آپ نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ’’آج کل الکوہل کو ایک اچھا محلل ہونے کی حیثیت سے دوا سازی میں استعمال کیا جاتا ہے،لیکن جب فن دوا سازی کو مسلمان بنایا جائے گا تو الکوہل کے استعمال کو ترک کردیا جائے گا۔‘‘ لیکن کیمیاوی اصطلاح میں الکوہل کے لفظ کا اطلاق نشہ آور اجزا پر نہیں ہوتا، بلکہ یہ علم الکیمیا میں اشیا کے ایک خاص گروپ کا نام ہے، جس میں مسکرات کے علاوہ اور بہت سی چیزیں شامل ہیں ،تو کیاپھر ان سب اشیا کا استعمال ناجائز ہوگا؟علاوہ ازیں الکوہل کا جسم پر خارجی استعمال بھی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ صرف محلل ہی نہیں ، جراثیم کش بھی ہے۔ کیا یہ استعمال بھی ممنوع ہے؟

بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں الکوہل کی تھوڑی بہت آمیزش ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ان کا استعمال جائز ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

الکوہل کے مختلف مدارج واشکال کا حکم

آپ نے ترجمان القرآن میں ایک جگہ الکوہل کے خواص رکھنے والی اشیا کی حلت وحرمت پر بحث کی ہے۔اس سلسلے میں بعض اُمور وضاحت طلب ہیں ۔طبعی اور قدرتی اشیا میں الکوہل اس وقت پائی جاتی ہے جب کہ وہ تعفین و تخمیر کے منازل خاص طریق پر طے کرچکی ہوں ۔بالفاظ دیگر جس شے سے الکوہل حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے،اسے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ اس میں الکوہل پیدا ہوجائے۔جب تک اس میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہوجائے،اس وقت تک اس میں الکوہل کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات دوسری ہے کہ بعض اشیا میں الکوہل کی صلاحیت زیادہ ہے،،بعض میں کم اور بعض میں بالکل نہیں ۔ جن اشیا سے شراب تیار کی جاتی ہے،ان میں یہ صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔اگر ایسی صلاحیت رکھنے والی قدرتی اشیا میں تخمیر وتعفین کی وجہ سے الکوہل یا سکر پیدا ہوجائے تو کیا وہ سب حرام ہوجائیں گی؟

دواؤں میں حرام اشیا کی ملاوٹ

بعض دوائوں کے اجزا انسانی یا حیوانی پیشاب،خون یا گوشت سے حاصل کیے جاتے ہیں ،اور بعض دوائیں وہیل مچھلی کے غدود سے نکالی جاتی ہیں ۔ایسی دوائوں کا استعمال شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟

دواؤں میں شہد کا استعمال

’’تفہیم القرآن‘‘ میں آپ نے ایک مقام پر یہ لکھا ہے کہ مسلمان اطبا دو ا سازی میں الکوہل کے بجاے شہداستعمال کرتے تھے۔نیز آپ نے وہاں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ شہد کی مکھی کو خاص جڑی بوٹیوں سے رس حاصل کرنے کی تربیت دے کر اس سے دوا سازی میں مدد لی جاسکتی ہے۔({ FR 1555 })ترقیِ فن کے موجودہ دورمیں آپ کا شہد کو الکوہل کا بدل تجویز کرنا اور شہد کی مکھی کی تربیت کا مشورہ دینا میر ی سمجھ میں نہیں آسکاہے۔

) ڈاکٹر کی فیس

ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟

آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل

کیمیاوی آلات کے ذریعے سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو یہ عمل مضرت سے خالی ہونے کی وجہ سے مباح ہے یا نہیں ؟ اور اس عمل کی معمولہ زانیہ شمار کی جائے گی اور اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں ؟ اس امر کا خیال رکھیے کہ آج کل کی فیشن دار عورت مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے۔وہ اگر سائنٹی فِک طریقوں سے اپنے حصے کی نسل بڑھانے کا فریضہ ادا کردے تو پھر اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔امریکا میں اس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو ازرُوئے قانون جائز اولاد تسلیم کیا گیاہے۔

استمناء بالید masterbation کا شرعی حکم

ایک شخص کا شباب عروج پر ہے۔نفسانی جذبات کا زور ہے۔اب ان جذبات کو قابو میں رکھنے کی چند ہی صورتیں ہوسکتی ہیں :
یہ کہ وہ نکاح کرے۔ مگر جس لڑکی سے اُس کی نسبت ہے وہ اتنی چھوٹی ہے کہ کم ازکم تین چار سال انتظار کرنا ہوگا۔
یہ کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کہیں اور شادی کرلے۔مگر ایسا کرنے سے تمام خاندان ناراض ہوتاہے، بلکہ بعید نہیں کہ اُس کا اپنے خاندان سے رشتہ ہی کٹ جائے۔
یہ کہ وہ اس نیت سے کوئی عارضی نکاح کرلے کہ اپنی خاندانی منسوبہ سے شادی ہوجانے کے بعد پہلی بیوی کوطلاق دے دے گا۔مگر اس میں اورمتعہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
یہ کہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے مسلسل روزے رکھے۔مگر وہ ایک محنت پیشہ آدمی ہے جسے تمام دن مشغول رہنا پڑتا ہے۔اتنی محنت روزوں کے ساتھ سخت مشکل ہے۔
آخری چارۂ کار یہ ہے کہ وہ زنا سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لے۔کیا ایسے حالات میں وہ اس طریقے کو اختیا ر کرسکتا ہے؟

بندوق کے شکار کی حلّت وحرمت

آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں تکبیر پڑھ کر چھوڑی ہوئی بندوق کے مرے ہوئے شکار کو حلال لکھ کر ایک نئی بات کا اختراع کیا ہے({ FR 1427 }) جس پر مندرجہ ذیل سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔مہربانی فرما کر جواب دے کر مشکور فرماویں ۔
۱۔ چاروں امام متفق ہیں کہ بندوق سے مرا ہوا شکار بوجہ چوٹ سے مرنے کے ناجائز اور حرام ہے، پھر آپ نے کن دلائل کی بِنا پر اس کو جائز لکھا ہے۔
۲۔ بندوق کی گولی میں دھار نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضرب شدید سے جانور مرتا ہے۔ کارتوسوں پر عام طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اتنے پونڈ ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اس کی دھار اتنی تیز ہے۔ضرب سے مرا ہوا شکار قطعی ناجائزہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔
۳۔ ’’تفسیر حقانی‘‘ میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی نے بندوق کے مارے ہوئے کے حرام ہونے میں اختلاف کیا ہے لیکن قاضی صاحب کا اختلاف حجت نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وہ مجروح احادیث بیان کرنے والا ہونے کے علاوہ اہل تشیع کی طرف میلان رکھتا ہے۔
۴۔ اس مسئلے کو فروع کہنا عوام کو دھوکا دینا ہے۔ کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا؟