مہر کے تقرر میں حیلے نکالنا

ہمارے علاقے میں عام طور پر نکاح کا مہر نو صد روپے معین ہوتا ہے۔اس سے تین سو روپے کی ادائگی ہوجاتی ہے اور چھ سو روپے کی رقم وصول طلب رہتی ہے۔لیکن بالعموم مرد کی طرف سے اس چھ سو کی ادائگی کی نوبت کبھی نہیں آتی۔
ہمارے ایک رشتے دار کی لڑکی کا نکاح آج سے قریباً۵سال قبل ہوا تھا اور اس کا مہر دس ہزار روپے قرار پایا تھا۔ لڑکے کی طرف سے اوّل اوّل اتنے بڑے مہر کو تسلیم کرنے میں پس وپیش ہوتا رہا مگر آخر کار محض اس وجہ سے یہ ہٹ چھوڑ دی گئی کہ یہ سب کچھ ایک نمائشی رسم کے سوا کچھ نہیں ۔
اب اسی رشتے دارکی دوسری لڑکی کی نسبت میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ طے پائی ہے اور اب جلد ہی اس کا نکاح ہونے والا ہے۔ لڑکی کے اولیا کی طرف سے قبل از وقت یہ اطلاع پہنچا دی گئی ہے کہ مہر وہی نو دس ہزار روپے ہو گا۔ اگر اس رقم میں اب کوئی کمی کی جائے تو ان کا پہلا داماد بگڑ جائے گا کہ جب اس کے لیے دس ہزار روپے رکھا گیا تھا تو اب دوسرے داماد سے کوئی امتیازی رویہ کیوں اختیار کیا جائے؟
اس اُلجھن کو طرفین نے حل کرنے کی صورت یہ سوچی ہے کہ مجلس نکاح میں جب کہ ہمارے عزیز کا پہلا داماد موجود ہو گا،مہر وہی نو دس ہزار روپے تحریر کیا جائے گا، مگر بعد میں خفیہ طور پر اس تحریر کو بدل کر نو ہزار سے نو سو کردیا جائے گا۔ اس طرح نہ پہلا داماد ناراض ہوگا نہ ہمارے چھوٹے بھائی پر بار رہے گا۔
مجھے اس مجوزہ صورتِ معاملہ میں کھٹک سی ہورہی ہے اور میں نے اس کا اظہار اپنے والد محترم کے سامنے بھی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ علماے شریعت سے استصواب کرلیں ۔اس پر انھو ں نے فرمایا کہ ایک مقامی مفتی صاحب سے استفتا کیا جاچکا ہے اور ان کی راے میں ایک معاملے میں طرفین جب راضی ہیں تو شریعت معترض نہیں ہوسکتی۔اس پر میں نے والد صاحب پرا پنا عدم اطمینان ظاہر کیاہے۔
یہی معاملہ جماعتِ اسلامی کے ایک رکن کے سامنے رکھا تو انھوں نے فرمایا کہ مجوزہ صورتِ معاملہ میں ایک تو پہلے داماد کو فریب دیا جائے گا اور دوسرے دس ہزار مہر کی بہرحال ایک اور مثال عوام کے سامنے قائم کی جائے گی اور رسم ورواج کی بیڑیوں میں گویا ایک اور کڑی کااضافہ کیا جائے گا۔اس وجہ سے میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔
اب مشکل یہ ہے کہ نکاح کی مجلس میں لڑکے کا بھائی ہونے کی وجہ سے مجھے شریک بھی ہونا ہے اور شاید وکیل یا گواہ بھی بننا پڑے،اور صورت ایسی ہے کہ میر اضمیر اس کے جائزہونے کی شہادت نہیں دیتا۔اگر میں بحیثیت وکیل یا شاہد مجلس میں شریک ہوتا ہوں تو از خود اس غلطی میں حصے دار ہوں جس کو سوچ سمجھ کرمیرے اعزہ کرنے لگے ہیں ۔اگر شرکت سے باز رہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں بھائی کی شادی پر خوش نہیں ہوں ۔نیز اگر عدمِ شرکت کی وجہ مجھ سے پوچھی جائے تو میں خاموش رہنے پرمجبور ہوں ، کیوں کہ اگر حقیقت بیان کردوں تو سارا معاملہ درہم برہم ہوکے رہے گا۔
اب براہِ کرم آپ میرے لیے صحیح اسلامی رویہ تجویز فرما دیں ، ان شاء اﷲ میں دنیوی تعلقات اور مفاد کو تعمیل میں حائل نہ ہونے دوں گا۔میں صرف شریعت کا حکم معلوم کرنا چاہتا ہوں اور اس کے اتباع پر تیار ہوں ، فرار کے لیے کوئی تأویل مجھے مطلوب نہیں ہے۔

