غاصب کے مال میں خیانت کرنا

ایک گروہِ کثیر کا خیال ہے کہ موجودہ انگریزی گورنمنٹ کا مال، بالخصوص وہ مال جو پبلک کے مفاد پر صرف نہیں ہوتا بلکہ اسے گورنمنٹ اپنے مفاد اور تحفظ پر صرف کرتی ہے،جس صورت میں لیا جاسکے، لے لینا جائز ہے۔یعنی خیانتاً یا بذریعہ رشوت وغیرہ۔اس پر دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ سود جس کا لینا قطعی حرام ہے،اعاظم علما کے فتووں کے مطابق سرکاری بنک سے وصول کرلینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر اسے بنک میں چھوڑا جائے تو عیسائی مشنریوں کی وساطت سے وہ خود اسلام کے خلاف استعمال ہوگا۔پھر فرمائیے کہ وہ مال جو کسی غلط نظام حکومت کے استحکام میں صرف ہوتا ہے اورجس کے متعلق یہ بھی ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایا ہی سے بطور غصب لیا گیا ہے،کیوں نہ اسے ہر ذریعے سے واپس حاصل کیا جائے؟

پیشہ ٔ وکالت اسلامی نقطۂ نظر سے

میں نے حال ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ہے،اور اس پیشے میں خاصا کام یاب ہوا ہوں ، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک وکیل کو قوانینِ الٰہیہ کے برخلاف روزانہ قوانین انسانی کی بِنا پرمقدمات لڑنے پڑتے ہیں ۔وہ اپنا پورا زورلگا کر اس چیز کو حق ثابت کرتا ہے جسے انسانی قوانین حق قرار دیتے ہیں ،خواہ خدائی قانون کی رُو سے وہ حق ہو یا نہ ہو۔ اور اسی طرح باطل اسے ثابت کرتا ہے جو ان قوانین کی رو سے باطل ہے،خواہ قانونِ الٰہی کے تحت وہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ محتاط سے محتاط وکیل بھی عدالت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی معاً حق و باطل اور حقوق اور ذمہ داریوں کے اس معیار کو تسلیم کرتا ہے جس کو انسان کی خام کار عقل نے اپنی خواہشاتِ نفس کے ماتحت مقرر کررکھا ہے۔ غرض یہ کہ ایک وکیل کفر کی اچھی خاصی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیتا ہے،لیکن کوئی پیشہ بھی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جسے اختیار کرکے آدمی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس دُہری مشکل کا حل کیا ہے؟میں یہ سوال اُس مسافر کی پوری آمادگیِ عمل کے ساتھ کررہا ہوں جو پا بہ رکاب کھڑا ہو۔

پرانی چیز کو نئی چیز میں بدلوانا

مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز (حکومتی اشیا میں )سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟

چور بازار سے مال خرید کرزیادہ قیمت پر بیچنا

آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے، مگر بعض لوگ اس خرید وفروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اورپولیس بھی اس پر گرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

سرکاری نرخ بندی کا حکم

تسعیر یا نرخ بندی یعنی سرکاری طور پر اشیاء کی قیمتوں کو مقرر کر دینے کے سلسلے میں اسلام کی پالیسی کیا ہے۔

سرکاری نرخ بندی اور فرضی اندراجات

آڑھت کے سلسلے میں ہم کو گندم خریدنی پڑتی ہے ۔گندم کی خرید وفروخت کے لیے اس وقت کنٹرول ریٹ مقرر ہے،لیکن اس مقررہ نرخ پر گندم ملنی ممکن نہیں ہے۔منڈی کے تمام بیوپاری قدرے گراں نرخ سے خرید وفروخت کرتے ہیں مگر رجسٹروں میں اندراج کنٹرول ریٹ کے مطابق کرتے ہیں ۔دکان دار خرید وفروخت میں کنٹرول ریٹ سے زائد جو قیمت لیتا دیتا ہے، اس کا حساب دکان دار کے کھاتوں سے نہیں بلکہ اس کی جیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اب آپ فرمایئے کہ کیا اپنے استعمال کے لیے اور تجارت کے لیے اس ڈھنگ پر گندم خریدنا جائز ہے؟ نیز یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کا کوئی معاملہ عدالت کی گرفت میں آجائے جس کا ہر وقت امکان ہے، تو کیا یہ جائز ہوگاکہ عدالت میں بھی کھاتے کے جھوٹے اندراجات کے مطابق بیان دیا جائے؟واضح رہے کہ سچ بولنے سے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت عدالت مقررہ سزا نافذ کردے گی۔

