سیّد مودودی ؒ کی ضیافت کے مصارف

آپ کے ہمارے شہر میں آنے پر جو ہزاروں روپے ناجائز تصرف کیے گئے، وہ غلط نہیں ؟ آپ کے آنے کی خوشی اگر لازم تھی تو آپ کے ہاتھوں سے اتنی رقم کا اناج غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرادیا جاتا تو بہتر نہ تھا؟

سپاس نامے اور استقبال

ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو ’’فاران‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے،شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلے پر اگر آپ خود اظہار راے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاس نامے خود آپ کی رضا مندی سے پیش ہورہے ہیں تو آپ اس تمدنی،اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بِنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں ؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعوے دار رہا ہوں ، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ آپ اگر سپاس نامے کے اس پورے عمل کو جائزثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آ پ کے اصول کے مطابق احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جائے اور کنویں کی منڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجاے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟
استقبال کے موقع پر پھول برسانے کو میں برا نہیں سمجھتا تھا لیکن اصلاحی صاحب اس کے جواز میں جو ثبوت لائے ہیں ،اس نے مجھے یہ ضد کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ تحفہ، تحفہ ہے اور کسی بڑے آدمی کے استقبال کے موقع پر پھول برسانا اس کی عظمت کا اعتراف اور اس سے اپنی عقیدت کا اظہار ہے اور اس بڑے آدمی کی موجودگی میں ،یہ فعل غالباً پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کی عالی ظرفی اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اسے عام قاعدوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تو وہ بگڑ نہیں جائے گا اور نہ ہی ہمارے پاس کسی کی عالی ظرفی اور اس کے باطن کا حال معلوم کرنے کا کوئی آلہ ہے۔
اگر جواب دیتے وقت جولائی کا فاران پیش نظر رہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں مخالف وموافق دونوں نقطہ ہاے نظر کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں ۔اس کاجواب میں آپ ہی سے چاہتا ہوں ۔ آپ کے کسی معاون سے نہیں ۔ امید ہے آپ اپنی پہلی فرصت میں اس کا جواب دے دیں گے اور اس استفسار کو لغوسمجھ کر ٹالیں گے نہیں !

غیر کا مضمون سید مودودی کو منسوب کرنا

ترجمان القرآن ۱۹۵۶ئ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کرکے ان کے جواب دیے ہیں ۔ اعتراض نمبر۱۲کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ اعتراض نہیں ہے بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارتاً و کنایتاً بھی یہ بات نہیں لکھی…‘‘ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔ اے نے اپنی کتاب’’مودودی مذہب حصہ اوّل‘‘ میں اس عبارت کے لیےترجمان ربیع الثانی ۱۳۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہِ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں ۔

سلف صالحین کے بارے میں طرز عمل

آپ بزرگانِ دین کا احترام بھی نہیں کرتے۔ سلف کے جن حضرات نے بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں ،ان کی کارگزاریوں پر آپ قلم پھیر دینا چاہتے ہیں اور خود کو اُن سے بہتر کام کرنے کا اہل پاتے ہیں ۔

سلف صالحین(صحابہؓ، تابعین، اولیاء اللّٰہ، صوفیہ، علماے اہل السنۃ) کے ساتھ جمہور اہل السنۃ والجماعۃ کے جو کچھ معتقدات ہیں ،ان سب کو آپ تسلیم کرتے ہیں یا کہیں کچھ جمہور کے ساتھ اختلاف ہے؟اگر اختلاف ہے تو ان خلافیات کو بیان فرمایا جائے۔

کیا آپ جمہور علماے سلف کی تحقیقات واجتہادات پر اپنی تحقیقات کو ترجیح دیتے ہیں یا اس کے برعکس اپنے استنباطات کو ان کے اجتہادات کے مقابلے میں مرجوح قرار دیتے ہیں ؟‘‘