مہر معجل کا حکم

اگر بوقت نکاح زرِمہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی ہو اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معجل ہے یا مؤجل، تو آیا اس کو معجل قرار دیا جائے گا یا مؤجل؟اس مسئلے میں علما سے استفتا کیا گیا مگر جواب مختلف آئے۔ مثلاً چندجوابات یہ ہیں :
مولانا محمد کفایت اﷲصاحب ودیگرعلما ے دہلی:
’’اگرمہر میں مؤجل کی تصریح بھی ہو مگر اجل مجہول بجہالت فاحشہ ہو تو مہر معجل ہوجاتا ہے اورجب کہ معجل یا مؤجل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ واجب الادا کا لفظ لکھ دیا جائے تو یہ بھی معجل ہوگا، کیوں کہ بغیر ذکرِ اجل کے مؤجل نہیں ہوسکتا۔
إلَّا إذَا جُهِلَ الْأَجَلُ جَهَالَةً فَاحِشَةً فَيَجِبُ حَالًّا غَايَةٌ… وَإِنْ كَانَتْ مُتَفَاحِشَةً كَإِلَى الْمَيْسَرَةِ أَوْ إلَى هُبُوبِ الرِّيحِ، أَوْ إلَى أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ فَالْأَجَلُ لَا يَثْبُتُ وَيَجِبُ الْمَهْرُ حَالًّا، وَكَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ({ FR 2080 })
مولانا سعید احمد صاحب مدرس مدرستہ الاصلاح سراے میر،ضلع اعظم گڑھ:
’’مہر مؤجل اس وقت ہوگا جب بوقت عقد نکاح اداے مہر کے لیے وقت اور تاریخ کی تعیین ہو ورنہ معجل۔ یہی حال تمام معاملات کا ہے۔اگر کسی نے ایک دکان سے کوئی چیز خریدی اور بات چیت میں نقد یا تاخیر تعیین وقت کا ذکر نہیں آیا تو یہ معاملہ بھی معجل کے حکم میں ہوگا،خریدار خواہ فوراًقیمت دے دے یا بعد میں دینے کا وعدہ کرے۔بہرصورت معجل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ عوض فوراًادا کیا جائے بلکہ صاحب حق کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ فوراًیا جب چاہے اپنے حق کا مطالبہ کرے۔ اور معاملۂ مؤجلہ میں اجل اور تاریخ سے پہلے مطالبے اور تقاضے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔اس تفصیل کی رُو سے معاملۂ مسئولہ میں زرِمہر معجل ہے‘ اس لیے عورت جب چاہے،اس کا مطالبہ اور دعویٰ کرسکتی ہے۔‘‘
مولانا سیّد سلیمان ندوی:
’’ زرِ مہر میں اگر معجل یا مؤجل کی کوئی تفصیل نہیں ہے تو عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔وقایہ میں ہے: والمعجل والمؤجل ان بینا فذلک والا فالمتعارف ’’اگر معجل اور مؤجل دونوں بیان کردیے گئے ہیں تو جیسا بیان کیا گیا ہے ویسا ہوگا ورنہ عرف کا اعتبار ہوگا۔‘‘
مولانا عبدالرحمٰن صاحب نائب مفتی ریاست پیٹالہ ودیگر علما:
’’اس صورت میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا(حوالہ وہی مختصر وقایہ کا ہے)اگر عرف یہ ہے کہ ایک عورت ایسے غیر مبیّن مہر کو صرف شوہر کی وفات یا طلاق ہی کے بعد حاصل کرسکتی ہے تو وہ شوہر کی وفات یا طلاق سے پہلے اسے وصول کرنے کاحق نہیں رکھتی۔‘‘
اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ براہِ کرم آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں ۔

