کرب کا علاج بذریعۂ موت

اگر کسی مریض کے جاں بر ہونے کی قطعاً امید نہ رہی ہو اور شدت مرض کی وجہ سے وہ انتہائی کرب میں مبتلا ہو،یہاں تک کہ نہ غذا اندر جاتی ہو نہ دوا،توکیا ایسے حالات میں کوئی طبیب حاذق اس کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے کوئی زہر دے کر اس کی زندگی کی درد ناک گھڑیاں کم کرسکتا ہے؟ اس قسم کی موت وارد کرنے سے کیا اس پر شرعاًقتل کا الزام آئے گا؟ حالاں کہ اس کی نیت بخیر ہے؟

دواؤں میں الکوہل کا استعمال

اس زمانے میں انگریزی دوائیں جو عام طور پر رائج ہیں ،ان میں سے ہر رقیق دوا میں الکوحل(جو ہرِ شراب) شامل ہوتا ہے۔میں ان سے اجتناب کرتا ہوں ۔ لیکن عرض یہ ہے کہ تحریم خمر کے متعلق جو حکم قرآن میں ہے، اس میں اگر خمر کا مطلب’’نشہ آور چیز‘‘ لیا جائے تو دوا میں الکوحل اتنا کم ہوتا ہے کہ نشہ نہیں کرتا اور نہ کوئی اس مقصدسے پیتا ہے نہ اس ترکیب سے اس کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں باریک بینی کی جائے تو ڈبل روٹی میں بھی آٹے کا خمیر اُٹھنے پر کچھ الکوحل بن جاتا ہے ،اور شربت جو بوتلوں میں آتے ہیں ،ان میں بھی کچھ الکوحل ضرور بن جاتا ہے۔ بلکہ الکوحل تو باسی انگوروں میں بھی بنتا ہے۔اگر ان صورتوں میں کوئی وجۂ حرمت نمودار نہیں ہوتی تو آخر صرف دوا ہی کے اندر الکوحل کی شمولیت کیوں اتنی زیادہ قابل توجہ ہو؟
نیز اگر باعتبار لغت خمر کامطلب انگوری شراب لیا جائے تو الکوحل انگوری شراب نہیں ہے۔ اس لیے انگریزی دوائیں ناجائز نہ ہونی چاہییں ۔ لیکن علما نے اس زمانے میں جب ایسی ادویات سامنے نہیں تھیں ، ایسے سخت فتوے دے دیے کہ آج انھیں مختلف مواقع پر چسپاں کرنے سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ آج کل یونانی ادویۂ مرکبہ کا خالص حالت میں دستیاب ہونا بہت ہی دشوار ہے۔خمیرہ مروارید میں بڑے سے بڑا متقی دوا ساز بھی مروارید کی جگہ صدف ملا دیتا ہے۔نیز جانیں بچانے کے لیے جب لوگ زیادہ ترقی یافتہ انگریزی طب اور جراحی کے ماہرین کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہیں تو آخر وہ یونانی ادویہ تجویز کرکے تو دینے سے رہے! ان سارے پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر آپ اپنی راے سے آگاہ فرمائیں ۔

آپ نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ’’آج کل الکوہل کو ایک اچھا محلل ہونے کی حیثیت سے دوا سازی میں استعمال کیا جاتا ہے،لیکن جب فن دوا سازی کو مسلمان بنایا جائے گا تو الکوہل کے استعمال کو ترک کردیا جائے گا۔‘‘ لیکن کیمیاوی اصطلاح میں الکوہل کے لفظ کا اطلاق نشہ آور اجزا پر نہیں ہوتا، بلکہ یہ علم الکیمیا میں اشیا کے ایک خاص گروپ کا نام ہے، جس میں مسکرات کے علاوہ اور بہت سی چیزیں شامل ہیں ،تو کیاپھر ان سب اشیا کا استعمال ناجائز ہوگا؟علاوہ ازیں الکوہل کا جسم پر خارجی استعمال بھی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ صرف محلل ہی نہیں ، جراثیم کش بھی ہے۔ کیا یہ استعمال بھی ممنوع ہے؟

بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں الکوہل کی تھوڑی بہت آمیزش ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ان کا استعمال جائز ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

الکوہل کے مختلف مدارج واشکال کا حکم

آپ نے ترجمان القرآن میں ایک جگہ الکوہل کے خواص رکھنے والی اشیا کی حلت وحرمت پر بحث کی ہے۔اس سلسلے میں بعض اُمور وضاحت طلب ہیں ۔طبعی اور قدرتی اشیا میں الکوہل اس وقت پائی جاتی ہے جب کہ وہ تعفین و تخمیر کے منازل خاص طریق پر طے کرچکی ہوں ۔بالفاظ دیگر جس شے سے الکوہل حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے،اسے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ اس میں الکوہل پیدا ہوجائے۔جب تک اس میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہوجائے،اس وقت تک اس میں الکوہل کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات دوسری ہے کہ بعض اشیا میں الکوہل کی صلاحیت زیادہ ہے،،بعض میں کم اور بعض میں بالکل نہیں ۔ جن اشیا سے شراب تیار کی جاتی ہے،ان میں یہ صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔اگر ایسی صلاحیت رکھنے والی قدرتی اشیا میں تخمیر وتعفین کی وجہ سے الکوہل یا سکر پیدا ہوجائے تو کیا وہ سب حرام ہوجائیں گی؟

دواؤں میں حرام اشیا کی ملاوٹ

بعض دوائوں کے اجزا انسانی یا حیوانی پیشاب،خون یا گوشت سے حاصل کیے جاتے ہیں ،اور بعض دوائیں وہیل مچھلی کے غدود سے نکالی جاتی ہیں ۔ایسی دوائوں کا استعمال شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟

دواؤں میں شہد کا استعمال

’’تفہیم القرآن‘‘ میں آپ نے ایک مقام پر یہ لکھا ہے کہ مسلمان اطبا دو ا سازی میں الکوہل کے بجاے شہداستعمال کرتے تھے۔نیز آپ نے وہاں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ شہد کی مکھی کو خاص جڑی بوٹیوں سے رس حاصل کرنے کی تربیت دے کر اس سے دوا سازی میں مدد لی جاسکتی ہے۔({ FR 1555 })ترقیِ فن کے موجودہ دورمیں آپ کا شہد کو الکوہل کا بدل تجویز کرنا اور شہد کی مکھی کی تربیت کا مشورہ دینا میر ی سمجھ میں نہیں آسکاہے۔

) ڈاکٹر کی فیس

ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