دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟دارالکفراور دارالاسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں ؟ مجھے اس مسئلے میں تردّد مولانا حسین احمد صاحب مدنی ؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے؟
’’اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب ({ FR 2280 }) کے نزدیک بے شبہہ دارالاسلام ہوگا اور ازروے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں ۔ ‘‘ ({ FR 2281 })
آپ اس مسئلے میں میری راہ نمائی فرمائیں ۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

مولانا حسین احمد صاحب مدنی مرحوم کی تصنیف’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط وکتابت ہوئی تھی۔اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور انھوں نے وعدہ فرمالیا تھا کہ وہ آئندہ اڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرمادیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے:
’’یہ اعتراض کہ حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کانکالنے والا میں قرار دیتا ہوں ،بالکل خلاف واقعہ اور تصریحات سے روگردانی ہے۔بہرحال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ، اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے،دوسری توجیہ اس میں نہیں ہوسکتی، تو وہ غلط ہے۔ ہندستان کی حکومت کے شرم ناک کارناموں سے مجھے انکار نہیں ،پھر میں کس طرح اس کو دارالاسلام قرار دے سکتا ہوں ؟لیکن فرقہ وارانہ حکومت اور سیکولر اسٹیٹ کے درمیان بھی تو ایسی صورتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرسکتاہے۔مغلیہ حکومت کو دیکھیے اور غور فرمایے۔‘‘
مولانا مرحوم کے جواب سے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ حضرت مولانا دارالکفر کو دارالاسلام نہیں سمجھتے، مگر اس کا افسوس بھی ہوا کہ میں ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں پاتا۔ میں اس سلسلے میں ابھی مزید خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔

بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں ۔چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں ۔ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراًخط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ’’ترجمان القرآن‘‘کا موصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسالہ وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباًسارا رسالہ ختم کردیتا ہوں ۔اس دفعہ’’رسائل ومسائل‘‘({ FR 2283 }) میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں ۔
میں حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شاگرد اور مستر شد ہوں ۔اس عام تعلق کے علاوہ بعض وجوہات کی بِنا پر حضرتؒ سے خصوصی ربط وتعلق بھی ہے۔ اور موجودہ دور کے تمام علما ومشائخ میں سب سے بڑھ کر مجھے عقیدت حضرت کے ساتھ ہے اور میں نے جو کمالات اور علمی وعملی فضائل کا ادراک ان کو دیکھ کر اور آزما کر کیا ہے،اب تک او رکہیں سے نہیں ہوا۔ لیکن اس قدر شدید تعلق اور عقیدت واحترام کا جذبہ رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بارے میں حضرت شیخ کی جو راے تھی،چوں کہ میرا ایمانی ضمیر اس پر مطمئن نہیں تھا اس لیے میں نے حضرت کی راے قبول نہیں کی۔ اگرچہ اس سے ان کی عقیدت میں بھی کوئی فرق اپنے اندر نہ آنے دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شرعاً میرے لیے ضروری نہ تھا کہ اگرچہ مجھے شرح صدر نہ بھی ہوا ہو اور بات بالکل سمجھ میں نہ آتی ہو لیکن پھر بھی ضرور حضرت کی یہ راے میں مان لوں اور جماعت اسلامی یا اس کے بارے میں وہ راے رکھوں جو خود حضرت رکھتے تھے۔چوں کہ جماعت اسلامی کے بارے میں میرا رویہ اپنی پوری جماعت مسلک دیو بند کے خلاف رہا، اس لیے بعض لوگوں نے اس کو اپنے اساتذہ سے بغاوت سمجھا اور اسی جرم میں آج تک میں بعض کے ہاں مغضوب ومعتوب ہوں ، اور بعض کے ہاں ملوم و مخزول۔ کوئی احسان جتانا مقصود نہیں ، محض اظہار واقعہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ محض اس ’’جرم‘‘ پر مجھے کافی دنیوی اور مادّی خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا اور بہت سے فوائد ومنافع کے تمتع سے محروم رہا ہوں ۔ اور مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں ، کیوں کہ میں نے جو روش اب تک اختیار کی ہے، خالص اﷲ تعالیٰ کی خاطر کی ہے اور میں اس کو ایمانی تقاضا سمجھتا ہوں ۔
بہرحال یہ تو ایک تمہید تھی۔ مقصد یہ ہے کہ میں جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ،یہ کسی گروہی عصبیت کی بِنا پر نہیں بلکہ میں خود دینی تقاضا اور خیر خواہی سمجھ کر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں ۔کچھ عرصہ قبل بھی ترجمان القرآن میں حضرت مدنی کی کتاب’’نقش حیات‘‘ کی ایک عبارت کے بارے میں آپ سے کسی نے سوال کیا تھا اور آپ نے اس کے جواب میں جو لکھا تھا،اس میں کافی تلخی اور تیزی وتندی پائی جاتی تھی۔ اوّل تو اس سوال کا جواب آپ کو دینا نہیں چاہیے تھا۔ سائل سے آپ یہ کہہ سکتے تھے، جیسا کہ ابتدائی جواب میں لکھا بھی گیا تھا کہ عبارت کا مطلب خود مولانا سے پو چھیے۔ان کی عبارت ہے وہ خود اس کی تشریح کردیں ۔ لیکن آپ نے اپنی طرف سے خوا ہ مخواہ بلا ضرورت سخت کلمات لکھ دیے۔ میں نے وہ جواب پڑھا تو مجھے بھی مناسب معلوم نہ ہوا، مگر مجھے آپ سے بھی تعلق وعقیدت ہے اس لیے اس کی توجیہ وتأویل کی اور اپنے تأثر کو دبا دیا۔لیکن انھی ایام میں مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہل علم جو جماعت کے ساتھ غیر رسمی طور سے وابستہ تھے اور بہت کام بھی کیا کرتے تھے ،اس طرز جواب پر سخت ناراض ہوگئے۔ان کی راے آپ کے بارے میں بدلنے لگی اور انھوں نے جماعت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مجھ سے بھی انھوں نے گفتگو کی، بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں آپ سے اس سلسلے میں خط وکتابت کروں کہ آپ یہ بالکل بلا ضرورت اس قدر دل آزاری کے کلمات کیوں شائع فرماتے ہیں ۔ مگر میں نے اس وقت سکوت اختیا رکیا۔ تازہ پرچے میں پھر اسی بات کو ذرا اس سے بھی زیادہ تیزالفاظ میں دہرایا ہے۔ حضرت مدنی ؒ کی وفات کے بعد پھر ایسی باتیں تازہ کرنا اور اس انداز کے ساتھ لکھنا تو اور بھی نامناسب ہے۔عام طور سے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں ، اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ میرے بارے میں اور جماعت کے بارے میں ایسا ہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن آپ کو ایسے امور میں دوسروں کی تقلید تو نہیں کرنی چاہیے۔ میں واقعے میں سمجھتا ہوں کہ ایک داعی حق ہونے کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلندہے اور یہ انداز ِتحریر آپ کی شان سے بہت ہی فرو تر ہے۔ اگر اس تحریر پر آپ کا نام نہ ہوتا تو میں تو اپنے ذوق کے مطابق یہ کبھی یقین نہ کرتا کہ آپ اس سطح پرآسکتے ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی نے یہ سوال آپ کے پاس بھیجا تو آپ کو اس کا جواب دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔اگر مستفسر کو یہ افسوس ہے کہ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں تو اپنے اس افسوس کے ازالے کے لیے آخر وہ آپ سے کیوں خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔یا تو وہ حضرت کی حیات میں ان سے خط وکتابت کرتے، یا ان کی وفات کے بعد ان کے کسی جانشین، تلمیذ خاص یا کسی اور متعلق سے پوچھ لیتے۔مولانا مرحوم کے ساتھ تو آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان کی متعارض عبارات کی تطبیق کی ذمہ داری آپ پر پڑتی ہے اور آپ خواہ مخواہ جواب دہ ہیں ۔ میں تو آپ پر اس کی کوئی بدگمانی نہیں کرتا، لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس راے کا اظہار کیا کہ یہ مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقے سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کردیا جائے۔
مولانا مرحوم کی عبارت سے جو نتائج آپ نے اخذ کیے ہیں اور پھر ان پر تنقید کی ہے، میرے خیال میں آپ نے اس میں بھی اپنے بلند مقام سے اتر کر گفتگو کی ہے۔ عام علما اگر آپ کی عبارات کے ساتھ یہی طریقہ برتتے ہیں تو جائز طور پر وجہ شکایت ہوتی ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔
اس لیے میں آپ سے بھی شکایت کو جائزاور احتجاج کو تقاضاے انصاف سمجھتا ہوں ۔یہ جواب شائع کرکے واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دینی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔اقامت دین کی منزل قریب لانے میں بھی اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ اس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشخاص کی دل آزاری ہوئی جو آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی جدوجہد کو ایک دینی جدوجہد سمجھ کر نظریہ یا عمل کے اعتبار سے آپ کے شریک کار ہیں ۔ خواہ آپ اسے اندھی عقیدت وتقلید کہیں یا کچھ اور، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مدنی ؒ کی محبت و عقیدت تمام علما اور دین دار طبقے کے سویداے قلب میں جاگزین ہے۔ان کی کسی راے یا فتویٰ کو ممکن ہے بعض حضرات کسی وجہ سے قبول نہ کریں ، لیکن ان کی شان میں اگر ایسے کلمات کہے یا لکھے جائیں جن سے تنقیص وتوہین ہوتی ہو تو ان کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہے۔پس ان کی وفات کے بعد جن باتوں کو چھیڑنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں اور ان کو چھیڑنے اور شائع کرنے سے دین کا ذرّہ برابر فائدہ نہ ہورہا ہو تو خواہ مخواہ کے لیے ایک نیا میدان جنگ کیوں گرم کردیا جائے۔
موجودہ نازک حالات میں آنے والے انتخابات کی اہمیت کو محسوس فرما کر آپ نے بھی الاہم فالاہم کے اصول پر اور حکمت عملی سے کام لے کر دوسرے بہت سے امور میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا، تو کیا یہ حکمت عملی میں شامل نہیں ہوسکتا کہ ان ایام میں علماے کرام کو بالکل نہ چھیڑا جائے، خواہ ان میں سے بعض تجاوز بھی کرجائیں لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ حضرات کا تمام چھوٹے بڑے الزامات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنا اورمَرُّوا کِرامًاپر عامل بن جانا، دین کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور اسی میں جماعت کا وقار بھی ہے۔ بات بہت طویل ہوگئی،مقصد آپ مختصر اشارے سے بھی سمجھ سکتے تھے۔آپ ضرور اس بات پر غور فرما کر اس کا تدارک کریں اور اس کے مضر اثرات کو کسی احسن طریقے سے زائل کرنے کی کوشش کریں ۔آپ کے بارے میں جو کچھ علما اعتراضات کررہے ہیں ،ہم کو تو شب وروز ان کی جواب دہی کرنی پڑتی ہے۔ میں تو رسمی طور سے متعلق نہ ہونے کے باوجود لوگوں کے خیال میں ’’پکا مودودی‘‘ ہوں ۔ میں ان اعتراضات کی مدافعت کرتا رہا ہوں ۔ لیکن اس تازہ تحریر پر کوئی اعتراض کرے تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ، او رپھر آپ کے بارے میں کچھ کہا جائے،اس کی برداشت بھی مشکل سے ہوتی ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں ،اس کا اثر تحریک پر اور اس واسطے سے اقامت دین کے فریضے پر پڑ جاتا ہے۔ آپ کا بہت ساقیمتی وقت اس پریشان گوئی میں خرچ کردیا۔ مگر خدا کرے اس کا نتیجہ کوئی اچھا نکلے۔

