ایک طبقے کے لیے رعایتی قیمتوں سے دوسرے طبقے کا فائدہ اٹھانا

حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے ۔دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں ۔پھر کیا مؤخر الذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعے حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟مثلاً مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟

مسلمان تاجروں کا اپنی جمعیت بنانا

کاروبار میں اسلامی اصولِ اخلاق کا استعمال
ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے ۔موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میں جمعیت ہاے تاجرانِ غلّہ (foodgrain’s associations)قائم ہیں ۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی’’فوڈ گرین سنڈی کیٹس‘‘ بنائیں ۔ گورنمنٹ ہر سنڈی کیٹس کو اشیاے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آئندہ غلے کا سارا کاروبار صرف سنڈی کیٹ({ FR 1634 }) ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصے داروں پر تقسیم ہوجایا کرے گا۔چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈی کیٹس بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلّے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چوں کہ سنڈی کیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے، لہٰذا بنک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بنک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈی کیٹس سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈی کیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنھیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈی کیٹس دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بنک سے قرض لے،جس کا سود سنڈی کیٹس ادا کرے گی۔ اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پورے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے اور بنک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبارگندا نہ ہونے دیں گے۔ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈی کیٹس نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں ، اختیار کرسکتے ہیں ۔
اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا،وہ سب ہمارے اُصول کی بہت قدرکررہے ہیں ۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اُصول کی خاطر ہر فائدے کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں ۔ان پر ہمارے اس رویے کا اخلاقی اثر اس درجے گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بوری گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے۔ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔آخر راقم الحروف کا جانا طے ہو گیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا،کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسروں کو کرنے دے گا۔اس سلسلے میں حسب ذیل اُمور کے متعلق آپ کی ہدایت درکار ہے۔
سرِدست تو ہمارا اور ان غیر مسلم تاجروں کا ساتھ نبھ رہا ہے،لیکن آگے چل کر اگر یہ ساتھ نہ نبھ سکا تو پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی ایک الگ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ بنالیں اور خدا کی نافرمانی سے ہر ممکن حد تک بچ کر اپنا کاروبار چلائیں ؟

تجارتی شرکت ،اُصولی یا قوم پرستانہ

ہندو مسلم مخاصمت کی وجہ سے یہاں کی فضا حد درجے خراب ہے، اور چوں کہ مارکیٹ پر ہندوئوں کا قبضہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے میں تکلیف پیش آرہی ہے۔ان حالات میں ایک مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حصے کا پورا کوٹا اسی کو ملے۔ہمیں بعض اصحاب مشورہ دے رہے ہیں کہ تم بھی اس میں شامل ہوجائو۔ مگر ہمیں اس کے اندر قوم پرستانہ کش مکش کی بُو محسوس ہوتی ہے اور اسی بِنا پر ہم اس سے پرہیز کررہے ہیں ۔کیا یہ رویہ ہمارے لیے مناسب ہے؟

سیپ کا معاملہ

ہرگائوں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ان لوگوں سے زمین دار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے،نہ تنخواہ دیتے ہیں ،بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلّے کی انھیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صورتِ معاملہ کیسی ہے؟

پیشگی سودے

کیا اسلام کی رو سے پیشگی سودا بازی (forward transaction) ناجائزہے؟

مال کی فراہمی کے معاہدے

ہمیں کاروباری معلاما ت میں چند ایسی صورتوں سے سابقہ پڑتا ہے کہ جن کے بارے میں پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا۔براہ کرم کتاب وسنت کے علم کی روشنی میں ان معاملات کی حقیقت واضح فرمائیں :
(۱)زمین دار یا دیہات کے بیوپاری کپاس کا وزن،نوعیت(quality)،جس مدت میں وہ مال پہنچا دیں گے،اور نرخ طے کرکے سودا کرجاتے ہیں ۔کچھ پیشگی بھی دے دی جاتی ہے۔زبانی یا تحریری یہ سب کچھ طے ہوجاتا ہے۔مال نہیں دیکھا جاتا اور نہ یہ ممکن ہے۔ انھی شرائط پر ہم کارخانہ دار کو جتنا مال کپاس ہم نے خریدا ہوتا ہے،مقررہ مدت کے اندر ہم دینا طے کرلیتے ہیں مگر عموماًکارخانہ دار پیشگی نہیں دیتے۔
(۲) بعض اوقات جب کہ ہم نے کوئی مال خریدا ہو(یعنی کسی مال کا سودا ابھی نہیں کیا ہوتا) پیشگی ہی کارخانہ دار کے ساتھ مال کی کوالٹی،وزن،نرخ وغیرہ لکھ کر اور مدت طے کرکے سودا کرلیتے ہیں ،بعد میں مال خرید کر بھگتان کردیتے ہیں ۔ان دونوں صورتوں میں نرخ پہلے مقرر کرلیا جاتا ہے۔

