کیا ایسا قانون بنانا جائز ہو گا کہ ایک مسلمان کسی جائداد کو کسی کے نام اس شرط پر منتقل کر دے کہ جسے منتقل کی گئی ہے اس کی وفات کے بعد وہ جائداد منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود کر آئے گی؟

ابوجہل کی بیٹی کو حضرت علیؓ کا پیغامِ نکاح

اسلام میں جب چار شادیوں کی اجازت ہے تو حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں جب علی کرم اللّٰہ وجہہ نے دوسری شادی کرنی چاہی تو رسول اﷲﷺ نے آپ ؓ کو کیوں روک دیا؟ابوجہل کی بیٹی کے خانوادۂ اہل بیت میں آجانے سے اگر کوئی خطرہ تھا تو کیا حضرت اُم حبیبہؓ بنت ابی سفیان کے حرم رسالت میں داخل ہونے سے وہی خطرہ نہ تھا؟

منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادیِ عمل کے حدود

یہاں لندن میں ایک مسلمان طالب علم ایک جرمن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔وہ مسلمان بننے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لہٰذا میں نے شادی رکوانے کی کوشش کی۔صاحب زادے کو سمجھایا کہ وہ کیوں کر برداشت کرے گا کہ اس کے گھر میں سور کا گوشت کھایا جائے اور شراب پی جائے۔ لڑکی غیر مسلم ہوئی تو ہمارے محرمات کا خیال نہیں کرے گی اور گھر بربادہوجائے گا۔لڑکے کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ کچھ متذبذب ہو گیا۔ انھی دنوں اسلامک سنٹر کے مصری ڈائرکٹر سے ملاقات ہوئی۔ ان صاحب نے ڈاکٹر آ ر بری کے ساتھ مل کر ایک کتاب شائع کرائی ہے اور اب جامعۂ ازہر کے کلیۂشریعہ کے صدر ہوکرواپس مصر گئے ہیں ۔ انھوں نے اس لڑکے سے کہاکہ اگر اس کی بیوی عیسائی رہتی ہے تو اسے کوئی حق نہیں کہ لڑکی کو شراب،سور وغیرہ سے روکے۔جو چیز اس کے مذہب میں جائز ہے،اسے کرنے کی اسلام نے اسے آزادی دی ہے۔مسلمان شوہر مداخلت کرکے گناہ گار ہوگا۔ کیا یہ راے درست ہے؟ کیا آں حضورﷺ کے معاہدۂ نجران سے یہ استنباط نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مسلمان کی اہل کتاب بیو ی کو اسلام کے متعین کردہ کبائر کی اجازت نہیں ؟

تعددِ ازواج اور لونڈیاں

حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں :
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ({ FR 2191 }) (النساء:۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جاسکتی ہیں ، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانے میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا،اس لیے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا،تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے حصے میں دس آئیں اور دوسرے کے حصے میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے،اس کا تعین تو بہرحال ہوسکتا تھا کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں ،وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کرسکتاہے،جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔
اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصے کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کرسکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لیے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلا تعین تعداد تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کی وجہ سے معاشرے کے اندر وہی خرابی داخل ہوجاتی ہے جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا،مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا جو اس خرابی کاانسداد کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفاے بنو اُمیہ اور بنوعباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں ۔پس میری راے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرے میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ ومصالح کی بِنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟
اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشرکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے؟

تعدّدِ ازواج پرپابندی

میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں ،وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہو تو کیا حکومت اس بِنا پر تعدد ازواج پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟
اس سوال کی ضرورت میں نے اس لیے محسوس کی ہے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی ہے وہاں ہنگامی صورت حال پیش نظر تھی۔اس زمانے میں سال ہا سال کے مسلسل جہاد کے بعد بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں اور بچے بے آسرا اور یتیم رہ گئے تھے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اجازت دی گئی تھی، تاکہ بیوائوں اور یتیم بچوں کو سوسائٹی میں جذب کیا جاسکے اور ان کی کفالت کی شائستہ صورت پیدا ہوسکے۔

آپ مجھے معاف فرمائیں اگر میں یہ عرض کروں کہ آپ کے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔ میری گزارش صرف اتنی تھی کہ اگر کسی معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہوجائے تو کیا اس صورت میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کرسکے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسا شاذ ونادر ہی ہوسکتا ہے۔لیکن میرا سوال بھی اسی شاذ صورت حال سے تعلق رکھتا ہے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں (مردم شماری کی رو سے) عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہیں ۔اب کیا حکومت کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے کہ جب تک یہ صورت حال قائم رہے،ایک سے زیادہ شادیوں کی ممانعت ہوجائے؟
میں نے عرض یہ کیا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اس زمانے میں جب آں حضرت ﷺ دعوت حق میں مصروف تھے تو سال ہا سال کے جہاد کی وجہ سے بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا مسئلہ حل کرنا پڑا، اور اس کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جائے ۔ جس مقام پر یہ اجازت دی گئی ہے ،اس سے قبل جہاد وقتال ہی کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح میں نے (غلط یا صحیح) یہ استنباط کیا ہے کہ یہ اجازت مخصوص حالات کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ استنباط غلط بھی ہے اورجیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ یہ قرآن کے صحیح مطالعے پر مبنی نہیں تو اس سے ہٹ کر بھی یہی کچھ سوچا جاسکتا ہے کہ دو دو ،تین تین،اور چار چار نکاح اسی صورت میں کیے جاسکتے ہیں جب کہ معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر ان کی تعداد مقابلتاً زیادہ نہ ہو یا مردوں کے مساوی ہو تو اس جواز سے فائدہ اٹھانے کی کیاضرورت ہے؟

کیا مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟

نکاح

کیا نکاح خوانی کا کام صرف حکومت کے مقرر کردہ نکاح خوانوں کے ذریعے ہونا چاہیے؟

کیا نکاح کا رجسٹری کرانا لازمی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہو تو اس کے لیے کیا طریق کار ہونا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے کیا اور کسے سزا ہونی چاہیے؟