اسرائیلی ریاست کے حق میں ایک عجیب استدلال

’’سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۰۴ کے متعلق صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبد الماجد دریا بادی نے ’’سچی باتیں ‘‘ کے زیر عنوان یہ تشریح کی ہے کہ اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد یَومُ الٰاخِرَۃِ نہیں ہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اورجِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے۔ یعنی اسرائیلیوں کو بعدِ واقعۂ فرعون ہی خبر دے دی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیار کیے ہوئے، سب کو ایک جگہ جمع کر دیں گے۔ اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جوارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہر ملک سے ہو رہا ہے کیا یہ ایسی غیبی پیش خبری کا ظہور نہیں ؟‘‘ یہ نتیجہ جو مولانا نے اس آیت سے نکالا ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔ کیونکہ اس کو مان لینے کے بعد تو فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا قیام عین منشاے خداوندی سمجھا جائے گا۔

امریکا کی اسرائیل کی غیر اخلاقی حمایت

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے اپنے دورۂ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیر قانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر قانونی حیثیت دی ہے۔ مزید برآں بیگن کی حکومت تین اور نئی بستیاں مغربی کنارے پر بسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردّعمل کیا ہے؟

مسجدِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی

مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل اب تک کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس سلسلے میں رابطۂ عالمِ اسلامی کا بیان آپ نے دیکھا ہوگا۔ اس بارے میں آپ بھی اظہارِ خیال فرمائیں ۔

خروج کرنے والوں کا مساجد میں پناہ لینا

اگر خروج کرنے والے مساجد یا دوسرے مقدس مقامات(حرم اور کعبہ) میں پناہ گزیں ہوں تو ایسی صورت میں اسلامی ریاست کا ایسے لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟

خروج کے مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک

’’مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک‘‘({ FR 2251 })کی جو کچھ تشریح آپ نے ترجمان القرآن میں پیش کی ہے اس ضمن میں بعض واقعات جو بعض کتابوں کے حوالہ سے نقل کئے گئے ہیں افسوس ہے کہ ان کے ساتھ اتفاق کرنا مشکل ہے۔ بعض واقعات جس انداز سے پیش کئے گئے ہیں اس سے تو امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے بارے میں قارئین ترجمان القرآن بہت بڑی غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں ۔ بلکہ امام کے مسلک میں انھیں کھلا ہوا تضاد معلوم ہوسکتا ہے اگر انھوں نے مسلک امام کے متعلق کچھ فقہی معلومات حاصل کی ہوں ۔ سردست میں ایک واقعہ کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں جو متعلقہ مسئلہ کی قسط دوم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کا حوالہ ابن الاثیر اور کردری کے علاوہ المبسوط ج۱۰،ص ۱۲۹پر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اہل موصل کی بغادت سے متعلق ہے۔ اس کو آپ نے ایسے انداز سے پیش کیا ہے جس سے ایک قاری بجز اس کے کہ اس کو مسلمان رعایا کی بغاوت سے متعلق سمجھے، دوسراکوئی مطلب نہیں لے سکتا حالانکہ یہ واقعہ مبسوط کی تصریح کے مطابق مشرکین کی بغاوت سے متعلق ہے جو موصل کے رہنے والے تھے اور جن کے ساتھ ’’دوانیقی‘‘({ FR 2252 }) نے صلح کی تھی۔ اس واقعہ میں آپ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ منصور نے اہل موصل سے حالیہ بغاوت کرنے سے پہلے جو عہد لیا تھا وہ ان کے خون اور مال سے متعلق تھا کہ ’’آئندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔‘‘ اور اسی معاملہ کے متعلق منصور نے فقہا کی ایک جماعت سے جس میں امام ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے یہ پوچھا کہ ’’معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہوگئے ہیں یا نہیں ؟‘‘ اور اسی کے متعلق امام نے کہا تھا کہ ’’اہل موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ مبسوط کی عبارات سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ باغیوں کے خون اور مال کی حلت و حرمت سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان قیدیوں کے قتل سے متعلق تھا جو مشرک تھے اور باغیوں نے انھیں بطور ’’رہن‘‘ مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا تھا({ FR 2253 })اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے اور چونکہ معاہدے میں جانبین نے یہ شرط مقرر کر رکھی تھی کہ اگر ایک فریق نے دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل کر دیا تو دوسرا فریق بھی اس کے قیدیوں کو قتل کرسکے گا اور اہل موصل نے ان مسلمان قیدیوں کو پہلے قتل کر ڈالا تھا جو ان کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے، اس لیے علما سے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم ان مشرک قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو باغیوں کی طرف سے ہمارے ہاتھوں میں ہیں ۔ تو ان قیدیوں کے قتل کے متعلق امام اعظم نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ’’یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ نہ کہ امام اعظم نے مسلمان رعایا کی بغاوت کے متعلق خود باغیوں کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ خود باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ یہ فتویٰ دے کیسے سکتے تھے کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔‘‘ جب کہ امام سرخسی نے اسی باب کی ابتدا میں باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ کا مذہب یہ نقل کیا ہے کہ ’’باغی لوگ جب ایسے امام سے بغاوت کریں جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان قائم ہوگیا ہو(خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو) تو ان کا قتل واجب ہے۔‘‘
فَإِنْ کَانَ الْمُسْلِمُونَ مُجْتَمِعِیْنَ عَلَی وَاحِدٍ وَ کَانُوا آمِنِینَ بِہِ وَالسَّبِیلُ آمِنَۃً فَخَرَجَ عَلَیہِ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَحِینَئِذٍ یَجِبُ عَلَی مَنْ یَقْوَی عَلَی الْقِتَالِ أَنْ یُقَاتِلَ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ الْخَارِجِینَ۔({ FR 2254 })
’’اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں ، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو، پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے تو جو شخص لڑسکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔‘‘
امام سرخسیؒ نے اس حکم کے لیے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں ایک یہ آیت کریمہ بھی ہے:
فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ۝۰ ( الحجرات :۹)
’’پس اگر ان دونوں (گروہوں ) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب۔‘‘
قرآن کے اس صریح حکم کے مقابلے میں امام اعظمؒ آخر کیسے یہ کہنے کی جرأت کرسکتے تھے کہ ’’باغیوں کا قتل جائز نہیں ہے۔‘‘ اس بارے میں امام سرخسیؒ نے مبسوط میں جو تفصیل پیش کی ہے میں اسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ خود اس مقام پر دوبارہ نظر ڈال کر ترجمان القرآن کے ذریعہ اس خط کے جواب میں اپنے مضمون کی اصلاح فرمائیں گے اور خط بھی فائدہ عام کے لیے شائع کریں گے۔

