اُردو زبان اور موجودہ حکمران

آپ اس حقیقت سے بہت زیادہ واقف ہیں کہ مشرق کی عظیم عوامی زبان اُردو ہی وہ واحد زبان ہے کہ جس کو ہم دولتین پاک وہند کی بین المملکتی زبان قرار دے سکتے ہیں ۔ عوامی رابطہ مشرقی ومغربی پاکستان کے اعتبار سے بھی اُردو ہی بین العوامی زبان کہلائی جاسکتی ہے۔ مغربی پاکستان کی۹ علاقائی زبانوں میں بھی اُردو ہی واحد بین العلاقائی زبان ہے۔
اردو کی دولت مندی،اعلیٰ استعدادِ علمی وصلاحیت دفتری حضرت والا سے مخفی نہیں ۔اس کے باوجود آج پندرہ سال کی طویل مدت گزر گئی لیکن اردو کا نفاذ مغربی پاکستان میں بحیثیت سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان نہ ہو سکا۔
جناب وزیر قانون حکومت پاکستان کے انکشافات آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ موصوف نے اپنے ارشادات میں واضح کیا ہے کہ ۱۹۷۲ء تک انگریزی استعمال کی جاسکتی ہے یا انگریزی کا استعمال کیا جائے گا، اور۱۹۷۲ء میں ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو اس بات کا جائزہ لے گا کہ انگریزی کے بجاے کون سی زبان متبادل ہو گی۔ وزیر صاحب موصوف کے متذکرہ صدر ارشادات سے شیدایان اُردو کو ازحد صدمہ ہوا اور بڑی حد تک مایوسی طاری ہوگئی۔
مجھ جیسے کروڑہا شیدایان اُردو کی جانب سے اس وقت زبان اُردو کو آپ کی طاقت وَر معاونت کی شدید ضرورت ہے۔ ازراہِ کرم اس خصوص میں اپنے بصیرت افروز ارشادات سے میری راہ نمائی فرمائیں ۔({ FR 1022 })

آپ نے تفہیم القرآن جلد۴،ص ۱۸۳سورۂ سبا، آیت۱۳پر حرمت تصویر کے لیے حدیث سے استدلال کرتے ہوئے رَبَا الرَّجُلَ رَبْوَۃً کا ترجمہ کیا ہے:’’سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کارنگ زرد پڑگیا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ برافروختہ یعنی بھڑک اٹھنا، غصے میں آنا ہے یا شرمندہ یا خوف زدہ ہونا؟

اقامت دین کی حکمت عملی

کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب اقامت دین کی جدوجہد انبیا کے طریق عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں ‘ مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلے اور سیاسی اغراض کے لیے دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو اسے حدودِ شریعت کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالا جائے؟

کیا آپ تحریک اقامت دین کے قائد کی حیثیت سے خود اپنے لیے اس اختیار کے مدعی ہیں کہ حکمت ِ عملی یا عملی سیاست یا اقامت دین کے مصالح کے تحت دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کریں ، کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرائیں ‘ اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کر دیں ؟

اگر یہ ڈھیلا ڈھالا اصول لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے کہ تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو تو کیا اس سے یہ خطرہ نہیں کہ دین کے معاملے میں بالکل امان ہی اٹھ جائے گی اور جس کے ہاتھ میں یہ نسخہ پکڑا دیا جائے گا وہ پورے دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دے گا؟

دعواے مہدویت کا بہتان

جناب کی ان الفاظ سے کہ ’’وہ جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا‘‘({ FR 1083 }) یہ شبہہ کیا جارہا ہے کہ آپ خود امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے۔

مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعت ِ اسلامی کے موضوع پر تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔انھوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔حاضرین کے دلو ں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی ؈کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟مہربانی فرما کر بذریعۂ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں ۔

حال ہی میں (لاہور کے ایک اخبارکے ذریعے) علما کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں ان تحریروں سے گمراہ نہیں ہوسکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقالہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلما پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے۔