ایک اشتہار کا تجزیہ

ہمیں ایک اشتہار وصول ہوا ہے جسے ہندستان سے لا کر پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں :
حضرت مولانا مدنی کا بصیرت افروز بیان
مولانا مولوی عبدالحمید بلند شہری مدرس مدرسۂ اشر ف العلوم گنگوہ ضلع سہارن پور کے ایک خط کا وہ اقتباس ہے جو انھوں نے حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی عمّت فیوضہم کو لکھا ہے۔ ذیل میں صرف وہ حصہ ہے جس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنا نام جماعتِ اسلامی رکھا ہے۔
’’یہ خیال اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب سے مودودیت جو کہ گنگوہ میں صورت فتنہ اختیار کیے ہوئے ہے،کچھ تبادلۂ خیالات اور کچھ ان کے اخبارات کا مطالعہ تردیداً کیا گیا۔ یہ لوگ صحابہؓ تک کو متجاوز کہہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت علی،ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا وعنہم کو احیاے تبلیغ دین میں متجاوز عن الاعتدال کے الفاظ اختیار کیے ہیں ۔ نیز خود مسلک اعتدال میں فرماتے ہیں کہ میں نے اشخاص ماضی وحال بلاواسطہ دین کو کتاب السنۃ، کتاب اﷲ سے سمجھا ہے۔نیز حضرت حاجی علیہ الرحمۃ و مجدد الف ثانی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں :ان حضرات نے ابتداے زندگی میں تو اچھا کام کیا مگر اخیر عمر میں ایسی مسموم غذا مسلمانوں کو دے گئے ہیں کہ آج تک مسلمان اس کے زہر سے محفوظ نہیں ہے۔ اور یہی تنقیدات تصوّف پر بہت کی ہیں ۔
بعض اہل گنگوہ نے دیگر بعض کو حضرت بو سعید علیہ الرحمۃ کے مزار پر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ ایک سنیاسی ہے جو پتھروں میں پڑاہے۔ اور یہ مشہور مقولہ ہے مودودیوں کا کہ دیو بند، مظاہر العلوم میں قربانی کے مینڈھے تیار کیے جاتے ہیں ۔علما پر زبردست ریمارک، خاص کر ماضی وحال کے بزرگوں پر غرض بالتفصیل پھر عرض کروں گا۔اس وقت یہ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ آیا ہم کھل کر ان لوگوں کو جواب دیں ۔کیوں کہ خاص کر گنگوہ سے مجھ کو واسطہ ہے۔ وہاں پر میں اشرف العلوم میں خدمت کرتا ہوں اور شب وروز یہ منکرات سامنے آتے رہتے ہیں تو لامحالہ کہنا پڑتا ہے۔ جواب شافی سے نوازیں ۔‘‘ ({ FR 985 })
عبدالحمید بلند شہری
انبیا علیہم الصلاۃ و السلام کے علاوہ خواہ صحابہ کرام ہوں یا اولیاے عظام یا ائمۂ حدیث وفقہ وکلام کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔سب سے غلطیاں توہوسکتی ہیں ، مگر ان کے متعلق اعتمادیت کی شہادتیں قرآن وحدیث میں بکثرت موجود ہیں اور ان کے اعمال نامے اور اتقا وعلم کی تاریخی روایات معتبرہ اس قدر اُمت کے پاس ہیں کہ قرون حالیہ کے پاس ان کا عشر عشیربھی نہیں ہے۔ ان پر تنقید ان ہی جیسے پایۂ علم واتقا والا کرسکتا ہے۔ہمارے زمانے کے ٹٹ پونجیے، جن کے پاس علم ہے نہ تقویٰ،کیا منہ رکھتے ہیں کہ زبان دراز کریں سواے اپنی بدبختی کے اظہارکے اور کیا حیثیت رکھتے ہیں : ع
چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنۂ پاکاں زند({ FR 986 })
اﷲ تعالیٰ ان کی تعریف فرماتے ہوئے فرماتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ… (الفتح:۲۹)
’’محمد اللّٰہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ … (الحجرات:۷ )
’’مگر اللّٰہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘
تیسری جگہ ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ … ( آل عمران:۱۱۰)
’’اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘
چوتھی جگہ ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا… (البقرہ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امتِ وسط‘‘ بنایا ہے۔‘‘
اور یہ کم بخت ان کی شان میں ہذیان بکتے ہیں ۔جناب رسول اﷲ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : اتَّقُوا اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا({ FR 1040 }) ’’خدا سے ڈرو میرے اصحاب کے متعلق، میرے بعد ان کو نشانۂ ملامت مت بنائو۔‘‘ آپؐ فرماتے ہیں کہ: خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ({ FR 1041 }) اور یہ بدبخت ان کی شان میں بدگوئیاں کرتے ہیں ۔سواے بدنصیبی کے اور کیا ہے۔ ان خبیثوں سے گفتگو اور مناظرہ وغیرہ کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔اﷲ تعالیٰ ان کی اور ہماری ہدایت فرمائے۔آمین! دارالعلوم اور مظاہر العلوم یا ان کے بنیاد رکھنے والوں اور طلباء اور مدرسین کے متعلق ہر گمراہ اور مخالف اہل اسلام اور مخالف اہل سنت ایسے ہی الفاظ کہتا ہے۔‘‘ ({ FR 988 })
ننگ اسلاف حسین احمد غفرلہ‘ دارالعلوم دیو بند،۱۳ ذی الحجہ۱۳۶۹ھ
المشتہر: مولوی سیّد شفیق الرحمٰن،محلہ عالی کلاں سہارن پور(مطبوعہ جدت برقی پریس،مراد آباد)

