غیر مَحرم اعزّہ کے سامنےآنے کا مطلب
کیا غیر محرم اعزہ(مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہوں ) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائزہے تو کن مواقع کے لیے اور کن طریقوں کے ساتھ جائزہے؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
کیا غیر محرم اعزہ(مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہوں ) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائزہے تو کن مواقع کے لیے اور کن طریقوں کے ساتھ جائزہے؟
اگر گھروں میں جوان ملازم کام کاج کے لیے آئیں جائیں تو سن رسیدہ عورتوں کے لیے تو جو رخصت ہے وہ مجھے معلوم ہے، مگر جوان عورتیں کیا صرف یہ کہہ کر ان کے سامنے بے پرد ہ ہوسکتی ہیں کہ ہماری نیت پاک ہے؟
کیا عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے مشترکہ جلسوں میں نقاب اوڑھ کر تقریر کرنی جائز ہے؟حدیث کی رُو سے تو عورتوں کی آواز کا غیر محرم مردوں تک پہنچنا پسندیدہ نہیں معلوم ہوتا۔
احقر ایک مدت سے ذہنی اور قلبی طور پر آپ کی تحریک اقامت دین سے وابستہ ہے۔پردے کے مسئلے پر آپ کے افکار عالیہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔لیکن آخر میں آپ نے مروجہ برقع کو بھیdefend کیا ہے۔ اس کے متعلق دو ایک باتیں دل میں کھٹکتی ہیں ۔براہ مہربانی ان پر روشنی ڈال کر مشکور فرمائیں ۔
پردے کی غایت صنفی میلان کی انتشار پسندی کو روکنا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ میلان ہر دو اصناف میں پایاجاتا ہے(گو دونوں میں فرق کی نوعیت سے انکار نہیں )۔ اسی وجہ سے پردے کی اصل روح —غضِ بصر— کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ برقع کی ’’دیوار‘‘ کے پیچھے عورتوں کی بہت بڑی اکثریت’’ نگاہ کے زنا‘‘ کی مرتکب ہوتی رہتی ہے۔اس کی وجہ ان کا یہ اطمینان(satisfaction) ہوتا ہے کہ ہم تو مردوں کو دیکھ رہی ہیں لیکن مرد ہمیں نہیں دیکھ رہے،اور نہ ہماری اس’’نظارہ بازی‘‘کا علم ہی کسی کو ہے۔سو اس طرح کی خواتین میں جوہرِ حیا —صنف نازک کا اصل جوہر —بہت کم ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں برقع اوڑھ کر ایک اوسط معاشی وسائل کے کنبے کی عورتیں اپنے کام کاج بھی کماحقہ انجام نہیں دے سکتیں ۔سفر ہی کو لیجیے، گاڑیوں اور بسوں وغیرہ میں چڑھنا اور اُترنا برقع پوش عورت کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
پردہ —’’مکمل پردہ‘‘ — کی اہمیت ومعقولیت سے قطعاًانکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مروجہ برقع کے بجاے اور کوئی موزوں تر طریقہ استعمال ہو۔ مثال کے طور پر آج سے چند سال پیشتر تک دیہات کی شریف عورتیں خود کو ایک چادر میں مستور کرتی تھیں ۔ چادرمیں وہ یہ جرأت نہ کرسکتی تھیں کہ کسی مرد کو مسلسل دیکھیں اور ان کی آنکھوں میں شرم وحیا کا بہت اعلیٰ مظاہرہ ہوتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ برقع کی نسبت اُس چادر میں بہت اچھی طرح’’پردہ‘‘ ہوتا تھا۔
آپ کی مصروفیات کے علم کے باوجود آپ کو تکلیف دے رہا ہوں ۔
اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کرکے بیٹھ جائیں ۔
اوّل یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کاایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے،فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے، بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں ۔ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً ان پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو، سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو،وہ کیوں کر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہوسکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بےدار کردے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کرلے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی، کیوں کہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں ۔ امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔
آپ کا جواب ملا۔مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کام یاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا ،جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بندہوجائے،میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دین فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، ہمار ے مروّجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کے بجاے خوشی خوشی پورا کرنے کے لیے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کرلینے میں ہوتے ہیں ،وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کرلی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا،وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے،کسی سے محبت کرے،کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار،کردار اور دوسری خوبیوں کی بِنا پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا ہے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے)۔ اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کراد ی جائے اورپھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کرلینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ،ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر منگیترتلاش کرنا ممکن نہیں ۔ لڑکے کے با پ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتا چلا سکے،لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہِ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔کیوں کہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔(خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا)، بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سکینڈ دیکھ لینے سے کیا ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے،اب تو تمام علما نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کرسکتی ہیں ۔ یا تو اسلامی احکام کی پابند ی کریں یا علم حاصل کریں ۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے،ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کرسکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے،میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں ۔ اوّل تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پر ہوتی ہے،حیا کے اس احساس کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں ۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریۂ حیات کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی اُلجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟
میں آپ کی کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی۔ صفحہ ۱۸۲ تک مجھے آپ کی تمام باتوں سے اتفاق تھا۔ اس صفحے پر پہنچ کر میں نے آپ کی یہ عبارت دیکھی کہ ’’اگر عورتیں ضرورتاً گھر سے باہر نکلیں تو سادہ کپڑے پہن کر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانک کر نکلیں ، چہرہ اور ہاتھ اگر کھولنے کی شدید ضرورت نہ ہو تو ان کو بھی چھپائیں ۔‘‘ اور اس کے بعد دوسرے ہی صفحے پر یہ عبارت میری نظر سے گزری کہ ’’کوئی عورت چہرے اور ہاتھ کے سوا اپنے جسم کا کوئی حصہ (باستثناے شوہر) کسی کے سامنے نہ کھولے خواہ وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ مجھے اول تو آپ کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ دوسرے آپ کا پہلا بیان میرے نزدیک قرآن کی سورئہ النور آیت ۲۴ کے خلاف ہے اور اس حدیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جس میں نبی ﷺ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا تھا کہ لڑکی جب بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ہاتھ اور منہ کے سوا نظر نہ آنا چاہیے۔
کتاب کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’شریعت کے قوانین کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں اور نہ کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے لوگوں کے لیے ہیں ۔‘‘ مگر قرآن کو دیکھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ پردہ محض ایک رواجی چیز ہے اور اسے اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا آپ یہ مانیں گے کہ آپ نے اسلامی قانون کی غلط تعبیر کرکے بہت سے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کا سامان کیا ہے؟ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا اسلام اس طرح پیش کیا جائے جس سے اس زمانے کے نوجوان اس کو قبول کرنے سے بھاگیں ۔ اسلام کی عائد کردہ قیود سے بڑھ کر اپنی طرف سے کچھ قیود عائد کرنے کا کسی کو کیا حق ہے؟
(یہ ایک مسلمان خاتون کے انگریزی خط کا ترجمہ ہے جو امریکا سے آیا تھا)
کیا شرعی لحاظ سے خِطبہ] منگنی[ نکاح کا حکم رکھتا ہے؟عوام اس کو ایجاب وقبول کا درجہ دیتے ہیں ۔اگر لڑکی کے والدین ٹھیری ہوئی بات کو رد کردیں تو برادری میں ان کا مقاطعہ تک ہوجاتا ہے۔اس صورت میں اگر والدین اس لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کردیں تو کیا یہ فعل درست ہوگا؟
عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو، چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں ۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثہ بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شاد ی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں ، تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے؟