بِکر ی ٹیکس(Sales Tax) اور فرضی اندراجات

میں بزازی کا کاروبار کرتا ہوں ۔یکم اپریل۱۹۴۸ء سے ہم پر بِکری ٹیکس لگایا گیا ہے اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اپنے گاہکوں سے وصول کرلیں ۔لیکن عام دکان دار نہ تو گاہکوں سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور نہ خود ادا کرتے ہیں ۔ اس سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنی روزمرہ کی اصل فروخت کا حساب وہ اپنے باقاعدہ رجسٹروں میں درج ہی نہیں کرتے۔حکومت کے کارندوں کو وہ اپنے فرضی رجسٹر دکھاتے ہیں اور جب ان کے رجسٹروں پر کسی شک کا اظہار کیا جاتا ہے تو رشوت سے منہ بند کردیتے ہیں ۔ دوسرے دکان داروں کے لیے تو یہ جعل اور رشوت آسان ہے مگر ایک ایمان دار تاجر کیا کرے؟ وہ خریداروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس کا مال فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ پاس ہی ایک ایسا دکان دار بیٹھا ہے جو ٹیکس لیے بغیر اس کے ہاتھ مال فروخت کرتا ہے۔ اور اگر وہ خریدار سے ٹیکس وصول نہیں کرتا تو اسے اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔اس صورت میں بسا اوقات اسے کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض چیزوں میں تو نفع اتنا کم ہوتا ہے کہ پورا نفع دے دینے کے بعد تاجر کو کچھ اپنی گرہ سے بھی دینا پڑ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم تجارت چھوڑ دیں یا فرضی حسابات رکھنے شروع کردیں ؟
مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جو صحیح حسابات رکھتے ہیں ،انھیں بھی سرکاری کارندے فرضی سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ جہاں ۹۹فی صدی تاجروں کے حسابات فرضی ہوں وہاں ایک فی صدی کے متعلق انھیں یقین نہیں آتا کہ اس کا حساب صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے قاعدے کے مطابق ہماری بکری کا اندازہ بھی زیادہ لگا کر ہم سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اب کیا ہم اس سے بچنے کے لیے انھیں رشوت دیں ؟یا ایمان داری کی پاداش میں زائد ٹیکس کا جرمانہ بھی ادا کریں ؟

کھاتا اور ایمان داری

بالعموم ہر دکان دار دو قسم کے کھاتے رکھتا ہے۔ ایک تو اس کا نجی کھاتا ہوتا ہے، دوسرا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے افسران کو دکھانے کے لیے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اگر نہیں تو تاجر کیا کرے؟ایک صاحب جن کا تعلق میرے بازار سے نہیں لیکن میں انھیں جانتا ہوں ،انھوں نے ایک سال کا پورا حساب انکم ٹیکس کے افسرکے سامنے پیش کیا،ایک پیسے کی بھی انھوں نے چوری نہ کی تھی۔لیکن افسر نے ٹیکس کے علاوہ مزید بھاری رقم ان پر لاد دی، اور شبہہ یہ ظاہر کیا کہ جو حساب اسے دکھایا گیا ہے،وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟

مکانوں کے کرایوں میں بلیک مارکیٹنگ

جس مکان میں میں رہتا ہوں ،وہ مجھ سے پہلے ایک کرایہ دار نے پینتالیس روپے ماہانہ کرایے پر مالک مکان سے اس شرط پر لیا تھا کہ دو ماہ کے نوٹس پر خالی کردیں گے۔ان کرایہ دار سے یہ مکان انھی شرائط پر میرے بھائی نے لیا اور میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ دو ماہ کے بعدمیرے کہنے پر مالک مکان میرے نام سے رسید کاٹنے لگے۔آٹھ ماہ تک برابر ہم پینتالیس روپے ماہانہ ادا کرتے رہے اور اس دوران میں کرایے کی زیادتی ہمارے لیے سخت موجب تکلیف رہی اور کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ رینٹ کنٹرولر کے یہاں درخواست دے کر کرایہ کم کرایا جائے،مگر اس صورت پردلی اطمینان نہ ہوسکا۔ستمبر میں مالک مکان کو سفیدی وغیرہ کرانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو کرایہ دار کے فرائض میں سے ہے۔ آس پاس کے لوگوں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی،لیکن انھوں نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے کہا کہ دو ما ہ بعد جواب دوں گا (شاید مکان خالی کرانے کی دھمکی اس جواب میں مضمر تھی)۔اس پر کسی قدر تیز گفتگو ہوئی، جس کے نتیجے میں میں نے رینٹ کنٹرولر کے یہاں کرایہ تشخیص کرنے کی درخواست دے دی۔وہاں سے سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے کرایہ مقررکردیا گیا۔مگر میرا ضمیر اس پر اب بھی مطمئن نہیں ہے۔
جن صاحب کے ذریعے یہ مکان حاصل ہوا تھا،ان کے اور ان کے عزیروں کے کہنے سننے سے میں نے یہ صورت منظور کرلی کہ پینتیس روپے ماہوار میں اس شرط پر دوں گا کہ میں مکان میں جب تک چاہوں رہوں ،لیکن اگر کبھی مالک مکان نے مکان خالی کرایا تو پھر شروع سے کرایہ سولہ روپے گیارہ آنے کے حساب سے محسوب ہوگا اور زائد وصول شدہ رقم مالک مکان کو واپس کرنی ہوگی۔مالک مکان فی الحال اس شرط پر راضی نہیں ہے،لیکن ظاہر بات ہے کہ ان کو راضی ہونا پڑے گا۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے کون سی صورت صحیح ہوگی؟ کیا میں پینتالیس روپے ماہوار دیتا رہوں یا سولہ روپے گیارہ آنے ادا کیا کروں ؟نیز کیا میرے لیے ضروری ہے کہ جب مالک مکان مکان خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو لازماً خالی کردوں یا اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے کہ اسے مکان کی خود ضرورت نہیں ہے،بلکہ محض کرایہ بڑھانے کے لیے دوسرے کرایہ دار کو دینا مطلوب ہے،میرے لیے جائزہے کہ میں مطالبے کی تعمیل سے انکار کردوں ؟واضح رہے کہ مکانوں کی غیر معمولی قلت کی بنا پر پینتالیس روپے کے بجاے پچاس روپے دینے والے کرایے دار بھی مل سکتے ہیں ۔
مجھے صاف اور دو ٹو ک جواب دیا جائے۔جواب میں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ میں مالک مکان کو نصیحت کروں یا اس کا ظلم اس پر واضح کروں ،کیوں کہ یہ چیز بے کار ہوگی۔