حکومت ِالٰہیہ اور پاپائیت کا اصولی فرق
رسالہ ’’پیغامِ حق‘‘میں ابو سعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے:
’’اسلامی ریاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بڑے زور شورکے ساتھ پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اُصول نیا نہیں ۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی (theocracy) کے نام سے اس کا چرچا رہا اور رُوم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ چوں کہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں ، اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار واقتدار مل جائے،وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے حلقۂ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصورِ سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے۔لیکن چوں کہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں ، اس لیے نتیجتاً ان کا تصورپاپائے اعظم ہی کا تصور ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘
پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں ،لیکن وہ بھی وجہ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہِ کرم ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرما دیں اور صحیح نظریے کی توضیح کر دیں ۔