تدوین قانون میں اکثریت کے فقہی مسلک کا لحاظ
آپ نے غالباًکہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہوگی،قوانین انھی کے فیصلوں کے مطابق بناے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاًپاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لا کی گنجائش رکھی جائے گی۔اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو ائمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کے بجاے محض کتاب وسنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی انھی کو قانونی جواز حاصل ہو جائے گا؟پہلی صورت میں قوا نین کا ماخذ کتاب وسنت کے بجاے فقہاے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب وسنت ہی ٹھیرے گا۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر ونظر اور مسلکی عصبیت وحمیت دخیل نہ ہوگی۔اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہاے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔صرف چند اُلجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں ،اُن کا حل مطلوب ہے۔