مروّجہ کچے اور پکے پیمانوں کی حیثیت

چمڑے کے کاروبار میں کروم ایک ایسی چیز ہے جس پر فٹ کی پیمائش کا اندراج بہت غلط ہوتا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ مال کلکتے میں تیار ہوتا ہے۔مال تیار کرنے والے ہر تھان پر اصل پیمائش سے زائد فٹ لکھ دیتے ہیں ۔ مثلاًدس فٹ کے تھان کو بارہ فٹ ظاہر کرتے ہیں ۔اس کے بعد کلکتہ کے تاجر یہ مال خریدتے ہیں اور یہ کچھ اور فٹ بڑھا دیتے ہیں ۔اس کے بعد جب باہر کے تاجر ان سے مال خرید لے جاتے ہیں تو پھر وہ مزید فٹ بڑھاتے ہیں ۔ یہاں آکر تھان پر فٹوں کا پکا اندراج ہوجاتا ہے اور پھر وہ آخر تک یہی اندراج قائم رہتا ہے۔صحیح فٹ والا مال مارکیٹ میں نہیں ملتا۔ تقریباً سبھی کارخانے اور تاجر یہی کچا فٹ استعمال کرتے ہیں ۔عام طور پر گاہک اس صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ہم پیمائش کی اس گڑبڑ کے متعلق کوئی توضیح نہیں کرتے۔لیکن اگر کوئی گاہک پوچھے تو اسے صاف بتا دیتے ہیں کہ اس مال پر کچے (یعنی غلط ) فٹوں کا نمبر لگا ہوا ہے۔ ہم اسی کچے فٹ کے حساب سے خریدتے ہیں اور اسی کے حساب سے منافع لگا کر فروخت کرتے ہیں ۔ شرعاً ایسے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟

حرام ذریعہ معاش والے شخص کو مال بیچنا

کیا ایک دکان دار کسی ایسے شخص کے ہاتھ بھی اپنا مال فروخت کرسکتا ہے،جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا ذریعۂ معاش کلیتاً معصیت فاحشہ کی تعریف میں آتا ہے؟