ماہنامہ ترجمان القرآن نومبر۱۹۶۳ء کے پرچے میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا جو مسئلہ خلافت کے مطالعے سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں ۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئینِ ترجمان کے معلومات میں اضافے کا موجب بنے۔
’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ امام اعظم ؒ نہ تو خوارج ومعتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پاسکے اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کر رہ جائے، اور نہ وہ مرجیہ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہاپسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں ، وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے۔ لیکن یہ امامت بجاے خود ناجائز اور باطل ہوگی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد وبدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہوجانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے۔‘‘ اور ’’امام اعظمؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے‘‘ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبے سے بھی مسلّط ہو جائے جس کو فقہا کی اصطلاح میں ’’ متغلب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم وفاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، مگر امام ابوحنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ میں معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج وبغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ میری اس راے کی تائید فقہاے مذہبِ حنفی کے درج ذیل اقوال سے ہوسکتی ہے:
(وَالْإِمَامُ يَصِيرُ إمَامًا) بِأَمْرَيْنِ (بِالْمُبَايَعَةِ مِنْ الْأَشْرَافِ وَالْأَعْيَانِ،[ …] وَكَذَا بِاسْتِخْلَافِ إمَامٍ قَبْلَهُ وَكَذَا بِالتَّغَلُّبِ وَالْقَهْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمَقَاصِدِ. قَالَ فِي الْمُسَايَرَةِ: وَيَثْبُتُ عَقْدُ الْإِمَامَةِ إمَّا بِاسْتِخْلَافِ الْخَلِيفَةِ إيَّاهُ كَمَا فَعَلَ أَبُو بَكْرٍ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، وَإِمَّا بِبَيْعَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَوْ مِنْ أَهْلِ الرَّأْي وَالتَّدْبِيرِ. وَعِنْدَ الْأَشْعَرِيِّ يَكْفِي الْوَاحِدُ مِنْ الْعُلَمَاءِ الْمَشْهُورِينَ مِنْ أُولِي الرَّأْيِ بِشَرْطِ كَوْنِهِ بِمَشْهَدِ شُهُودٍ لِدَفْعِ الْإِنْكَارِ إنْ وَقَعَ. وَشَرَطَ الْمُعْتَزِلَةُ خَمْسَةً. وَذَكَرَ بَعْضُ الْحَنَفِيَّةِ اشْتِرَاطَ جَمَاعَةٍ دُونَ عَدَدٍ مَخْصُوصٍ ثُمَّ قَالَ: لَوْ تَعَذَّرَ وُجُودُ الْعِلْمِ وَالْعَدَالَةِ فِيمَنْ تَصَدَّى لِلْإِمَامَةِ وَكَانَ فِي صَرْفِهِ عَنْهَا إثَارَةُ فِتْنَةٍ لَا تُطَاقُ حَكَمْنَا بِانْعِقَادِ إمَامَتِهِ كَيْ لَا تَكُونَ كَمَنْ يَبْنِي قَصْرًا وَيَهْدِمُ مِصْرًا، وَإِذَا تَغَلَّبَ آخَرُ عَلَى الْمُتَغَلِّبِ وَقَعَدَ مَكَانَهُ انْعَزَلَ الْأَوَّلُ وَصَارَ الثَّانِي إمَامًا وَتَجِبُ طَاعَةُ الْإِمَامِ عَادِلًا كَانَ أَوْ جَائِرًا إذَا لَمْ يُخَالِفْ الشَّرْعَ، فَقَدْ عُلِمَ أَنَّهُ يَصِيرُ إمَامًا بِثَلَاثَةِ أُمُورٍ، لَكِنَّ الثَّالِثَ فِي الْإِمَامِ الْمُتَغَلِّبِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ فِي شُرُوطِ الْإِمَامَةِ({ FR 2256 })
بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت امامت کے لیے نہیں بلکہ اولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔ وَعِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لَيْسَتْ الْعَدَالَةُ شَرْطًا لِلصِّحَّةِ فَيَصِحُّ تَقْلِيدُ الْفَاسِقِ الْإِمَامَةَ مَعَ الْكَرَاهَة۔۔۔ ({ FR 2257 }) اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔ وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ ایسے فاسق کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے: وَيَجِبُ أَنْ يُدْعَى لَهُ؛ وَلَا يَجِبُ الْخُرُوجُ عَلَيْهِ؛ كَذَا عَنْ أَبِي حَنِيفَة۔ یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسائرہ میں ذکر کی ہیں ۔ جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقے سے انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں ۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجبِ فتنہ نہ ہوں ۔ اور چونکہ فی زماننا ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہوجاتا ہے اس لیے بعض احناف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَيْهِمْ وَقِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ كَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِين({ FR 2258 }) اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہوگا۔
مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں ۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں ۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو جماعت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں ۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہاے حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں :
امام سرخسیؒ لکھتے ہیں : ’’فَإِنْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ مُجْتَمَعِينَ عَلَى وَاحِدٍ، وَكَانُوا آمِنِينَ بِهِ، وَالسَّبِيلُ آمِنَةً فَخَرَجَ عَلَيْهِ طَائِفَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَحِينَئِذٍ يَجِبُ عَلَى مَنْ يَقْوَى عَلَى الْقِتَالِ أَنْ يُقَاتِلَ مَعَ إمَامِ الْمُسْلِمِينَ الْخَارِجِينَ۔({ FR 2259 }) وجوب قتال کے لیے امام سرخسیؒنے تین دلائل بیان کیے ہیں ، جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے: فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ ({ FR 2260 }) ( الحجرات:۹) ۔ دوسری دلیل امام موصوف نے وجوبِ قتال کے لیے یہ بیان کی ہے: وَلِأَنَّ الْخَارِجِينَ قَصَدُوا أَذَى الْمُسْلِمِينَ وَإِمَاطَةَ الْأَذَى مِنْ أَبْوَابِ الدِّينِ، وَخُرُوجُهُمْ مَعْصِيَةٌ، فَفِي الْقِيَامِ بِقِتَالِهِمْ نَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ وَهُوَ فَرْضٌ۔({ FR 2261 }) اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے: قال وَلِأَنَّهُمْ يُهَيِّجُونَ الْفِتْنَة قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَا‘‘ فَمَنْ كَانَ مَلْعُونًا عَلَى لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْه يُقَاتَلُ مَعَهُ({ FR 2262 })
ان تمام عبارات سے یہ توواضح ہوگیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطۂ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہوں ۔ اس کی طرف حضورﷺ کے درجِ ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ…({ FR 2263 })
پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے مذہبِ حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں :
وَأَمَّا، بَيَانُ مَنْ يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْهُمْ ، وَمَنْ لَا يَجُوزُ فَكُلُّ مَنْ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِنْ الصِّبْيَانِ وَالنِّسْوَانِ وَالْأَشْيَاخِ وَالْعُمْيَانِ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ ؛ لِأَنَّ قَتْلَهُمْ لِدَفْعِ شَرِّ قِتَالِهِمْ فَيَخْتَصُّ بِأَهْلِ الْقِتَالِ وَهَؤُلَاءِ لَيْسُوا مِنْ أَهْلِ الْقِتَالِ ، فَلَا يُقْتَلُونَ إلَّا إذَا قَاتَلُوا ، فَيُبَاحُ قَتْلُهُمْ فِي حَالِ الْقِتَالِ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِتَالِ ۔ ({ FR 2264 })
فقہا کی ان تصریحات کے پیشِ نظر باغیوں کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اور قتل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں ۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کر دیا جائے گا۔
البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انھیں واپس کیا جائے گا وَكَذَلِكَ مَا أُصِيبَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ يُرَدُّ إلَيْهِمْ ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُتَمَلَّكْ ذَلِكَ الْمَالُ عَلَيْهِمْ لِبَقَاءِ الْعِصْمَةِ وَالْإِحْرَازِ فِيهِ({ FR 2265 }) فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں ، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کرسکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کرچکے تھے کہ اگر ہم نے آئندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہوگا یا نہیں ، اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابو حنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اور مال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں ؟
پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سرخسیؒ کے بیان کو صرف اس بنا پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہلِ تاریخ سے مختلف ہے حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملے میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امامِ فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں ۔ تاریخ کے واقعات مرتب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہوسکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امامِ مذہب کی فقہی مرویات مرتب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں ۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سرخسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابنِ ہمامؒ نے (فتح القدیر، ج۵، ص۳۴۱) میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلے میں ابن اثیر یا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