غیر ملکی سرمایہ پر سود

کیا ایک اسلامی حکومت غیر ملکی سرماے کو سود پر ملک میں لگانے کی اجازت دے سکتی ہے؟اجازت نہ دینے کی صورت میں ملک کی صنعتی ترقی رک نہیں جائے گی؟

ترجیحی حصص اور سود

بندہ ایک ٹیکسٹائل مل کا حصہ دار ہے۔ ہر سال منافع کی رقم وہی آتی رہی ہے جو پہلے سال آئی تھی۔ایک دفعہ میں نے مل مذکور کے دفتر سے معلوم کیا کہ کیا وجہ ہے کہ منافع ایک ہی رقم پر موقوف ہے۔جواب ملا: ’’آپ کے ترجیحی حصص ہیں ۔ ترجیحی حصص پر خسارے کا کوئی امکان نہیں ۔ان پر ہمیشہ ایک ہی مقررہ منافع ملتا رہے گا۔‘‘ میرے خیال میں یہ منافع سود ہے۔براہِ نوازش اپنی راے سے مطلع فرمائیں تاکہ سود ہونے کی صورت میں حصص فروخت کرکے جان چھڑائوں ۔

بنک کاری

میرا اعتراض سود حصہ دوم میں دیے ہوئے بنکنگ(banking) کے تجزیے پر ہے۔صفحہ ۱۲۱ سے صفحہ۱۲۳ تک آپ بنکنگ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح پہلے سناروں نے امانت داروں کا سونا قرض دینا شروع کردیا اور پھر اس طرح اس سونے کے بل پر ۱۰ گنا قرض دینے لگے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس طرح ان لوگوں نے ۹۰ فی صد جعلی روپیا بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا او رخواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس بارہ فی صد سود وصول کرنے لگے۔یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی ۹۰ فی صد دولت کے مالک ہوچکے تھے۔
اس پورے تجزیے سے مجھے سراسر اختلاف ہے۔جہاں تک آپ نے بنکنگ کی تاریخ بیان کی ہے، وہاں تک مجھے کوئی اختلاف نہیں ۔میرا اختلاف ان باتوں سے ہے جنھیں میں نے آپ کے الفاظ میں قلم بند کیا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ:
۱۔ وہ سرمایہ جعلی نہیں ۔
۲۔ بنکر کی ملک نہیں ۔
۳۔ وہ سوسائٹی پر زبردستی قرض کی صورت میں لادا نہیں گیا۔
۴۔ بنکر ملک کی۳۰ فیصد دولت کے مالک نہیں بن گئے تھے۔
۵۔ روپیا تخلیق (create)کرنے کا عمل بنکنگ کی ابتدا ہی میں نہیں ہوا تھا بلکہ روز ہوتا ہے۔
ان باتوں کو ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بنکنگ کی حقیقت کو جس طرح میں نے سمجھا ہے، اُسے بیان کردوں ۔
ایک شخص بنک کھولتا ہے۔اس کے پاس اپنا کوئی سرمایہ نہیں اور نہ ہی کوئی امانت دار اس کے پاس رقم رکھاتا ہے۔چوں کہ بنک صفر سے قائم ہوتا ہے(B=0) اس کے پاس ایک شخصA آتا ہے اور۱۰۰ روپے قرض مانگتا ہے۔ بنک اس کی درخواست کو قبول کرلیتا ہے لیکن نقدی کی صورت میں کچھ بھی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے نام۱۰۰ روپے اپنے کھاتے میں جمع کرلیتا ہے (۱۰۰+A)۔ ابA بازار میں C سے کچھ مال خریدتا ہے اور اسے ۱۰۰ روپوں کا چیک دیتا ہے۔ Cاسے بنک میں جمع کرادیتا ہے۔ بنکA کے کھاتے سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے (۱۰۰-۱۰۰=۰+A) اور C کے نام جمع کرلیتا ہے (۱۰۰+C)۔ بازار میں ۱۰۰ روپے کی چیزC سےA کے پاس چلی گئی۔ اس کے عوض میں اسٹیٹ بنک کا ایک نوٹ بھی نہ دیا گیا بلکہ Bکے کھاتے میں ۱۰۰روپے کا اندراج کر دیا گیا۔ بنک(B) کے پاس پہلے بھی کوئی رقم نہ تھی اور اب بھی کوئی رقم نہیں ہے۔ ابCمال خریدتا ہے اور Sکو۱۰۰ روپے کا چیک دے دیتا ہے۔ بنکC کے کھاتے سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے اورS کے نام جمع کردیتا ہے۔ غرض یہ کہ اسی طرح تجارت کا چکر چلتا رہتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بنکر کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا۔ لیکن اس نے پھر بھی۱۰۰ روپے کا قرض دے دیا اور بنک کا قرض بازارمیں کرنسی نوٹوں کی طرح چل رہا ہے۔ اسی رقم سے اسی طرح خرید وفروخت ہورہی ہے جس طرح عام نوٹوں سے ہوتی ہے اور بنک صفر سرمایے سے کام شروع کرنے کے باوجود۱۰۰ روپے سود کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ پکار اٹھتے ہیں کہ بنکر جعل ساز ہے۔ اس نے خود ہی جعلی روپیا بنایا اور اس کا مالک بن کر اسے سوسائٹی پر قرض کی صورت میں لاد دیا۔ اس طرح اتنی ملکی دولت ا س کے قبضے میں چلی گئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ احتجاج صحیح ہے؟
میں نے بنکر صفر سرماے سے اس لیے شروع کیا ہے کہ آپ کے الزامات کی سنگینی پوری شدت سے ابھر آئے اور روپے بنانے میں ۱۰:۱ کے تناسب کی قید بھی حائل نہ ہو۔ پوری پوری رقم ایک شخص سے دوسرے شخص کے نام تبدیل کرنے میں حسابی سہولت مقصود ہے۔
ہماری مثال میں اب صورت حال یہ ہے کہ بنک کے پاس ایک دھیلا بھی نہیں لیکن بنک کو Aسے ۱۰۰ روپے ملنے ہیں ، کیوں کہ یہ رقم اس نے بنک سے قرض لی تھی۔ اس رقم کے علاوہ بنک کو سود بھی ملنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بنک کے کھاتے میں s کے نام ۱۰۰روپے جمع ہیں ۔ یعنی بنک نے Sکو ۱۰۰ روپے دینے ہیں ۔ یعنی بنک کو اگر ایک طرف سے سود+۱۰۰ ملنا ہے تو دوسری طرف اس کے ذمے۱۰۰ روپے واجب الادا بھی ہیں ۔
اب پوری بات صاف ہوجاتی ہے:
۱۔ وہ رقم جو بنک نے پیدا کی تھی وہ بنک کی ملک نہیں ہے۔وہ بچانے والے(S) کی ملک ہے، بنک صرف سود کی رقم کا مالک ہے۔
۲۔ لہٰذا بنک نے کوئی جعلی سرمایہ نہیں بنایا۔اس نے صرف بچانے والے کی رقم کو ادھار پر لگایا ہے۔
۳۔ بنک سوسائٹی کی ۹۰ فی صد دولت کا مالک نہیں بن رہا۔
۴۔ بنک سوسائٹی کے سرپر زبردستی کوئی قرض نہیں لاد رہا،دولت بچانے والا جس دن چاہے،اس چکر کو بند کرسکتا ہے۔Aنے بنک سے نقد اپنے۱۰۰ روپے کا مطالبہ کردیا۔بنک نے A سے کہا کہ میرا دیا ہوا قرض واپس دو۔A نے ۱۰۰+سود واپس کردیا۔بنک نے Sکو ۱۰۰روپے دے دیے اور سود کا کچھ حصہ خود رکھ لیا،کچھSکو دے دیا۔ اب بنک پھر خالی ہے۔ نہ اس کا کسی پر قرض ہے اور نہ ہی اس کے ذمے کوئی قرض ہے۔
اگر بنک جعلی روپیا بناسکتے تو وہ کبھی فیل نہ ہوتے۔فیل وہ ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جعلی روپیا نہیں بنا سکتے۔ امانت دار اپنے روپے طلب کرتے ہیں اور بنک بعض اوقات فوری طور پر اپنے قرض واپس نہیں لے پاتا۔امانت دار فوری نقدی طلب کرتے ہیں ۔اس لیے امانت داروں کے تقاضے بنک پورے کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں اور لال بتی جلا دیتے ہیں ۔
آپ کی تحریر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ساہو کاروں نے اپنی ترقی کے ابتدائی دو رمیں ایک کے دس بناے تھے،اب وہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ روز ہر بنک ایک روپے کے بل پر دس روپے قرض دیتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے بنک قرض اپنے نوٹوں کی شکل میں دیتے تھے،اب چیک کی صورت میں دیتے ہیں ۔لیکن نوٹ اور چیک دونوں کی ماہیت اور دونوں کیtheory ایک ہی ہے۔ دونوں بنک کے ذمہ واجب الادا رقوم کے ثبوت ہیں ۔چوں کہ تخلیق زر (creation of money) کے طریقے سے آپ بخوبی واقف ہیں ، اس لیے اسے دہرانا بے کار ہے۔میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میر ی کم سمجھی کی بنا پر یا آپ کی عبارت کی ساخت کی بناپر مجھے یہ خیال گزرا۔آپ اس عمل کو بنکنگ کی تاریخ کا ایک پرانا باب سمجھتے ہیں ۔کیا میرا یہ خیال صحیح ہے؟