’زیادہ سے زیادہ صرف کرو‘ کی پالیسی

میں معاشیات کا طالب علم ہوں ۔اس لیے اسلامی معاشیات کے سلسلے میں مجھے جس قدر کتابیں مل سکی ہیں ،میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔’’سود‘‘ کے بعض ابواب میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں ۔ لیکن بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔جو کہ درج ذیل ہیں ۔
کچھ دن ہوئے ہیں ،میں نے آپ کو یہ سوال لکھا تھا کہ آپ خرچ پر جس قدر زور دیتے ہیں ،اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ اسلامی ریاست میں سرماے کی شدید کمی ہوجائے گی اور ملک کی صنعتی ترقی رک جائے گی۔اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ ’’سود‘‘ میں اس کا جواب موجود ہے۔متعلقہ ابواب کو دوبارہ پڑھا جائے۔ میں نے کئی بار ان ابواب کو پڑھا ہے اور میرا اعتراض قائم ہے۔لہٰذا میں آپ کے پیش کردہ دلائل کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں اور پھر اپنا اعتراض پیش کرتا ہوں ۔
آپ کا استدلال یہ ہے کہ لوگ دل کھول کر خرچ کریں تو ہر چیز کی مانگ بڑھے گی۔ا س کا نتیجہ یہ ہوگا کہ producersاپنی پیدا وار بڑھائیں گے۔ یعنی زیادہ عوامل کو روزگار مہیا کریں گے۔عوامل پیداوار کی بڑھتی ہوئی آمدنی کے نتیجے میں چیزوں کی مانگ اور بڑھے گی۔غرض کہ معاشی خوش حالی کا ایسا چکر چلے گا جس سے کہ ایک طرف عوامل پیدا وار کی آمدنی اور معیار زندگی بلند ہوتا چلا جائے گا اور دوسری طرف صاحب پیدا وار کی بکری اور منافع بڑھتاچلا جائے گا۔
اس کے بعد آپ یہ کہتے ہیں کہ صنعتوں کے لیے سرمایہ بڑھے ہوئے منافع اور بڑھتی ہوئی آمدنی سے بچی ہوئی رقم میں سے فراہم ہوجائے گا۔
اب میں اپنے اعتراضات بیان کرتا ہوں ۔ میں شروع ہی میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ سود کی بندش سے پس اندازی کا سلسلہ رک جانے کا مجھے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ میرا سارا اعتراض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی صحیح پالیسی نہیں ہے۔
آپ کے پورے استدلال کی تہ میں یہ مفروضہ کام کررہا ہے کہ ملک پہلے سے ہی پوری طرح صنعتی ترقی کرچکا ہے۔اب صرف سالانہdepreciation اورreplacement کے لیے سرماے کی ضرورت ہے۔دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ لوگوں کی پس انداز کرنے کی عادت کی بنا پر ملک کی موجودہ صنعتی قابلیت بھی پوری طرح استعمال نہیں ہورہی۔
پہلا نتیجہ میں نے اس طرح اخذ کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ اصلاً صنعت کا اندرونی منافع ہی سرماے کی کمی کو پورا کردے گا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب صنعت پہلے سے خوب ترقی یافتہ ہو۔ اگر صنعت بالکل نہ ہو،یا ابتدائی مراحل میں ہو،تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اندرونی سرماے ہی سے یا تھوڑا سا باہر کا سرمایہ ملا کر ضرورت پوری ہوجائے۔مثال کے طور پر پاکستان کا شش سالہ پلان لیجیے۔ باوجود اس کے کہ یہ پلان ہماری ضروریات کے لحاظ سے انتہائی حقیر ہے اور اس میں ملکی ضروریات سے زیادہ سرماے کی فراہمی کے مسئلے کو پیش نظر رکھا گیا ہے،لیکن پھر بھی ا س پلان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صنعتی اور ملکی سرمایہ ملا کر اور غیر ملکی سرماے کو بھی شامل کر کے سرماے کی ضروریات پوری نہیں ہورہیں اور حکومت کو خسارے کا بجٹ بنانے پرمجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہی حال ہندستان، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ ممالک کا ہے۔ جتنے پس ماندہ ممالک ہیں ، کسی کا ملکی سرمایہ بھی اس کی صنعتی ضروریات کے لیے کافی نہیں ۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ صنعت کا اپنا سرمایہ اور تھوڑی بہت پس ماندہ رقم ہماری صنعتی ضروریات کے لیے کافی ہو گی، کس طرح صحیح ہے۔ اسی بِنا پر I.B.D.R.I.M.Eوغیرہ وجود میں آئے ہیں ۔
دوسرا مفروضہ میں نے اس طرح نکالا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جب لوگ زیادہ خرچ کریں گے تو روزگار بڑھے گا۔ پیدا کنندگان زیادہ عوامل پیدا وار سے روزگار مہیا کریں گے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب فاضل صنعتی قوت موجود ہو۔ اگر زائدقوت موجود نہ ہو، یعنی کارخانے اپنی قوت کار سے کم کام نہ کررہے ہوں ، یا سرے سے کارخانے ہی موجود نہ ہوں ،جیسا کہ عام طور پر پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے،تو زیادہ خرچ کرنے کا نتیجہ سواے افراط زر کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ممالک کو چھوڑیے،خود اپنے ہی ملک میں ہمیں اس کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔دوران جنگ میں جب کارخانے دن رات کام کررہے تھے، تو روپے کی فراوانی کی بِنا پر لوگ خوب خرچ کررہے تھے،اس وقت صنعت میں براے نام ہی ترقی ہوئی تھی۔ البتہ Inflation خوب بڑھ گئی تھی۔ایسی صورت میں یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ زیادہ خرچ کرنے سے صنعت کو فروغ ہوگا؟ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ آپ کی معاشیات تنزل پذیر ہے، ترقی یافتہ نہیں ہے؟ آپ کا نسخہ ترقی یافتہ ممالک میں تو کارگر ہوسکتا ہے پس ماندہ ممالک میں نہیں ۔
