خلافت کے لیے قریشیّت کی شرط اور اختیار اَہْوَنُ الْبَلِیَّتَین
حدیث اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ ({ FR 2224 })کے متعلق آپ نے اپنے مضامین میں جو کچھ لکھا ہے اور اس پر بعض حلقوں کی طر ف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں ، ان دونوں بحثوں کو دیکھ کر حسب ذیل امور تنقیح طلب محسوس ہوتے ہیں جن پر خالص علمی حیثیت سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد نہ امر ہے نہ خبر نہ وصیت بلکہ یہ ایک قضیے کا فیصلہ تھا جو خلافت کے بارے میں قریش اور انصار کے درمیان حضوؐر کی زندگی ہی میں ذہنوں کے اندر موجود تھا اور حضورﷺ کو اندیشہ تھا کہ آپ کے بعد یہ ایک نزاع کی صورت اختیار کر لے گا، اس لیے آپ نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ فرما دیا کہ آپ کے بعد قریش اور انصار میں سے قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں ۔ بالفاظِ دیگر یہ محض ایک وقتی فیصلہ تھا جس سے مقصود حضوؐر کے فوراً بعد رونما ہونے والی نزاع کو رفع کرنا تھا اور بس۔ کیا حدیث مذکور کی یہ تعبیر درست ہے؟