شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات

موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلّہ، باجا، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں ، قُل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟

رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات

میں عرصے سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ اس قسم کے اصول ومراسم شائع ہیں جن کے بارے میں اگر فقہی موشگافیوں سے کام لینا شروع کردیا جائے تو ان کو ’’ناجائز‘‘اور’’غیر شرعی رسم‘‘کہنا مشکل ہوگا۔مثلاً یہ کہ منسوبہ یا منکوحہ کے لیے زیور وپارچہ جات کا مطالبہ، کچھ آپس کے لین دین، ایک دوسرے کے کمیوں اور خدمت گاروں کو بطور عطیہ وانعام کچھ دینا دلانا، برادری اور اہل قرابت کو بلانا اور ان کی ضیافت کرنا وغیرہ۔ یہ بہت سی چیزیں بظاہر اگر علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھی جائیں تو ان میں سے غالباً کسی ایک کو بھی ناجائز نہ کہا جاسکے گا۔لیکن اگر ان مراسم کے اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ان کی پابندی اور التزام اس حد تک ہے کہ ان کے بغیر کامیابی ہی نہیں ہوتی اور کوئی کسی درجے کا آدمی کیوں نہ ہو،ان کی پابندی قبول کیے بغیر ازدواجی زندگی کا آغاز کرہی نہیں سکتا، تو بالکل صفائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں اب صرف ’’مباح‘‘ کے درجے پر باقی نہیں رہی ہیں ، بلکہ یہ سب برادری کا ایک قانون بن گئی ہیں اور ایسا قانون کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والا گویامجرم متصور ہوتا ہے۔پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر باطل قانون کو توڑ دیا جائے،چاہے وہ کہیں ہو،تو سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بالا چیزیں اس شکست وریخت کی مستحق ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ حملے کی مستحق ہیں جیسا کہ میری راے ہے، تو کیا یہ حقیقت آپ سے مخفی ہے کہ ہندستان کاکوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کی ’’شریعتِ رسوم‘‘ نافذ العمل نہ ہو،خواہ اس کی تفصیلی اشکال کچھ ہی ہوں ۔
جن تقریبات کو آج کل ’’شرعی تقریبات‘‘کہا جاتا ہے وہ بھی بس صرف اس حد تک شرعی ہوتی ہیں کہ ان میں ناچ، باجا گاجا اور ایسی ہی دوسری خرافات ومزخرفات نہیں ہوتیں ،لیکن مذکورہ بالا رسوم کا جہاں تک تعلق ہے،وہ ان میں بھی بدرجۂ اتم موجود رہتی ہیں اور انھیں ’’اباحت‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جاتا ہے۔پس کیا جماعتِ اسلامی کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے اراکین کو ’’غیر شرعی رسوم‘‘ کی وضاحت اس طرح کرکے بتلاے کہ یہ ’’اباحت‘‘ کی قبا چاک ہوجائے اور وہ اپنی تقریبات کو بالکل مسنون طریقے پرمنائیں ؟
اگر ان رسوم کے خلاف میرااحساس صحیح نہ ہو تو پھر کچھ وضاحت سے ’’شریعتِ رسوم‘‘ کے واجبات کو قابلِ بغاوت قوانین باطل سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجوہ تحریر فرمائیں ۔اس سے اگر میرا اطمینان ہوگیا تو تجرد کی مصیبت سے نجات حاصل ہوسکے گی۔ اور اگر آپ نے میری راے کی تصدیق کی تو پھر میرے لیے بظاہر کامیابی کا کہیں موقع نہیں ہے۔مگر مجھے اس سے بڑی مسرت ہوگی،کیوں کہ پھر تکلیف صحیح معنوں میں اﷲ کی راہ میں ہوگی۔ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا({ FR 2195 }) ( الطلاق:۱)

راجا کی غائبانہ سلامی

اسکول میں ڈرل کے بعد مہاراجا صاحب کی سلامی بینڈ پر اُتاری جاتی ہے۔یہ غائبانہ سلامی ہے اور اسے وفا داری کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔میں نے ایک بندے کو خدا کی معبودیت میں شریک ماننے سے قولاً وعملاًانکار کیا ہے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے غور کے لیے مہلت دی ہے۔ آپ میری راہ نمائی فرمائیں ۔

کیا ازدواجی و عائلی عدالت کو مطلّقہ کے مطالبے پر یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مطلّقہ کو تاحینِ حیات یا تا عقدِثانی نفقہ دلوائے؟

عورت کی طرف سے مطالبہ طلاق

کیا آپ ڈیسولیوشن آف میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء (انفساخِ نکاح مسلمین۱۹۳۹ء) کی تمام دفعات کو جامع اور تشفی بخش سمجھتے ہیں ۔ یا آپ کے نزدیک اس میں اضافہ و ترمیم ہونی چاہیے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ مناسب ہو گا کہ خلع کے متعلق مجلس آئین ساز واضح اور غیر مبہم قانون وضع کرے؟

تعدّدِ ازواج

قرآن کریم میں تعدد ازواج کی بابت ایک ہی آیت (النسآء:۴) ہے جو حقوق یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعدّد ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ لازمی ہونا چاہیے کہ عقدِ ثانی کا ارادہ رکھنے والا شخص عدالت سے اجازت حاصل کرے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ قانون ہونا چاہیے کہ عدالت یہ اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ درخواست دہندہ دونوں بیویوں اور ان کی اولاد کی اس معیارِ زندگی کے مطابق کفالت کر سکتا ہے جس کے وہ عادی ہیں ؟