کیا مختلف علاقوں کے لیے مصالحتی مجالس مقرر کی جائیں اور کسی طلاق کو اس وقت تک صحیح تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ فریقین ان مجالس کی طرف رجوع نہ کر چکے ہوں جن میں زوجین کے خاندانوں کی طرف سے بھی ایک ایک حَکَم شامل ہو؟
مفتی: مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
ترجمان القرآن مارچ۱۹۶۲ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ،ان میں سے پہلے ہی مسئلے میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ’’ قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘یا قرآن اسے اصطلاحاً صرف ’’عقد کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘ یہ قاعدۂ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے راے دی ہو،آپ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
کیا عائلی قوانین کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟متذکرۂ صدر قوانین کی روسے تو طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کچھ خاص شرائط عائد کردی گئی ہیں ؟
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
علماے احناف اور علماے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلاولی کی صورت میں بلاتأمل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں ، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں ۔
پسند کی شادی
خواتین کو خواہ اسلامی عدالت کے روبر وہی سہی، اپنی پسند سےcivil marriage کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے؟
شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ
ترجمان القرآن ستمبر ۱۹۵۱ئ میں آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے جواب میں ایک جگہ ایسے تسامح سے کام لیا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔مولانا موصوف نے آپ سے دریافت کیا تھا کہ’’ کیا ایک سیّد ہندستان میں رہنے کی وجہ سے سیّد نہ رہے گا بلکہ جلاہا بن جائے گا؟‘‘میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے بھی جواب میں دبی زبان سے اس غیر اسلامی امتیاز کو یہ کہہ کر تسلیم کرلیا کہ ’’دارالکفر کے ایک سیّد صاحب، دارالاسلام کی ایک سیّدانی کے باعتبار نسب کفو ہی سہی۔‘‘آپ کے الفاظ مبہم ہیں ۔کیا آپ بھی مسئلۂ کفو کو اسلام میں جائزسمجھتے ہیں ؟اگر جواب اثبات میں ہے تو آپ قرآن وحدیث سے استشہاد پیش فرما کر میرا اطمینان فرمائیں ۔سمجھ میں نہیں آیا کہ دنیا کے کام کاج اور پیشوں کو انسانیت کی اونچ نیچ میں کیوں دخل ہو؟بنی نوع انسان سب آدم ؈ کی اولاد ہیں ۔کیا حضرت دائود؈ نے اگر لوہے کا کام کیا ہے تو وہ لوہار ٹھیریں گے؟
اپنی قوم میں شادی
کیا حدیث یا قرآن میں کوئی اصولی ہدایت اس امر کی موجود ہے کہ ہر شخص اپنی قوم(ذات) میں ہی شادی کرے۔واضح رہے کہ میں کفاء ت کا اس معنی میں تو قائل ہوں کہ فریقین میں مناسبت ہونی چاہیے،غیر ضروری معیار کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔
مُحرمات کی حرمت کے وجوہ
چند روز سے رفقا کے درمیان محرمات کے سلسلے میں ایک مسئلہ زیر بحث ہے جو میں ذیل میں تحریر کرتا ہوں ۔اُمید ہے کہ آپ ازراہِ کرم اس پر روشنی ڈال کر مشکور فرمائیں گے۔
مناکحت کے سلسلے میں ایک عورت اور دوسری عورت میں کیوں امتیاز کیا گیا ہے کہ بعض کو عقد میں لا یا جاسکتا ہے اور بعض محرمات کی فہرست میں آتی ہیں ؟ اگرچہ ابتداے انسانیت میں ایسی کوئی قید نظر نہیں آتی ہے جیسا کہ ہابیل اور قابیل کے قصے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ کیا اس قسم کی شادیاں حیاتیاتی مفاسد کا موجب بھی بن سکتی ہیں ؟
اُمید ہے کہ آپ اس کا جواب ترجمان القرآن میں شائع فرما دیں گے تاکہ دیگر حضرات کے لیے بھی استفادے کا باعث ہو۔
نکاحِ شِغار
مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اُصول پر کرتے ہیں ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی اشخاص مل کر اس طرح کا ادل بدل کرتے ہیں ۔مثلاًزید بکرکے لڑکے کے ساتھ،بکر عمر کے لڑکے کے ساتھ، اور عمر زید کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکیوں کا نکاح کردیتے ہیں ۔ان صورتوں میں عموماًمہر کی ایک ہی مقدار ہوتی ہے۔بعض علماے دین اس طریقے کو شغار کہتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شِغار کو نبی ﷺنے منع فرمایا ہے({ FR 2078 }) بلکہ حرام قرار دیا ہے۔
بحالات موجودہ ایک غریب آدمی یہ طریقہ اختیار کرنے پر مجبور بھی ہوتا ہے،کیوں کہ جس آسانی سے دوسرے لوگ اُس کی لڑکی کو قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں ، اس آسانی سے اُس کے لڑکے کو رشتہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔براہِ کرم اس مسئلے کی حقیقت واضح فرما ویں ۔
نکاح بلا مہر
کیا بغیر مہر کے نکاح جائزہے؟