یہ تو تھا آپ کے دلائل کا جائزہ اور ان پر میرا اعتراض،اب میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی کے خلاف چند دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں :
۱۔ ہر قسم کے اخراجات معاشی نقطۂ نظر سے مفید نہیں ہیں ۔ اگر اپنا زائد منافع صنعت میں لگا دینے کے بجاے قیمتی مکانات، قیمتی لباس،قیمتی فرنیچر وغیرہ پر صرف کردیں تو ملکی صنعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بلکہ الٹانقصان ہی پہنچے گا، کیوں کہ وہ رقم صنعتی سرمایہ نہ بنی۔ علاوہ ازیں اتنی رقم صنعتی پیدا وار پر صرف ہونے سے بھی رہ گئی۔ اس طرح اتنی مالیت کی پیدا وار فروخت نہ ہوسکی۔ اور ایسے اخراجات حرام نہیں ہیں ۔ لہٰذا خرچ کرو کی پالیسی معاشی مسائل کا حل نہیں ہے۔
۲۔ ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی پس ماندہ ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ایسے ممالک میں چوں کہ ملکی صنعت براے نام ہی ہوتی ہے،اس لیے خرچ کا بیش تر حصہ درآمدہ اشیا پر صرف ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ پر بہت بوجھ پڑتا ہے۔ایک تو ویسے ہی ان ممالک کے غیر ملکی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں ، پھر اوپر سے اخراجات صارفین کا جو دبائو پڑتا ہے،اس کی وجہ سے مشینوں کی درآمد کے لیے بہت کم وسائل رہ جاتے ہیں ۔ لہٰذا ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی سے صنعتی ترقی کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔جب خرچ کا دبائو زیادہ پڑ رہا ہو تو یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ consumption goods کی درآمد بند کردی جائے۔کیوں کہ پھر ملک میں افراط زر کا چکر چلنے لگے گا۔ان دونوں صورتوں کا تجربہ ہم نے خوب کیا ہے۔پہلی صورت کا تجربہ فضل الرحمٰن صاحب کا او۔جی۔ ایل تھا۔دوسری صورت کا تجربہ۱۹۵۳ء سے ہورہا ہے۔ اور دونوں تجربات کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔
۳۔ ’’زیادہ سے زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی اور بسرعت صنعتی ترقی کی خواہش بالکل متضاد ہیں ۔ہر ملک کے وسائل محدود ہوتے ہیں ۔ان وسائل کو دو طرح سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔consumtion پر اور productionپر جتنے زیادہ وسائل consumtion demand کو پورا کرنے کے لیے صرف کیے جائیں گے، اتنے ہی کم وسائلproduction کو پورا کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔ یہاں الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ سرمایہ جب چاہا، جتنا چاہا، جس غرض کے لیے چاہا، مہیا ہوگیا، اور مستقبل کے متعلق فکر بھی نہ کرنی پڑی۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ میں صرف ایک عام فہم مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں ۔انگلستان میں آج بھی رہائشی مکانات کی بہت قلت ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ بنانا نہیں چاہتے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ وسائل کی کمی زیادہ مکانات بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔جتنا زیادہ سرمایہ لوہا سیمنٹ میں صرف کیا جائے گا ،اتنا ہی کم دوسری صنعتوں کے لیے رہ جائے گا۔ اسی لیے معاشی کونسل ہر صنعت کے لیے تمام عوامل کا کوٹا مقرر کردیتی ہے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے اور کوئی کام بند نہ ہو۔
۴۔ کوئی پس ماندہ ملک بغیر consumption expenditure کو کم کیے اور بغیر اپنی قومی آمدنی کا خاصا بڑا حصہ پس انداز کیے ترقی نہیں کرسکتا۔ بیرونی امداد اور بیرونی سرماے کی بڑی سے بڑی رقوم بھی ایسے ملک کے سرماے کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیں ۔اگریہ ممالک consumption expenditure کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ پس انداز کرنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر صنعتی ترقی کے خواب ہی دیکھتے رہیں ۔ان خوابوں کے پورا ہونے میں بہت وقت لگے گا اور بہت قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اس دعوے کا بہترین ثبوت روس اور جاپان پیش کرتے ہیں ۔ گو کہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں بعد المشرقین ہے، لیکن معاشی ترقی کے لیے دونوں نے ایک ہی ذریعہ اختیار کیا۔ دونوں ہماری طرح ہی بدحال تھے،دونوں کو غیر ملکی سرمایہ نہیں ملا اور دونوں سرعت سے صنعتی ترقی کے خواہاں تھے۔ لہٰذا انھوں نے consumption expenditureکو کم کیا اور قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ جبراً پس انداز کیا اور اس سرماے سے اپنی صنعتیں کھڑی کیں ۔