مولانا حسین احمد صاحب کا ایک فتو ٰی اور اس کا جائزہ

جناب مولانا حسین احمد صاحب مدنی نے ایک پمفلٹ’’مسلمان اگر چہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘شائع کرایا ہے، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہل سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیات صریحہ کے بالکل منافی ہے۔ اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزو ایمان ہونے کے قائل ہیں ، جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کو شافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔حالاں کہ شافعیہ ومحدثین اعمال کو ایمان کا جزوِ مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں ۔ازراہِ کرم اس مسئلے کے متعلق اپنا عقیدہ بالوضاحت تحریر فرما ویں ،اور ترجمان القرآن میں شائع فرما ویں ۔انھوں نے آپ کی مندرجہ ذیل عبارات کو بطور دلیل پیش کیا ہے:
(۱) ’’رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے،دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں ،یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے،اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا،تو وہ قطعاًمسلمان نہیں ہیں ۔جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔‘‘({ FR 1092 })
(۲) ’’اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں ۔ کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ({ FR 1093 })
(۳) ’’ان دو ارکان اسلام یعنی(نماز وزکاۃ) سے جو لوگ رو گردانی کریں ،اُن کا دعواے ایمان ہی جھوٹا ہے۔‘‘({ FR 1094 })
(۴) ’’قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکاۃکا پابند نہ ہو۔‘‘ ({ FR 1095 })
یہ سب حوالہ جات خطبات بار ہفتم کے مطابق ہیں ۔

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب کی تصدیق کی ضرورت

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب جس میں آپ پر اعتراضات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے، ابھی ابھی شائع ہوئی ہے اور میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ماشاء اللّٰہ کتاب ہر لحاظ سے مدلل ہے۔ جن لوگوں کو واقعتا کچھ غلط فہمی ہوگی وہ تو دور ہو جائے گی، لیکن جو ضدی اور عنادی ہیں ان کا علاج مشکل ہے۔ میں نے کئی دوستوں کو مطالعے کے لیے دی چنانچہ وہ مطمئن ہوگئے لیکن ایک مولانا صاحب نے کتاب پڑھنے کے بعد کہا کہ مجھے تسلی ہوگئی ہے لیکن ایک اشکال ہے، وہ یہ کہ مفتی صاحب نے جو توجیہات کی ہیں خود مولانا مودودی نے ان کا انکار کیا ہے اور اسی واسطے اس کتاب کی تقریظ اور تصدیق انھوں نے نہیں کی۔ میں نے کہا اگر ان کو اختلاف تھا تو ان کی کتابوں کے ناشر نے اسے کیوں شائع کیا اور اس پر کیوں دیباچہ لکھا؟ مزید برآں ترجمان القرآن، ایشیا، آئین میں اس کتاب کا اشتہار کیوں دیا گیا ہے؟ لیکن وہ صاحب مُصر ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اختلاف کے باوجود ہے اور جماعت کے بعض آدمیوں کی مرضی سے ہوا ہے، خود مولانا مودودی صاحب ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ان مولوی صاحب کا اصرار ہے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو خود خط کے ذریعے معلوم کرکے دیکھ لو۔ چنانچہ اسی خاطر یہ منتشر سطور تحریر کرکے ارسالِ خدمت ہیں کہ آپ اپنے قلم سے اس قسم کے لوگوں کی تسلی کی خاطر چند سطور لکھ دیں ۔

غلاف کعبہ کی نمائش اور اس کا جلوس

حال ہی میں بیت اﷲ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر وسعادت ہے۔مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے،اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈکے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں ۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں ۔طرح طرح کے اعتراضات چوں کہ بار باراٹھائے جارہے ہیں اس لیے بہتر اور مناسب ہے کہ آپ ان کا جواب دیں ۔