچھنے کے بجاے ان سے پوچھنا چاہیے۔ (ترجمان القرآن ،ستمبر ۱۹۲۲ء)

توبہ اور کفارہ

میں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں اُٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر زندگی کے بڑے مسائل تک ہر بات میں شریعت کی پابندی ہوتی رہی ہے، اور میں اب کالج میں تعلیم پارہا ہوں ۔ماحول کی اس اچانک تبدیلی سے میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔بعض غیر اسلامی حرکات مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں ۔جب کبھی ایسی کوئی حرکت ہوئی،ضمیر نے ملامت کی اور اﷲ سے عفو کا طالب ہوا۔ مگر پھر برے اثرات ڈالنے والوں کے اصرار اور شیطانی غلبے سے اسی حرکت کا مرتکب ہوگیا۔اس طرح بار بار توبہ کرکے اسے توڑ چکا ہوں ۔اب اگرچہ اپنی حد تک میں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور بظاہر توقع نہیں کہ میں پھر اس گناہ میں مبتلا ہوں گا،لیکن یہ خیال بار بار ستاتا ہے کہ کیا میرے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جو میں نے توبہ توڑ توڑ کر کیے ہیں ؟نیز یہ بتائیں کہ توبہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟اور یہ کہ توبہ شکنی کا علاج کیا ہے؟

حقیقی توبہ

اس سے قبل میں مبتلاے کبائر تھا مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اﷲ کا شکر ہے کہ ایک ’’شعوری مسلمان‘‘ ہوگیا ہوں ۔ لیکن دن رات اپنے اخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجاے دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں ۔ مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون ہی رائج نہیں ہے ، لِلّٰہ آپ میری مدد فرمائیں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں ۔

تزکیۂ نفس کی حقیقت

تزکیۂ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟اس بارے میں رسول اﷲﷺکی تعلیم کیاتھی؟متصوفین کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے؟ نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟

صحابہ کرامؓ اور تزکیۂ نفس

کیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

تصوّف اور تصوّر ِشیخ

میں نے پورے اخلاص ودیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہم درد تصور کرتا ہوں ، اور اپنی بساط بھر اسے پھیلانے کی جدوجہد کرتا ہوں ۔ حال میں چند چیزیں تصوّف اور تصورِ شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنھیں پڑھ کر میرے دل ودماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں ۔آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں ۔حالاں کہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے۔جب کہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدا نخواستہ کسی بدعت کو انگیز کیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ساری بدعات کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دے دیا گیا۔آپ براہ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتایئے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں تصوّف اور تصورِ شیخ کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں اور فی نفسہٖ یہ مسلک کیا ہے؟

پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

اسلامی حکومت میں نعشوں کی چیر پھاڑ (post mortom) کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟اسلام تو لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔پوسٹ مارٹم دو قسم کے ہوتے ہیں :ایک (medico-legal) زیادہ تر تفتیش کے لیے، دوسرے علم الامراض کی(pathological) ضروریات کے لیے۔ ممکن ہے کہ اوّل الذکر کی کچھ زیادہ اہمیت اسلامی حکومت میں نہ ہو،لیکن مؤخر الذکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس طریقے سے امراض کی تشخیص اور طبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

مسئلہ پوسٹ مارٹم کے لیے ماہرین کی مجلس کا قیام

سابق خط کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی۔آپ نے لکھا ہے کہ ’’پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی مسلم ہے اور احکام شرعیہ میں شدید ضرورت کے بغیر اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی۔‘‘مگر مشکل یہ ہے کہ طبی نقطۂ نگاہ سے کم ازکم اس مریض کی لاش کا پوسٹ مارٹم تو ضرور ہونا چاہیے جس کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی ہو یا ہونے کے باوجود علاج بے کار ثابت ہوا ہو۔اسی طرح’’طبی قانونی‘‘ (medico-legal) نقطۂ نظر سے بھی نوعیت جرم کی تشخیص کے لیے پوسٹ مارٹم لازمی ہے۔علاوہ ازیں اناٹومی، فزیالوجی اور آپریٹو سرجری کی تعلیم بھی جسد انسانی کے بغیر ناممکن ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ ان صورتوں پر شرعاً شدید ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں ؟