وراثت میں اخیافی بھائی بہنوں کا حصہ

قدوری (کتاب الفرائض،باب الحجب) میں یہ عبارت درج ہے:
أَنْ تَتْرُكَ الْمَرْأَةُ زَوْجًا وَأُمًّا- أو جدَّةً – وأختين (أو اخوة) من أم وأخا لأب وَأُمٍّ، فَلِلزَّوْجِ النِّصْفُ وَلِلْأُمِّ السُّدُسُ وَلِوَلَدِ الأُمِّ الثُّلُثُ وَلَا شَيَء لِلاِئخْوَةِ مِنَ الْأ بِ وَالْأمِ({ FR 1552 })یعنی اگر ایک عورت کے وارثوں میں اس کا شوہر اور ماں یا دادی اور اخیافی(ماں شریک) بھائی اور سگا بھائی موجود ہوں تو شوہر کو آدھا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، او ر اخیافی بھائی بہنوں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور سگے بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے؟کیا یہ قرین انصاف ہے کہ برادر حقیقی تو محروم ہوجائے اور اخیافی بھائی وارث قرارپائے؟لفظ کلالہ کی قانونی تعریف بھی واضح فرمائیں ۔ کیا والدہ اور دادی کے زندہ ہونے کے باوجود بھی ایک میت کو کلالہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

پوتے کی محرومیِ وراثت

دادا کی زندگی میں اگر کسی کا باپ مر جائے تو پوتے کو وراثت میں سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ یہ مشہور شرعی مسئلہ ہے جس پر اِس وقت حکومت کی طرف سے عمل ہورہاہے۔اس بارے میں مختلف مسلک کیا ہیں اور آپ کس مسلک کو مزاج اسلامی سے قریب تر خیال فرماتے ہیں ۔ اگر آپ کا مسلک بھی مذکورہ ہی ہے تو اس الزام سے بچنے کی کیا صورت ہے کہ اسلامی نظام جو یتیم کی دست گیری کا اس قدر مدعی ہے،ایک یتیم کو محض اس لیے دادا کی وراثت سے محروم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ سکا؟

زمین داری اور آباو اجداد کی میراث کی تقسیم

بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری [نظامِ کفر کی ملازمت]حرام ہے تو زمین داری کون سی حلا ل ہے۔ ہماری زمین سرکار (ایک ریاست) نے ہمارے آبائ و اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی ۔وہ تو تمھارے نظریے کی رُو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔علاوہ بریں اسلام میں زمین دارہ سسٹم سرے سے ناجائزہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائداد بروے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائدادپر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کرسکتاہے؟

زمین داری میں رضا کارانہ طور پر اصلاحات کا آغاز

میں ایک بڑ ی زمین داری کا مالک ہوں ۔میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اپنے مزارعین سے شریعت محمدیؐ کے مطابق معاملہ کروں ۔ اس مقصد کے لیے میں اپنے موجودہ طرز عمل کی تفصیلات تحریر کررہا ہوں ۔({ FR 1551 }) ان کے بارے میں واضح فرمایے کہ کیا کیا چیزیں غلط ہیں اور کیا کیا صحیح ہیں ؟
میں نے ہر مزارع کو دس بارہ ایکٹر زمین فی ہل دے رکھی ہے۔بیگار مدت سے رائج تھی، لیکن میں نے بند کردی ہے۔صرف وسائل آب پاشی کی درستی مزارعین کے ذمے ہے۔

تخم پختہ اجناس بذمہ مزارعان ہوتا ہے اور قیمتی اجناس کے تخم کا ۳۱ حصہ میں دیتا ہوں ۔

تین سیر فی من( ۳۱ حصۂ پیدا وار کے علاوہ)کل پیدا وار میں سے جداگانہ طو رپر وصول کیا جاتا ہے اور کسی طرح کا لگان یا بیگار پہرہ وغیرہ کی خدمات نہیں لی جاتیں ۔

میرے ملازمین کاشت بھی ہیں جن میں سے چند حصہ پر ہیں اور چند تنخواہ دار ہیں ۔ حصہ داری پر کام کرنے والے میرے بیلوں کے ساتھ میری اراضی میں میرے منیجروں کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں ۔بیج میرا ہوتا ہے۔ بعد میں ملکیت کے طور پر ۳۱ حصہ بٹائی اورتین سیر فی من کل انبارمیں سے وصو ل کرتا ہوں ۔بقیہ غلہ کا نصف بیلوں کے مصارف میں لیا جاتا ہے اور نصف کارکنوں کی کارکردگی کے حق میں دیا جاتا ہے۔
مثلاً الف،ب،ج میرے حصے دار ہیں اورد،ذ میرے ملازم ہیں ۔ان کے پاس میرےپانچ جوڑی بیل کاشت کے لیے ہیں ۔ میں ۵۰من غلے میں سے اپنی بٹائی لے کرتین حصے الف،ب،ج کو دوں گا،باقی پانچ حصے بیلوں کے اور دو حصے تنخوا ہ دار ملازموں کے میں لوں گا،کیوں کہ ان کی تنخواہ میرے ذمے ہے۔آبیانہ وغیرہ علاوہ ملکیتی لگان سرکاری کے مندرجۂ بالا نسبت سے ادا ہوگا۔

میری ملکیت وراثتاً میرے پاس منتقل ہوئی ہے اور میرے آبائ و اجداد نے حکومت سے یادوسرے زمین داروں سے’’قیمتاً‘‘لی تھی۔میرے پاس کوئی سرکار ی جاگیر وغیرہ نہیں ۔ اس کی شرعی حیثیت بیان کیجیے۔

دوبارہ متکلف ہوں کہ جو چند باتیں جناب کے نوازش نامے سے نہیں سمجھ سکا، ان کی مزید توضیح کی درخواست کروں :
اگرتین سیر فی من بٹائی کے علاوہ لینا درست نہیں ہے تو پھر دوسرا یہ راستہ ہے کہ بٹائی کی شرح تبدیل کروں ۔ مثلاً ۳۱ کے بجاے ۵۲ یا ۵۳ کی شرح قائم کی جاسکتی ہے،یا کوئی اور صورت جو شرعاً زیادہ مناسب ہو تحریر فرمائیں ۔حصہ داروں اور ملازمین کے رقبوں کو علیحدہ کرنے کے لیے میں نے آج ہی کہہ دیا ہے۔بہرحال بٹائی کے شرعی طریق یا تناسب سے مطلع فرمائیں ۔

آپ نے فرمایا ہے کہ میرے ملازمین یا منیجروں کو مزارعین کے کام میں دخل دینے کا حق نہیں پہنچتا۔سوال یہ ہے کہ اگر ان کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ مالک زمین کا حق مار کھائیں گے اور کماحقہ محنت نہ کریں گے۔ ملازمین کے مصارف کا بوجھ صرف مجھی پر ہوتا ہے، مزارعین کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