آپ نے فرمایا ہے کہ میں اپنی ملکیت کو اس وقت شرعی وارثوں میں (جو موجود ہوں ) تقسیم کردوں ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میرے باپ پر جو حصے ازروے شریعت واجب الادا تھے تو یہ ان کے ذمے تھے۔میرے نام مرحوم والد نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی ملکیت بروے ہبہ منتقل کردی تھی اوریہ واقعہ ان کی فوتگی سے چھ سال قبل کا ہے۔اندریں حالات مجھ پر صرف میرے اپنے ہونے والے ورثا کا حق واجب ہوگا یا والد مرحوم کے پس ماندگان کا بھی؟ اگر والد مرحوم کے پس ماندگان کو میں ان کا حق ادا کرنا بھی چاہوں تو میرے دوسرے بھائی اس معاملے میں ساتھ نہ دیں گے اور میں اکیلا ان کے حقوق پورے کر ہی نہیں سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ والد مرحوم کے ذمے داری سے متعلق تھا نہ کہ مجھ سے۔
مفتی: مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
مزارعین کی بے دخلی روکنے کا قانون
مزارعین کی بے دخلی کے سلسلہ میں یہ تو واضح ہے کہ فصل کی برداشت سے پہلے بے دخلی نہیں ہوسکتی۔لیکن اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ بے دخلی روکی جائے۔اگر کوئی اور صورت ہو تو مع دلیل بیان کریں ۔
حکومت کا جاگیروں کو واپس لینے کااختیار
زرعی اصلاحات کے سلسلہ میں جاگیروں کی واپسی میں واجبی حدود سے زائد واپس لینے کی دلیل بیان فرمائیں ، جب کہ حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہ کو حضور ﷺ نے گھوڑے اور چابک کی جو لان گاہ تک کی زمین دی تھی۔
ملکیتوں کو نظامِ حکومت کے سپرد کرنا
ایک عالم نے یہ سوال کیا ہے کہ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہان کی نعمتوں سے ہر فر د بشر کو منتفع ہونا چاہیے۔ اب انتفاع عامہ کے لیے اگر ملکیتوں کو نظام حکومت کے سپرد کردیا جائے تو یہ قرآن کا منشامعلوم ہوتا ہے۔
غیر مقبوضہ مال کی خرید وفروخت
ایک درآمد کنندہ(importer) غیر ممالک سے مال منگوانے کے لیے ۰افی صدی پر بنک میں لیٹر آف کریڈٹ کھولتا ہے، اور بعد میں اپنے اس بک کرائے ہوئے مال کو انھی شرائط کے مطابق جن شرائط پر اس نے خود مال بک کیا تھا،فروخت کردیتا ہے۔ یعنی دس فی صدی بیعانہ کے ساتھ۔
مذکورۂ بالا شرائط میں سے ایک اہم اور واضح شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر مال مذکور تحریر کردہ مدت کے اندر شپ(ship)نہ ہوسکا،یا کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے سرے سے سودا ہی منسوخ ہوگیا تو خریدار کو بیعانہ واپس لے کر معاملہ ختم کرنا ہوگا۔(عملاًاسی طرح ہوتا ہے)
گویا مال شپ نہ ہونے کی صورت میں خریدار اس مال کے نفع نقصان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اگر مال بک ہوگیا تو مال کا بھگتان ہوتا ہے ورنہ دوسری صورت میں بیعانہ واپس اور سودا منسوخ۔ چاہے یہ سودا کئی جگہ پر فروخت ہوچکا ہو۔
اس طریق کار میں وہ کون سے نقائص اور خرابیاں ہیں جن کی بنا پر اسے شرعاًنادرست کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا لاکھوں روپے کا کاروبار قریباًہر مہینے ہم کرتے ہیں اور اس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں کہ یہ طریقہ درست بھی ہے یا نہیں ۔ایک ’’صاحب علم‘‘ کی راے اس کے حق میں بھی ہے۔
نفع کی مقدار مقررکرنا
کیا شریعت نے نفع کی مقدار مقرر کی ہے؟اگر ہے تو کیا؟اور اگر نہیں ہے تو کہاں تک نفع لیا جاسکتا ہے؟کیا دکان دار کو اس چیز کا اختیار ہے کہ وہ اپنی چیزمارکیٹ کے لحاظ سے یا کسی اور دام پر فروخت کرسکے؟(واضح رہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں بہت کم نفع ہوتا ہے،یا خرید کی قیمت یا کچھ کم پر فروخت کرنی پڑتی ہیں )۔
نرخ مقرر کیے بغیر مال سپلائی کرنا
کارخانہ دار کو مال بغیر نرخ مقرر کرنے کے سپلائی کرتے جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ طے کرلیتے ہیں کہ ہم دوصد یا ہزار من مال دیں گے اور ایک مدت مقرر کرلیتے ہیں کہ اس کے اندر اندر ہم نرخ مقرر کرلیں گے۔جس دن ہمیں نرخ اچھا معلوم دے،ہم اسی دن فکس کرلیتے ہیں ۔بعض اوقات مال پہنچانے کے بعد ہم دو ماہ تک کا وقفہ بھی مقرر کرنے کے لیے لے لیتے ہیں ۔کارخانہ دار مال کے پہنچنے پر ہمیں کچھ پیشگی یعنی حاضر نرخ کا۶۰یا۶۵فی صدی ادا کرتا رہتا ہے۔نرخ مقرر کرنے پر کل رقم ادا ہوجاتی ہے۔
براہ کرم کتاب وسنت کے علم کی روشنی میں اس معاملہ کی حقیقت واضح فرمائیں ۔
اس طرح کے سودے کپاس اُترنے پر ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔بعض لوگ تو کپاس اُترنے سے دو چار ماہ پیش تر ہی ایسے سودے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔
بولی کی ناجائز صورتیں
مسلمان نیلام کنندہ کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ جب کوئی شخص بولی نہ چڑھائے اور وہ دیکھے کہ اس میں مجھے نقصان ہوگا تو وہ خود بولی دے کر مال کو اپنے قبضے میں یہ کہہ کر رکھ لے کہ یہ مال پھر دوسرے وقت میں نیلا م ہوگا؟نیزکیا وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ اپنے آدمی مقرر کردے کہ وہ قیمت بڑھانے کے لیے بولی بولتے رہیں ،یہاں تک کہ اس کے حسب منشا مال کی قیمت موصول ہوسکے؟
رشوت اور بخشش
موجودہ حالات اور موجودہ ماحول میں کیا مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں بھی رشوت جائز ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشوت کی ایک جامع تعریف بھی بیان کردیجیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس قسم کے معاملات رشوت کی تعریف میں آتے ہیں ؟