قومی ملکیت(Nationalization)

چوں کہ جماعتِ اسلامی اور آپ ذاتی طور پر قومی ملکیت کے بارے میں ایک خاص طرزِ فکر رکھتے ہیں ،اس لیے بعض شکوک پیش کررہا ہوں ۔ توقع ہے کہ آپ ان کا ازالہ فرمائیں گے۔
موجودہ دور میں ذہن اشتراکیت سے ضرور متاثر ہیں اور محرومین(have not)اور مُنعَمین(haves) کے درمیان طبقاتی کش مکش کا موجود ہونا قومی ملکیت کے نظریے کو اُبھار رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ اور جماعتِ اسلامی اراضیات اور صنعت وغیرہ کو قومیانے(nationalization) کے متعلق اس حتمی نتیجے پر کس طرح پہنچے ہیں کہ اسلام اس کے خلاف ہے؟ آپ بحیثیت داعی یا محقق کے اپنی راے کا اظہار تو کرسکتے ہیں مگر آخری اورقطعی فیصلہ کا حق نہیں رکھتے۔یہ کام تو اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کا ہوگا کہ وہ کتاب وسنت پر بحث کرکے کسی آخری نتیجے پر پہنچے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی ملکیت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟غالباًآپ کی راے یہ ہے کہ اسلامی حکومت انفرادی حقوق ملکیت میں مداخلت کی مجاز نہیں ہے۔حالاں کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسلامی لٹریچر اس متنازعہ مسئلے کو سرے سے چھوتا ہی نہیں ۔
بلاشبہہ یہ صحیح ہے کہ اسلام انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے،مگر اس سے یہ اخذ کرلینا کہ اراضیات ودیگر املاک( صنعتی وکاروباری)کو قومی نہیں قرار دیا جاسکتا،سراسر ناانصافی ہے۔کسی حق کو تسلیم کرنا اور شے ہے اور کسی حق کے حصول کو لازمی قرار دینا اور چیزہے۔ رسول اﷲ ﷺ کا جاگیریں اور پنشنیں دینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اسلامی حکومت پبلک کی ساری زمین کو اپنے چارج میں نہیں لے سکتی۔کسی امر کا بطور واقعہ(defacto) ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ قانونی طورپر(de-jure) بھی وہ واجب ہے۔غالباًآں حضورﷺ سے کوئی حکم ایسا ثابت نہیں کہ ہر شخص کو زمین یا کارخانے کا مالک ہونا چاہیے۔پھر جو چیز لازم نہیں ، اس کا ترک کرنا ناجائز کیسے ہوا؟
خود قرآن میں ہے کہ’’جو کچھ زمین میں ہے وہ تم سب کا ہے‘‘اور حکومت اسلامی انتخابی ہونے کے لحاظ سے بحکم خداوندی ہم سب کی ہے۔اگر ایسی حکومت املاک کو ہم سب کے لیے اپنے تصرف میں کرلے تو امتناع یا تناقض کی بنا کہاں ملتی ہے؟انفرادی ملکیت کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں ایک خاص دور کے حالات کے تحت غلام رکھنے کی اجازت دی گئی تھی، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور غلام رکھے جائیں ۔
میرامدعا یہ ہے کہ تسلیم حق،نفاذ حق کے مترادف نہیں ۔جو حق فرضیت تک نہیں پہنچتا اور اختیاری ہے،اسے جمیع مسلمان اگر چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں ۔میرے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں کون سا طریقہ نظام اراضی میں رائج تھا، بلکہ اصل بحث یہ ہے کہ ازروے قرآن وسنت حکومت اسلامی کثرت راے سے جمیع مسلمانان کی جمیع اراضیات اپنے تصرف میں لاکر بہتر طریق پر پیدا وار حاصل کرکے لوگوں میں بانٹ سکتی ہے۔ باقی رہا انفرادی ملکیت کا حق، تو وہ نہ کبھی پہلے دنیا یکسر ختم کرسکی،نہ آئندہ کرسکے گی۔
اگر افراد کو پورا پورا حق ملکیت دے دیا جائے تو پھر حکومت اپاہج ہوجائے۔ پھروہ غلے کا کنٹرول کرسکتی ہے،نہ لائسنس سسٹم رائج کرسکتی ہے، نہ تجارت پر نگرانی قائم کرسکتی ہے۔
قومی ملکیت کے لیے اکثریت کی مرضی معلوم کرنے کا ذریعہ اگر مجلس شوریٰ کافی نہ ہو تو استصواب عام(refrendum) بھی کیا جاسکتا ہے۔اب اگر پوری قوم کی مرضی یہ فیصلہ دے دے تو اسے خلاف اسلام کیسے کہا جاسکتا ہے؟