تخلیقِ زرکی اجازت

کیا اسلامی بنکنگ میں تجارتی بنکوں کو تخلیق زر کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟…اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر اس کی اجازت نہ ہوگی تو اعتباری نظام میں لچک کس طرح پیدا کی جائے گی؟

کاروبار اور عورت کا اشتہار

موجودہ دور میں ہر کاروبار کو عورت کے اشتہار کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے۔الحمد ﷲ کہ میں اس لعنت سے بچا ہوا ہوں ،لیکن جو چیزیں ولایت سے آتی ہیں یا ملک وقوم کے لوگ تیار کرتے ہیں ،ان پر عورت کی تصویر مختلف ہیئتوں (poses) میں نمایاں رہتی ہے۔لیبل کو پھاڑ دینے سے چیز کو فروخت کرنا مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ تم تصویروں کی خرید وفروخت کرتے ہو اور یہ حرام ہے۔

نقد اور اُدھار خریداری کی صورت میں کمیشن میں فرق

بعض ایجنٹ مال سپلائی کرتے وقت دکان دار سے کہتے ہیں کہ اگر مال فروخت کرکے ہمیں رقم دو گے تو۲۰فی صدی کمیشن ہم آپ کو دیں گے،اور اگر نقد قیمت مال کی ابھی دو گے تو ۲۵ فی صدی کمیشن ملے گا۔کیا اس طرز پر کمیشن کا لین دین جائز ہے؟

غاصب کے مال میں خیانت کرنا

ایک گروہِ کثیر کا خیال ہے کہ موجودہ انگریزی گورنمنٹ کا مال، بالخصوص وہ مال جو پبلک کے مفاد پر صرف نہیں ہوتا بلکہ اسے گورنمنٹ اپنے مفاد اور تحفظ پر صرف کرتی ہے،جس صورت میں لیا جاسکے، لے لینا جائز ہے۔یعنی خیانتاً یا بذریعہ رشوت وغیرہ۔اس پر دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ سود جس کا لینا قطعی حرام ہے،اعاظم علما کے فتووں کے مطابق سرکاری بنک سے وصول کرلینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر اسے بنک میں چھوڑا جائے تو عیسائی مشنریوں کی وساطت سے وہ خود اسلام کے خلاف استعمال ہوگا۔پھر فرمائیے کہ وہ مال جو کسی غلط نظام حکومت کے استحکام میں صرف ہوتا ہے اورجس کے متعلق یہ بھی ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایا ہی سے بطور غصب لیا گیا ہے،کیوں نہ اسے ہر ذریعے سے واپس حاصل کیا جائے؟

پیشہ ٔ وکالت اسلامی نقطۂ نظر سے

میں نے حال ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ہے،اور اس پیشے میں خاصا کام یاب ہوا ہوں ، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک وکیل کو قوانینِ الٰہیہ کے برخلاف روزانہ قوانین انسانی کی بِنا پرمقدمات لڑنے پڑتے ہیں ۔وہ اپنا پورا زورلگا کر اس چیز کو حق ثابت کرتا ہے جسے انسانی قوانین حق قرار دیتے ہیں ،خواہ خدائی قانون کی رُو سے وہ حق ہو یا نہ ہو۔ اور اسی طرح باطل اسے ثابت کرتا ہے جو ان قوانین کی رو سے باطل ہے،خواہ قانونِ الٰہی کے تحت وہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ محتاط سے محتاط وکیل بھی عدالت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی معاً حق و باطل اور حقوق اور ذمہ داریوں کے اس معیار کو تسلیم کرتا ہے جس کو انسان کی خام کار عقل نے اپنی خواہشاتِ نفس کے ماتحت مقرر کررکھا ہے۔ غرض یہ کہ ایک وکیل کفر کی اچھی خاصی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیتا ہے،لیکن کوئی پیشہ بھی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جسے اختیار کرکے آدمی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس دُہری مشکل کا حل کیا ہے؟میں یہ سوال اُس مسافر کی پوری آمادگیِ عمل کے ساتھ کررہا ہوں جو پا بہ رکاب کھڑا ہو۔

پرانی چیز کو نئی چیز میں بدلوانا

مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز (حکومتی اشیا میں )سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