پاکستان کو اسلامی بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی اہمیت
اگر آپ کی جماعت پاکستان میں نہ آجاتی تو تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں ؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
اگر آپ کی جماعت پاکستان میں نہ آجاتی تو تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں ؟
کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب اقامت دین کی جدوجہد انبیا کے طریق عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں ‘ مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلے اور سیاسی اغراض کے لیے دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو اسے حدودِ شریعت کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالا جائے؟
کیا آپ تحریک اقامت دین کے قائد کی حیثیت سے خود اپنے لیے اس اختیار کے مدعی ہیں کہ حکمت ِ عملی یا عملی سیاست یا اقامت دین کے مصالح کے تحت دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کریں ، کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرائیں ‘ اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کر دیں ؟
اگر یہ ڈھیلا ڈھالا اصول لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے کہ تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو تو کیا اس سے یہ خطرہ نہیں کہ دین کے معاملے میں بالکل امان ہی اٹھ جائے گی اور جس کے ہاتھ میں یہ نسخہ پکڑا دیا جائے گا وہ پورے دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دے گا؟
جناب کی ان الفاظ سے کہ ’’وہ جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا‘‘({ FR 1083 }) یہ شبہہ کیا جارہا ہے کہ آپ خود امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے۔
مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعت ِ اسلامی کے موضوع پر تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔انھوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔حاضرین کے دلو ں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی ؈کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟مہربانی فرما کر بذریعۂ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں ۔
حال ہی میں (لاہور کے ایک اخبارکے ذریعے) علما کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں ان تحریروں سے گمراہ نہیں ہوسکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقالہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلما پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے۔
اپنے مجد د اور مہدی ہونے کے متعلق کیا راے ہے؟آئندہ چل کر اگر آپ مجدد یا مہدی ہونے کا دعویٰ کریں وہ صحیح ہوگا یا غلط؟
کیا آپ معصوم عن الخطا ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا آپ کے اجتہادات پر تنقید جائز ہے؟اگر آپ تنقید سے بالاتر نہیں تو تنقید کرنے والے علما پر کیوں طعن کیا جاتا ہے؟اگر اسلام کی تعلیمات کی تعبیر کا حق صرف جماعت کے علما کے لیے مخصوص کردیا جائے تو اسلامی علوم کو ترقی کے بجاے رکاوٹ نہ ہوگی؟آمرانہ رجحانات ترقی پذیر نہ ہوں گے؟کیا موجودہ اختلاف جب کہ دیانت داری پر مبنی ہو، اِخْتِلافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ({ FR 1084 })نہ ہوگا؟انھی اختلافات میں مختلف ذہنی صلاحیتوں کے جواہر منظر عام پر نہ آجائیں گے جن سے اُمت کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور رہے گا؟
آپ نے ابھی تک حج کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ نے اس سوال کے جواب میں یہ الفاظ کہے تھے یا آپ کا یہی نظریہ ہے: ’’موجودہ جدوجہد ہمارے نزدیک حج سے زیادہ اہم ہے؟‘‘