گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ ابو بکر جصاص، الموفق المکی اور ابن البزاز الکَرْدَرِی کا شمار یقیناً فقہا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احکام القرآن اور دوسری وہ کتابیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، بھی معروف کتابیں ہیں ۔ لیکن باایں ہمہ رتبے اور درجے کے لحاظ سے ان حضرات کا مقام امام سرخسیؒ کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ اسی طرح امام سرخسیؒ کی کتاب المبسوط کا درجہ اور مرتبہ احکام القرآن وغیرہ کتبِ مذکورہ سے محققینِ احنافؒ کے نزدیک بہت بلند اور مقام بہت اونچا ہے۔ اس لیے فقہیات میں امام اعظمؒ کے مسلک کو متعین کرنے میں المبسوط سرخسیؒ ہی کا فیصلہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہوگا نہ کہ احکام القرآن وغیرہ کتب کا۔ علامہ ابنِ عابدین شامیؒ نے محقق ابنِ کمال سے طبقات الفقہا کی تفصیل نقل کرتے ہوئے امام سرخسی کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے اور ابوبکر جصاص رازی کو چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جو محض مقلدین کا طبقہ ہے۔
ان تصریحات کے پیشِ نظر خروج کے مسئلے میں امام اعظم کا مذہب وہ قرار دیا جائے گا جو مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو احکام القرآن یا دوسری تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔
رہا حضرت زیدؒ بن علی بن الحسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام ابو حنیفہؒ کا طرز عمل، تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے میں اس کو سو فی صد صحیح اور درست سمجھتا ہوں ۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ان دونوں کے خروج میں ان کی حمایت کی تھی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مسئلے کی فقہی نوعیت تاریخی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں حتیٰ کہ کتب ظاہر الروایۃ میں خروج کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام عادل تو درکنار ظالم اور متغلب سے بھی خروج ناجائز اور بغاوت حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دو متضاد بیانات کے مابین یا تطبیق سے کام لینا پڑے گا یا ترجیح سے۔ جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے، ہم فقہاء کے مسلّمہ اصول کے پیشِ نظر فقہاے مذہبِ حنفی کے بیان کو مؤرخین کے بیان پر اس لیے ترجیح دیں گے کہ مذہب کی تعیین میں ناقلینِ مذہب کا قول زیادہ قابلِ اعتماد ہے اور مؤرخین میں سے جو فقہا ہیں ، جیسے ابوبکر رازی، الموفق المکی اور ابن البزاز، تو یہ چونکہ رتبے اور درجے کے اعتبار سے اصل ناقلینِ مذہب کے ہم سر نہیں ہیں اس لیے ان کا نقل بھی دوسروں کے مقابلے میں قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا، گو تاریخی نقل اور روایت اصولِ روایت کے لحاظ سے قوی کیوں نہ ہو۔
اور اگر ہم تطبیق کا طریقہ اختیار کریں گے تو میرے ذہن میں تطبیق کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زید بن علی کے خروج کا واقعہ بقول آپ کے صفر۱۲۲ھ میں پیش آیا تھا اور نفس زکیہ کے خروج کا واقعہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے ۱۴۵ھ میں ظاہر ہوا تھا۔ اور امام ابو حنیفہ ؒ بقول ابن کثیرؒ۱۵۰ھ میں وفات پاچکے ہیں ۔({ FR 2269 }) اس طرح خروجِ نفسِ زکیہ کے بعد امام کم سے کم پانچ سال تک زندہ رہ چکے ہیں ۔ اس بناپر ہوسکتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی آخری عمر میں سابق راے میں تبدیلی کرکے خروج کے متعلق اپنا جدید مسلک یہ متعین کیا ہو کہ ’’خروج اور بغاوت حرام ہے نہ کہ جائز۔‘‘ اور اپنے پہلے مسلک سے امام نے رجوع کیا ہو… اور اس وقت سے امام اعظمؒ بھی دوسرے محدثین کی طرح اس بات کے قائل رہے ہوں کہ ’’خروج جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ اور اصلاح کے لیے خروج کے بجاے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی کام لیا جائے گا۔ ‘‘ شاید اسی وجہ سے ملا علی قاری ؒ نے فرمایا ہو: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَيْهِمْ وَقِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ كَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِين۔({ FR 2270 })
اوپر کے مباحث سے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ خروج کے مسئلے میں امام اعظمؒ کا مذہب عدمِ جواز ہے، اور مسلمان باغیوں کا حکم بتصریح فقہا قتل ہے جیسے سابق مکتوب میں فقہا کے حوالے ذکر کیے جاچکے ہیں تو اہلِ موصل کے معاملے میں بھی میرے نزدیک امام سرخسیؒ اور شیخ ابن الہمامؒ کا بیان درست ہے کہ یہ واقعہ مشرکین کے یرغمالیوں سے متعلق تھا نہ کہ مسلمان باغیوں سے۔ کیونکہ مسلمان باغیوں کے بارے میں امام کا مذہب یہ ہے کہ انھیں قتل کیا جائے گا نہ یہ کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الکردری کے بیان کے مطابق یہ واقعہ مسلمان باغیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔

ملک کے نظم اور امن کی پاس داری

کیا ایک کافر حکومت کے اندر رہتے ہوئے یہ جائز ہے کہ آدمی لائسنس کے بغیر یا مقررہ موسموں اور اوقا ت میں شکار کھیلے اور بغیرلیمپ کے راتوں کو موٹر یا بائیسکل چلائے؟

مطالبۂ پاکستان اسلامی نقطۂ نظر سے

ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم ؈ کی خلافت ِارضی کا وارث ہے۔مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اﷲ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانونِ الٰہیہ کے آگے مفتوح کر دے۔
لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں ۔ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ!… تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلما ن چین کی زندگی گزار سکیں ۔کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ قابلِ اعتراض نہیں ؟
یہودی قوم مقہور ومغضوب قوم ہے۔ اﷲ پاک نے اس پر زمین تنگ کردی ہے اور ہر چند کہ اس قوم میں دنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں لیکن ان کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکا والوں سے۔
میرے خیال میں مسلمان… یا بالفاظِ دیگر مسلم لیگ بھی یہی کررہی ہے۔وہ یہودیوں کی طرح پاکستان کی بھیک کبھی ہندوئوں سے اور کبھی انگریزوں سے مانگتی پھر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے ؟اور کیا ایک مقہور ومغضوب قوم کی پیروی مسلمانوں کو بھی اسی صف میں لاکھڑا نہ کردے گی؟

ادھوری تدابیر کے ذریعے اصلاح

آپ کو علم ہوگا کہ مسلم لیگ نے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مجلسِ عمل کا تقرر کیا ہے۔ پھر اس مجلسِ عمل نے مختلف ذیلی مجالس مسلمانوں کی اصلاح وترقی کے لیے مقرر کردی ہیں ۔ انھی میں سے ایک مذہبی ومعاشرتی حالات کی اصلاح کے لیے ہے جس کے داعی کی طرف سے آپ کو ایک سوال نامہ غالباً موصول ہوچکا ہوگا۔({ FR 2273 }) اس سوال نامے کو خاص توجہ کا مستحق سمجھیے اور ہر طرح کے اختلافات کو نظرانداز کرکے فکری تعاون فرمایئے۔غنیمت سمجھنا چاہیے کہ ابھی تک مسلمانوں نے اپنی مذہبیت کو مغرب کے سیلابِ الحاد کے مقابلے میں بچا رکھا ہے۔اگر اس نازک لمحے میں اُن کی صحیح راہ نمائی نہ کی گئی تو ممکن ہے کہ نوجوانانِ ملت ترکی اور ایران کے نقشِ قدم پر چل نکلیں ۔

’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ اور’’پاکستان ‘‘کافرق

آپ حکومت ِالٰہیہ کے خواہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ کیا آپ اپنی حکومت ِالٰہیہ ملکی حدود کے بغیر ہی نافذ کرسکیں گے؟یقینا ًنہیں ، تو پھر آپ کی حکومتِ الٰہیہ کے لیے ملکی حد ود بہرحال وہی موزوں ہوسکتی ہیں جہاں مسٹر جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔آپ پاکستان کی حدود کے علاوہ کیوں سارے ہندستان میں حکومت الٰہیہ نافذ کریں گے؟نیز یہ گرہ بھی کھولیے کہ آپ موجودہ ماحول میں اس طرزِ حکومت کو چلانے کے لیے ایسے بلند اخلاق اور بہترین کیرکٹر کی شخصیتیں کہاں سے پیدا کریں گے؟جب کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جیسے عدیم المثال بزرگ اسے چند سالوں سے زیادہ نہ چلاسکے۔چودہ سو سال کے بعد ایسے کون سے موافق حالات آپ کے پیشِ نظر ہیں جن کی بِنا پر آپ کی دُور رَس نگاہیں حکومتِ الٰہیہ کو عملی صورت میں دیکھ رہی ہیں ؟اس میں شک نہیں کہ آپ کا پیغام ہر خیال کے مسلمانوں میں زور شور سے پھیل رہا ہے اور مجھے جس قدر بھی مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ،وہ سب اس خیال کے حامی ہیں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ عین اسلام ہے۔ مگر ہر شخص کا اعتراض یہی ہے جو میں نے گزشتہ سطورمیں پیش کیا ہے، یعنی آپ کے پاس عہدِ خلافت ِ راشدہ کی اُصولی حکومت چلانے کے لیے فی زمانہ کیرکٹر کے آدمی کہاں ہیں ؟ پھر جب کہ وہ بہترین نمونے کی ہستیاں اس نظام کو نصف صدی تک بھی کام یابی سے نہ چلا سکیں تو اس دور میں اس طرز کی حکومت کا خیال خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