توبہ اور کفارہ

میں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں اُٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر زندگی کے بڑے مسائل تک ہر بات میں شریعت کی پابندی ہوتی رہی ہے، اور میں اب کالج میں تعلیم پارہا ہوں ۔ماحول کی اس اچانک تبدیلی سے میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔بعض غیر اسلامی حرکات مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں ۔جب کبھی ایسی کوئی حرکت ہوئی،ضمیر نے ملامت کی اور اﷲ سے عفو کا طالب ہوا۔ مگر پھر برے اثرات ڈالنے والوں کے اصرار اور شیطانی غلبے سے اسی حرکت کا مرتکب ہوگیا۔اس طرح بار بار توبہ کرکے اسے توڑ چکا ہوں ۔اب اگرچہ اپنی حد تک میں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور بظاہر توقع نہیں کہ میں پھر اس گناہ میں مبتلا ہوں گا،لیکن یہ خیال بار بار ستاتا ہے کہ کیا میرے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جو میں نے توبہ توڑ توڑ کر کیے ہیں ؟نیز یہ بتائیں کہ توبہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟اور یہ کہ توبہ شکنی کا علاج کیا ہے؟

حقیقی توبہ

اس سے قبل میں مبتلاے کبائر تھا مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اﷲ کا شکر ہے کہ ایک ’’شعوری مسلمان‘‘ ہوگیا ہوں ۔ لیکن دن رات اپنے اخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجاے دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں ۔ مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون ہی رائج نہیں ہے ، لِلّٰہ آپ میری مدد فرمائیں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں ۔

تزکیۂ نفس کی حقیقت

تزکیۂ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟اس بارے میں رسول اﷲﷺکی تعلیم کیاتھی؟متصوفین کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے؟ نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟

صحابہ کرامؓ اور تزکیۂ نفس

کیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

تصوّف اور تصوّر ِشیخ

میں نے پورے اخلاص ودیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہم درد تصور کرتا ہوں ، اور اپنی بساط بھر اسے پھیلانے کی جدوجہد کرتا ہوں ۔ حال میں چند چیزیں تصوّف اور تصورِ شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنھیں پڑھ کر میرے دل ودماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں ۔آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں ۔حالاں کہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے۔جب کہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدا نخواستہ کسی بدعت کو انگیز کیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ساری بدعات کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دے دیا گیا۔آپ براہ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتایئے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں تصوّف اور تصورِ شیخ کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں اور فی نفسہٖ یہ مسلک کیا ہے؟

پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

اسلامی حکومت میں نعشوں کی چیر پھاڑ (post mortom) کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟اسلام تو لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔پوسٹ مارٹم دو قسم کے ہوتے ہیں :ایک (medico-legal) زیادہ تر تفتیش کے لیے، دوسرے علم الامراض کی(pathological) ضروریات کے لیے۔ ممکن ہے کہ اوّل الذکر کی کچھ زیادہ اہمیت اسلامی حکومت میں نہ ہو،لیکن مؤخر الذکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس طریقے سے امراض کی تشخیص اور طبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

مسئلہ پوسٹ مارٹم کے لیے ماہرین کی مجلس کا قیام

سابق خط کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی۔آپ نے لکھا ہے کہ ’’پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی مسلم ہے اور احکام شرعیہ میں شدید ضرورت کے بغیر اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی۔‘‘مگر مشکل یہ ہے کہ طبی نقطۂ نگاہ سے کم ازکم اس مریض کی لاش کا پوسٹ مارٹم تو ضرور ہونا چاہیے جس کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی ہو یا ہونے کے باوجود علاج بے کار ثابت ہوا ہو۔اسی طرح’’طبی قانونی‘‘ (medico-legal) نقطۂ نظر سے بھی نوعیت جرم کی تشخیص کے لیے پوسٹ مارٹم لازمی ہے۔علاوہ ازیں اناٹومی، فزیالوجی اور آپریٹو سرجری کی تعلیم بھی جسد انسانی کے بغیر ناممکن ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ ان صورتوں پر شرعاً شدید ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

کرب کا علاج بذریعۂ موت

اگر کسی مریض کے جاں بر ہونے کی قطعاً امید نہ رہی ہو اور شدت مرض کی وجہ سے وہ انتہائی کرب میں مبتلا ہو،یہاں تک کہ نہ غذا اندر جاتی ہو نہ دوا،توکیا ایسے حالات میں کوئی طبیب حاذق اس کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے کوئی زہر دے کر اس کی زندگی کی درد ناک گھڑیاں کم کرسکتا ہے؟ اس قسم کی موت وارد کرنے سے کیا اس پر شرعاًقتل کا الزام آئے گا؟ حالاں کہ اس کی نیت بخیر ہے؟

دواؤں میں الکوہل کا استعمال

اس زمانے میں انگریزی دوائیں جو عام طور پر رائج ہیں ،ان میں سے ہر رقیق دوا میں الکوحل(جو ہرِ شراب) شامل ہوتا ہے۔میں ان سے اجتناب کرتا ہوں ۔ لیکن عرض یہ ہے کہ تحریم خمر کے متعلق جو حکم قرآن میں ہے، اس میں اگر خمر کا مطلب’’نشہ آور چیز‘‘ لیا جائے تو دوا میں الکوحل اتنا کم ہوتا ہے کہ نشہ نہیں کرتا اور نہ کوئی اس مقصدسے پیتا ہے نہ اس ترکیب سے اس کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں باریک بینی کی جائے تو ڈبل روٹی میں بھی آٹے کا خمیر اُٹھنے پر کچھ الکوحل بن جاتا ہے ،اور شربت جو بوتلوں میں آتے ہیں ،ان میں بھی کچھ الکوحل ضرور بن جاتا ہے۔ بلکہ الکوحل تو باسی انگوروں میں بھی بنتا ہے۔اگر ان صورتوں میں کوئی وجۂ حرمت نمودار نہیں ہوتی تو آخر صرف دوا ہی کے اندر الکوحل کی شمولیت کیوں اتنی زیادہ قابل توجہ ہو؟
نیز اگر باعتبار لغت خمر کامطلب انگوری شراب لیا جائے تو الکوحل انگوری شراب نہیں ہے۔ اس لیے انگریزی دوائیں ناجائز نہ ہونی چاہییں ۔ لیکن علما نے اس زمانے میں جب ایسی ادویات سامنے نہیں تھیں ، ایسے سخت فتوے دے دیے کہ آج انھیں مختلف مواقع پر چسپاں کرنے سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ آج کل یونانی ادویۂ مرکبہ کا خالص حالت میں دستیاب ہونا بہت ہی دشوار ہے۔خمیرہ مروارید میں بڑے سے بڑا متقی دوا ساز بھی مروارید کی جگہ صدف ملا دیتا ہے۔نیز جانیں بچانے کے لیے جب لوگ زیادہ ترقی یافتہ انگریزی طب اور جراحی کے ماہرین کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہیں تو آخر وہ یونانی ادویہ تجویز کرکے تو دینے سے رہے! ان سارے پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر آپ اپنی راے سے آگاہ فرمائیں ۔