جماعتِ اسلامی اور تفرقہ

جماعت اسلامی کی تحریک سے مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بن جائے گا۔اس خطرے کا کیا سدِّباب کیا گیا ہے؟

شہیدانِ ختم نبوت کو حرام موت مرنا کہنا

شہیدان ختم نبوت کو آپ کی جماعت کے ارکان ومتفقین حرام موت مرناکہتے رہے ہیں ۔ کیا یہ آپ کی جماعت کا ہی نظریہ ہے،یا اِن لوگوں کا ذاتی نظریہ؟ اگر ذاتی ہے تو کیا اس مقدس تحریک میں ذاتی طور پر حصہ لینے والے لوگوں کے خلاف جماعتی کارروائی کی تھی؟ اسی طرح ایسا کرنے والوں کے خلاف آپ کوئی جماعتی کارروائی کریں گے؟

ایمان بالقدر اور مخالفین کی بد دیانتی

خدا کے دین کی اشاعت کا جو کام اپنی توفیق کے مطابق ہم لوگ سرانجام دے رہے ہیں ،اس کے پھیلنے میں آپ کی بعض کتابیں مثلاً دینیات، خطبات وغیرہ بہت مدد دے رہی ہیں اور ان کی مانگ برابر بڑھ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ کتابیں مخالفین کرام کا خاص ہدف بھی بنی ہوئی ہیں ۔ان کی بعض عبارات کو چھانٹ چھانٹ کر غلط فہمی پھیلانے اور ہمیں بدنام کرنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا پرست مفتیان کرام ان عبارات کی بنیاد پر ہمارے خلاف فتواے کفر تک جاری کرچکے ہیں ۔ان حالات میں گفتگوئوں کا محور تمام تر آپ کی چند خاص عبارات بن گئی ہیں ۔ان میں سے ایک حسب ذیل ہے:
رسالۂ دینیات باب چہارم کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ پانچ عقیدے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ان پانچوں کا خلاصہ صرف ایک کلمے میں آجاتا ہے۔‘‘پھر باب پنجم میں درج ہے کہ’’پچھلے باب میں تم کو بتایا گیا ہے کہ حضرت محمدؐ نے پانچ اُمور پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے۔‘‘حالاں کہ حدیث صحیح میں وَالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ کو ملا کر ایمان کو چھ چیزوں پر مشتمل قرار دیا گیا ہے نہ کہ پانچ پر۔اس سے معترضین نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ’’فرقہ مودودیہ تو قدر پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ لوگ خیر وشر کے خد اکی طرف سے ہونے کے منکر ہیں ۔یہ وہی قدریہ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ وہ اس امت کے آتش پرست ہیں ۔‘‘اس استدلال کی بنیاد پر صرف جھوٹی الزام تراشی ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ ہمیں صریحاً کافر کہا جاتا ہے اور ہم پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے ہیں ۔ بعض جگہ جماعت اسلامی کے ہم دردوں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ علماے سوء عوام میں وعظ کہتے پھرتے ہیں کہ’’لوگو! خبردار! یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمارا ایمان چوری کیا ہے،انھیں جتنی اذیت دو کم ہے۔‘‘
اس اعتراض کے جواب میں ہم نے واضح کیا ہے کہ ہمارا ایمان قدر پرہے۔لیکن رسالۂ دینیات میں ایمان صرف پانچ چیزوں پر مشتمل اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قدر پر ایمان ایمان باﷲ کے اندر شامل ہے۔ اس جواب کی تائید میں ہم’’مسئلۂ جبر وقدر‘‘کو پیش کرتے ہیں ، مگر معترضین آپ کے جواب پر مصر ہیں ۔

مسئلہ جبر وقدر اور مخالفین کی بددیانتی

آپ کی کتابوں کی بعض باتوں پر مجھے شک ہے۔مثلاًآپ قضا وقدر کو جزو ایمان نہیں سمجھتے جیسا کہ آپ کی مندرجۂ ذیل تحریر سے معلوم ہوتا ہے:
’’ہر چند میرے نزدیک مسئلۂ قضا وقدر جز وِایمان نہیں ہے۔‘‘ ({ FR 1135 })
لیکن علماے دین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جزو ایمان ہے۔جیسا کہ آتا ہے:
اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔({ FR 1136 })

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ کی تفسیر پر اعتراض

میں اپنے قصبہ… میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے کام کررہا ہوں ۔چند اور رفیق بھی میرے ساتھ ہیں ۔انفرادی مخالفت پہلے بھی تھی جس کی رپورٹ میں اپنی جماعت کے مرکز کو بھیجتا رہا ہوں ۔لیکن اب ایک معاملہ ایسا پیش آگیاہے کہ آپ سے استفسار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
پرسوں سے ایک مولانا صاحب جن کا نام …ہے، یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انھوں نے قصبے میں اپنے خاص اشتہارات(ایک نقل منسلک ہے)({ FR 975 }) کافی تعداد میں تقسیم کراے ہیں ۔پھر شام کو ایک بہت بڑے مجمع میں تقریر کرکے جماعتِ اسلامی کے خلاف بہت کچھ زہر اگلا ہے۔میں چند باتیں ان کی نقل کرکے ملتمس ہوں کہ ضروری تصریحات سے جلد ازجلد میری راہ نمائی فرمائی جائے۔
مولانا مذکور کا ارشاد ہے:
جماعتِ اسلامی کے بڑے امیر سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نہ تو کوئی مستند عالم ہیں نہ کوئی مفسر۔ صرف اپنے ذاتی علم کی بنا پر ترجمہ اور تفسیر کرتے ہیں ۔ اس کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( آل عمران:۹۲) کا ترجمہ ’’خطبات‘‘ میں یہ ہے کہ ’’نیکی کا مرتبہ تم کو نہیں مل سکتا جب تک کہ تم وہ چیزیں خدا کے لیے قربان نہ کر دو جو تم کو عزیز ہیں ۔‘‘ اس کی تشریح میں مولاناے مذکور نے یہ فرمایا کہ دیکھو جماعتِ اسلامی تم کو نیک اور مسلمان نہیں سمجھتی جب تک کہ تم کل مال خدا کی راہ میں جماعت کو نہ دے دو۔ ورنہ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ تم نیکی میں کمال حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنی پیاری چیز میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ نیک اور مسلمان تو تم ہر وقت ہو ہی، جب تک تم یہ کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں ، البتہ کامل جب ہو گے جب پیاری شے میں سے کچھ خدا کی راہ میں قربان کروگے۔
قرآن کے چند ترجموں میں میں نے بھی دیکھا ہے کہ لفظی ترجمہ یہی ہے جو انھوں نے کیا ہے۔ اس کی کیا تأویل ہو سکتی ہے؟

قرآن میں تحریف کا الزام

مولانا …فرماتے ہیں کہ دیکھو جماعتِ اسلامی قرآن میں تحریف کرکے اس کو اپنے منشا کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے جو بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کے ثبوت میں انھوں نے ایک رسالہ ترجمان القرآن اپریل ۱۹۳۸ء، ص۱۳۹ پر سورۂ البقرہ، رکوع ۲۴ کی ایک آیت پیش کی ہے:
رسالۂ مذکور میں تحریر کردہ آیت یہ ہے يٰٓاَيُّہَا اَلنَّاسُ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ حالاں کہ قرآن پاک میں یہی آیت اس طرح درج ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ (البقرہ:۲۰۸ ) یہ ان کی ایسی دلیل ہے جو واقعی ہے اور مخالف لوگ اس تحریف سے جتنا بھی مشتعل ہوں کم ہے۔ چوں کہ یہ قرآن کا معاملہ ہے جس کی بقا کے لیے ہر مسلمان خواہ وہ بے عمل ہی کیوں نہ ہو، جان کی بازی لگا سکتا ہے۔ آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ضروری تصریحات سے جلد ازجلد میری راہ نمائی فرمائی جائے۔

شفاعت کا انکار

کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔بِنائے فتویٰ یہ ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قیامت کے روز اُمت کے بارے میں شفاعت کے منکر ہیں ۔ اس کا حوالہ ترجمان القرآن، جنوری، فروری۱۹۴۵ صفحہ۳۰سے لیتے ہوئے آیت’’جنگ کرو اہل کتاب میں ان لوگوں کے خلاف جو اﷲ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘کے تشریحی نوٹ کا دیا ہے۔یہ نوٹ یوں ہے:’’وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ اورکسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا۔‘‘ اسی طرح تفہیمات سے بھی کوئی حوالہ اسی قسم کا اخذ کیاہے۔

مخالفین کے بے دلیل فتوے

مولانا … نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جماعتِ اسلامی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اور جب تک اس کام میں کام یابی حاصل نہ کر لوں گا دوسرا کام اپنے اوپر حرام سمجھوں گا۔ اسی لیے انھوں نے چند علما کے فتاویٰ لے کر چھپنے کے لیے بھیجے ہیں جن کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جائے گا۔ ضروری تصریحات سے جلد ازجلد میری راہ نمائی فرمائی جائے۔