عالمانہ جاہلیت:نظام کفر کی ملازمت

ایک عالمِ دین اور صاحبِ دل بزرگ ’’خطبات‘‘ اور ’’سیاسی کش مکش‘‘ (جلدسوم) پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملازمتیں غیر اﷲ کی اطاعت کی تعریف میں نہیں آتیں ۔یہ تو اپنی اور اپنے اہل ملک کی خدمت ہے۔یہ حد درجے غلط طریق کار ہے کہ خزائنِ ارض پر ہندو اور سکھ بطور حاکم مسلّط ہوں اورمسلمان شودر کی حیثیت میں صرف مطالبہ گزار بن کر رہ جائیں ،اور ملازمت کریں بھی تو اس کی آمدنی کوحرام سمجھ کر کھایا کریں ۔ میں حیران ہوں کہ ان کو کیا جواب دوں ؟

اسلامی نظام تعلیم سے کیا مراد ہے؟

اسلامی تعلیم کی خصوصیات

بندہ درس و تدریس کے کام سے ایک عرصے سے وابستہ ہے اور آج کل یہا ں زیرتعلیم ہے۔یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔چنانچہ شکاگو یونی ورسٹی کی فرمائش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہے،جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں ۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔اگر امریکن طرز تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔
جناب کی بیش تر تصنیفات میر ی نظر سے گزر چکی ہیں اور اب راہ نمائی کر رہی ہیں ۔ ایک دو سوال کچھ اس پیچیدہ نوعیت کے درپیش ہوئے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ جناب سے براہِ راست راہ نمائی حاصل کی جائے۔اُمید ہے کہ آپ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کچھ وقت نکا ل سکیں گے۔ گزارش ہے کہ:
اسلامی تعلیم کس قسم کی ہو؟ کیا سب کے لیے ہو؟ فری ہو یا نہ ہو ؟وہ نمونے کی شخصیت جو اسکول کو پیداکرنی چاہیے اس کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں ؟کیا ہمارے دینی مدارس ایسی شخصیتیں پیدا کررہے ہیں ؟

صنعتی ترقی اور اسلامی روایات کا تحفظ

جن ملکوں میں صنعتی ترقی ہوئی،وہاں لازمی طور پر عام اخلاقی تنزل ہوا۔ ملوں ، کارخانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عورت، مرد، بچے تک مشینوں کے پرزے بن گئے۔ ان ملکوں میں نتیجے کے طور پر کچھ مفکر پیدا ہوئے(مثلاً امریکا میں جان ڈیوی) جنھوں نے نئی طرز کی زندگی کو نظریاتی سہارا دیا،روایات کو غلط قرار دیا اور سوسائٹی کی اقدار ہی کو بدل دیا۔ پاکستان میں ایک طرف تو صنعتی ترقی ضروری ہے ۔دوسری طرف اسلامی روایات اور اقدار کو قائم رکھنا فرض ہے۔ براہِ کرم فرمایے کہ یہ بظاہر متضاد مقاصد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں ؟مشینی فضا میں روح کیسے تازہ رہ سکتی ہے؟ تبدیلیاں لازمی ہیں مگر کس حد تک قابل قبول ہیں ؟

اسلامی نظام تعلیم میں رکاوٹ

اسلامی نظام تعلیم کی طرف بڑھنے کی کوششوں کے راستے میں کون سی طاقتیں مزاحمت کر رہی ہیں ۔
جواب: اسلامی نظام تعلیم کی طرف پیش قدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ حکومت ہی ہے جو ایسے نظام سے واقف بھی نہیں اور خائف و گریزاں بھی ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)

اسلامی نظامِ تعلیم کے لیے مجوزہ اقدامات

آپ کے نزدیک اسلامی نظام تعلیم کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں ؟ تعلیمی، تہذیبی، ملی اور جغرافیائی زندگی پر اس نظریے کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہییں ؟

غیر مسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے

کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا،غیر ممالک سے متعلق اقتصادی،فوجی،ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟پھر مادّی، صنعتی، زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ(advanced)ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں haveاورhave notکے درمیان حائل ہے ،کس طرح پُر ہوسکے گی؟نیز کیا اندرون ملک تمام بنکنگ وانشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع وربح اور گڈوِل(goodwill) اور خرید وفروخت میں دلالی وکمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟کیا اسلامی ممالک میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں لین دین کرسکتے ہیں ؟

غیر سودی معیشت میں حکومت کو قرض کی فراہمی کا مسئلہ

میں آج کل غیر سودی نظام بنک کاری پر کتاب لکھ رہاہوں ۔ اسی سلسلے میں ایک باب میں حکومت کو قرض کی فراہمی کے مسئلے پر لکھنا ہے۔ آج کل حکومت کو متعدد وجوہ سے جس وسیع پیمانے پر قرض کی ضرورت ہے اس کے پیش نظر صرف اخلاقی اپیل پر انحصار نہ کرکے اصحاب سرمایہ کو قرض دینے کے کچھ محرکات فراہم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
میری راے یہ ہے کہ غیر سودی معیشت میں جو لوگ حکومت کو قرض کے طور پر سرمایہ فراہم کریں ان کو قرض دیئے ہوئے سرمایے پر بعض محاصل میں تخفیف یا بعض محاصل سے استثنا کی رعایت دی جائے۔ مثلاً آمدنی کا جو حصہ بطورِ قرض حکومت کو دیا جائے اس پر انکم ٹیکس کی شرح رعایتی طور پر کم کر دی جائے۔ یہ رعایت حکومت کے لیے قرض کی فراہمی میں مددگار ہوگی۔
یہاں تک تو اس تجویز کا تعلق ان وضعی محاصل سے تھا جو ایک اسلامی ریاست عشرو زکاۃ وغیرہ شرعی محاصلِ و اجبہ کے علاوہ عائد کرتی ہے۔ اب ایک بالکل علیحدہ مسئلے کے طور پر یہ بھی دریافت کرنا ہے کہ اگر مذکورئہ بالا راے کو اختیار کرنے کی آپ گنجائش سمجھتے ہوں تو کیا یہ بھی ممکن ہے کہ جو سرمایہ جتنی مدت کے لیے حکومت کو قرض دیا گیا ہو اس سرمایے پر اتنی مدت تک قرض دینے والے سے زکاۃ نہ وصول کی جائے۔
دونوں تجاویز کے موافق اور مخالف جو دلائل میرے سامنے ہیں ان کا آپ کے سامنے اعادہ کرکے آپ کا قیمتی وقت صرف کرنے کی بجاے صرف اتنا لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ پہلی راے کے حق میں تو مجھے اپنی حد تک اطمینان ہے کہ اس میں کوئی شرعی اصول پامال نہیں ہوتا۔ مسئلہ صرف عملی مصالح کی روشنی میں فیصلے کا طالب ہے۔ البتہ دوسری راے پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔ دونوں رایوں کے سلسلے میں آپ سے علیحدہ علیحدہ راہ نمائی کا طالب ہوں ۔