اہلِ کتاب اور مسلمانوں کی باہمی مناکحت

آپ نے فرمایا ہے کہ’’ اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کرسکتے ہیں ‘‘ مگر آپ نے ساتھ ہی یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اہلِ کتاب بھی مسلم عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو کیا آپ اس احساسِ برتری(superiority complex)کے بارے میں مزید روشنی ڈالیں گے؟

توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح

بہاول پور میں دو توأم لڑکیاں متحد الجسم ہیں ۔ یعنی جس وقت وہ پیدا ہوئیں تو ان کے کندھے، پہلو، کولھے کی ہڈی تک آپس میں جڑے ہوئے تھے اور کسی طرح سے ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔اپنی پیدائش سے اب جوان ہونے تک وہ ایک ساتھ چلتی پھرتی ہیں ۔ان کو بھوک ایک ہی وقت لگتی ہے۔پیشاب پاخانہ کی حاجت ایک ہی وقت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی عارضہ لاحق ہو تو دوسری بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کا نکاح ایک مرد سے ہوسکتاہے یا نہیں ۔ نیز اگر دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی ہیں تو اس کے لیے شرعی دلیل کیا ہے؟
مقامی علما نہ ایک مرد سے نکاح کی اجازت دیتے ہیں اور نہ دو سے۔ایک مرد سے ان دونوں کا نکاح قرآن کی اس آیت کی رو سے درست نہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ دو حقیقی بہنیں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں نہیں آسکتیں ۔ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ({ FR 2183 }) (النساء:۲۳ ) اس حکم کو بنیاد بنا کر اگر دو مردوں کے نکاح میں ان دومتحد الجسم عورتوں کو دے دیا گیا تو مندرجہ ذیل دشواریاں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر علما نے سکوت اختیا ر کرلیا ہے۔ مثلاً:
(۱) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک مرد اپنی منکوحہ نامزد بیو ی تک ہی اپنے صنفی تعلقات کو محدود کرسکے گا اور دوسری متحد الجسم عورت سے جو اس کے نکاح میں نہیں ہے،تعرض نہ کرے گا۔
(۲)یہ دوسری عورت جو اپنی بہن سے متحد الجسم ہونے کے ساتھ متحد المزاج بھی ہے زوجی تعلق کے وقت متاثر نہ ہو گی۔
(۳)دومردوں سے ایسا نکاح جس میں دونوں عورتیں (صنفی تعلقات کے وقت) متاثر ہوتی ہوں ، ان کی حیا مجروح ہوتی ہو، ان میں رقیبانہ جذبات پیدا ہوتے ہوں ، کیا نکاح کی اس روح کے منافی نہیں جس میں بتایا گیا ہے وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً({ FR 2184 }) (الروم:۲۱ ) وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا ({ FR 2185 }) (الاعراف:۱۸۹)
(۴) نکاح کا ایک بڑا مقصد افزائش نسل ہے اور والدین اور مولود میں شفقت بھی ہے۔دو مردوں کا یہ نکاح اس تعلق پر کلھاڑ ا چلاتا ہے۔ اور بھی مفاسد ہیں جن کے بیان کو یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
براہِ کرم شریعت کی روشنی میں اس سوال کو حل کیجیے تاکہ یہ تذبذب دور ہو،ان عورتوں کے والدین ان کا نکاح کرسکیں ، اور اس فتنے کا سدباب ہو جو جوان ہونے کی وجہ سے ان کو لاحق ہے۔

طلاق قبل از نکاح

میرے ایک غیر شادی شدہ دوست نے کسی وقتی جذبے کے تحت ایک مرتبہ یہ کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں کسی عورت سے بھی شادی کروں تو اس پر تین طلاق ہے۔‘‘اب وہ اپنے اس قول پر سخت نادم ہے اور چاہتا ہے کہ شادی کرے۔علما یہ کہتے ہیں کہ جوں ہی وہ شادی کرے گا،عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لیے عمر بھر اب شادی کی کوشش کرنا اس کے لیے ایک بے کار اور عبث فعل ہے۔ براہِ کرم بتائیں کہ اس مصیبت خیز اُلجھن سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں ؟

عدت خلع

آپ کی تصنیف’’تفہیم القرآن‘‘ جلدا وّل، سورۂ بقرہ ،صفحہ۱۷۶ میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔دراصل یہ عدت ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم محض استبراے رحم کے لیے دیا گیا ہے۔‘‘
اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ آپ نے اس مسئلے کی سند وغیرہ نہیں لکھی۔ حالاں کہ یہ قول مفہوم الآیہ اور اقوا لِ محققین اور قول النبیؐ کے بھی خلاف ہے۔
۱۔ رَوٰی عبدُالرَّزاقِ مَرْ فُوْعًا: اَلْخُلْعُ تَطْلِیْقَۃٌ۔({ FR 2088 })
۲۔ وروی الدارقطنی أَنَّ النبیﷺ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیْقَۃٌ۔({ FR 2089 })
۳۔ وروی مالک عن ابن عمرؓ عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ مِثْلُ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ۔ ({ FR 2090 })
ایک ابودائود کی روایت ہے کہ عِدَّتُھَا حَیْضَۃٌ ،({ FR 2091 }) لیکن یہ قول تصرف من الرواۃ پرمحمول کیا گیا ہے اور نص کے بھی خلاف ہے کہ نص میں ہے: وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ({ FR 2188 }) (البقرہ:۲۲۸)
مہربانی فرما کر احادیث نبویہ میں تطبیق دیتے ہوئے، نص کو اپنے اطلاق پر رکھتے ہوئے اور محدثین کے اقوال کو دیکھتے ہوئے مسئلے کی پوری تحقیق مدلل بحوالۂ کتب معتبرہ تحریر فرمائیں تاکہ باعث اطمینان ہوسکے۔

مُتعہ کی بحث

جناب نے سورہ المؤمنون کی تفسیر کرتے ہوئے مُتعہ کے متعلق حضرت ابن عباسؓ اور دیگر چند صحابہ وتابعین کے اقوال نقل کر کے ارشاد فرمایا کہ یہ سب حضرات اضطراری صورت میں متعہ کے قائل تھے۔ مگر تقریباً اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے حلت متعہ سے رجوع کرلیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ حضرت ابن عباسؓ کا رجوع آپ کی نظر سے کیوں مخفی رہا۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ اور تابعین کا حرمت متعہ پر کامل اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے بھی متعہ کو حرام مانا ہے۔ لیکن اضطرار کی ایک فرضی اور خیالی صورت تحریر فرما کر اسے جائز ٹھیرا دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنی راے پر نظر ثانی کریں گے۔یہ اہل سنت کا متفقہ مسئلہ ہے۔

جناب ازراہِ کرم درج ذیل احادیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حدیث نمبر۱:حضرت سبرہؓ کی روایت نکاح متعہ کے متعلق کہ ہم دو ساتھی بنی عامر کی کسی عورت کے پاس گئے اور اُسے اپنی خدمات پیش کیں ۔
حدیث نمبر۲: حضرت جابررضی اللّٰہ عنہ کی روایت کہ ہم نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں مٹھی بھر آٹا دے کر عورتوں کو استعمال کرلیتے تھے اور اس حرکت سے ہمیں حضرت عمرؓ نے روکا۔

بدکاروں کی باہمی مناکحت کا موزوں ہونا

میں نے ایک دوشیزہ کو لالچ دیا کہ میں اس سے شادی کروں گا۔پھر اس کے ساتھ خلاف اخلاق تعلقات رکھے۔میں نہایت دیانت داری سے اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کے خاندان کی عام عورتیں زانیہ اور بدکار ہیں ۔یہاں تک کہ اس کی ماں بھی۔ اب مجھے خوف ہے کہ اگر میں اس لڑکی سے شادی کرلوں تو وہ بھی بدچلن ثابت نہ ہو۔ ترجمان القرآن کے ذریعے سے مطلع کیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