مفتی حضرات سے بغرض دعوت ِ تحقیق خط کتابت

اقامت دین کی تحریک حسب معمول قدیم نئے فتنوں سے دوچار ہورہی ہے۔ فتویٰ بازی۱ور الزام تراشی جس طبقے کا مخصوص شعار تھا،وہ تو اپنا ترکش خالی کرکے ناکام ہوچکا ہے۔اب اصحاب غرض نے ہمارے سلسلۂ دیوبند کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں کی جماعتِ اسلامی نے کچھ تنقید وتبلیغ میں بے اعتدالی سے کام لیا ہو اور اس کا ردعمل ہو۔وہاں کے استفتا کے جواب میں بھی اور یہاں پاکستان کے استفتائوں کے جواب میں بھی مستند ومحتاط حضرات کے فتاویٰ شائع ہونے شروع ہوگئے ہیں ۔پاکستان میں اہل علم کا بہت زیادہ طبقہ دیو بند سے وابستہ ہے اور وہاں کے فتوے سے اثرپذیر ہونا بھی لازمی ہے، جس کا اثر بدتحریک پر بھی پڑسکتا ہے۔لہٰذا آپ ضرور مناسب طریقے سے اس کی مدافعت کیجیے۔
۳۲ صفحے کا ایک فتویٰ دارالافتائ سہارن پور کا شائع ہوا ہے جس کے آخر میں مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہان پوری اور مولانا اعزاز علی صاحب کا فتویٰ بھی ہے۔رسالۂ دارالعلوم کا جو پہلا نمبرنکلاہے،اس میں حضرت مولانا گنگوہی کے پوتے حکیم محمودصاحب کا ایک طویل مکتوب ہے۔اگرچہ انھوں نے تونہایت محتاط طریقے سے اور متانت کے رنگ میں لکھا ہے،اور میرے خیال میں انداز تعبیر سنجیدہ ہے۔لیکن بہرحال انھوں نے بھی تحریک کوعوام کے لیے دینی لحاظ سے مضر بتایا ہے۔اثر انگیز ہونے کے لحاظ سے جوشیلے اور غیر معتدلانہ فتووں سے یہ زیادہ بُرا ہوتا ہے۔کل مجھے بٹالہ کے ایک بزر گ کا ضلع …سے خط آیا ہے جن کا حضرت گنگوہی سے تعلق تھا اور اس کے بعد سے دوسرے تمام بزرگانِ دیو بند سے تعلق رہا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ابھی مجھے حضرت… کا خط سہارن پور سے آیا ہے اور انھوں نے تحقیق حال کے طور پر پوچھا ہے کہ ایک واقعہ مجھے صحیح طورپر معلوم کرکے لکھو۔‘‘ پاکستان سے برابر خط آرہے ہیں کہ مولانا مودودی حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت مولانا نانوتوی کا نام لے لے کر ان کی مخالفت میں تقریریں کرتا رہا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کے ساتھ مناسبت ہی نہ تھی، اور خاص طورسے سرگودھاکی تقریروں کا حوالہ دیا ہے کہ وہاں نام لے کر یہ مخالفت کی گئی۔ بٹالوی بزرگ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ صحیح واقعہ کیا ہے۔ میں نے انھیں جواب دے کر تردید کردی ہے کہ یہ محض افترا ہے اور خود سہارن پور بھی حضرت… کو خط لکھ دیا ہے۔ تاہم آپ خود بھی ان الزامات کی تردید کریں ۔ جواب در جواب کا سلسلہ بھی غلط ہے اور سکوت محض سے بھی لوگوں کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں ۔اس طرح اصل مقصد یعنی تحریک اقامت دین کو نقصان پہنچتا ہے۔علی الخصوص حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت مولانا محمدطیب صاحب،حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب،حضرت مولانا احمد سعید صاحب،حضرت مولانا محمد زکریا صاحب، حضرت مولانا حافظ عبداللطیف صاحب سے خط وکتابت کرکے انھیں مشورہ دیں کہ اگر میرے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی استفتا آپ کے سامنے آئے تو جواب دینے سے پہلے آپ مجھ سے اصل حقیقت معلوم کرلیا کریں ۔

حضرت مسیح اورامامِ مہدی ؉ کا انکار

مسیح؈ کی حیات ووفات کے متعلق آپ اپنا عقیدہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ظاہر کریں ۔ اسی طرح نزول وصعود کے متعلق ہمیں آپ کی تحریروں سے شبہہ پڑتا ہے کہ مسیح؈ اور مہدی ؑ کے آپ منکر ہیں ؟

جدید تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تدریس اور نصاب

میں مدرسۂ مظاہر العلوم کا فارغ التحصیل ہوں ۔میرا عقیدہ علماے دیو بند و مظاہر العلوم سے وابستہ ہے مگر ساتھ ساتھ اپنے اندر کافی وسعت رکھتا ہوں ۔جہاں مجھے بھلائی معلوم ہوجائے،وہاں حتی الامکان اس میں حصہ لینے کا رُجحان رکھتا ہوں ۔ اسی وجہ سے جماعتِ اسلامی کے ساتھ قلبی ربط رکھتا ہوں ۔ اخبار ’’کوثر‘‘ اور لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔مولانا ابواللیث کی زندگی کو قریب سے دیکھ چکا ہوں ۔علماے دیو بند اور آپ کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس کا بھی مجھے علم ہے اور اس کی وجہ سے میری طبیعت پریشان ہے۔میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے وہ شمارے پڑھے ہیں جن میں حکیم گنگوہی صاحب کے اعتراضات کے جوابات آپ نے بہ نفس نفیس اور مولانا امین احسن صاحب نے دیے ہیں ۔انھیں پڑھتے ہی میں نے حضرت استاذ مفتی… کی خدمت میں جوابی لفافہ بھیجتے ہوئے لکھا کہ میری نظر میں ایک یہی جماعتِ اسلامی موجودہ وقت میں حزب اﷲ معلوم ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کام کروں ۔مگر ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ آپ حضرات کو اس جماعت سے شدید اختلاف ہے۔لہٰذا آپ مولانا مودودی کے وہ خیالات ان کی کتابوں سے نقل فرمائیں جو اہل سنت والجماعت کے خلاف ہوں ۔چنانچہ انھوں نے ’’کشف الحقیقۃ‘‘نامی رسالہ بھیج دیا۔ میں اس کا مطالعہ کرچکا ہوں ۔
اس رسالے میں چند ایسی عبارات درج ہیں جن کے متعلق مجھے بھی اشتباہ ہوا۔چنانچہ میں نے تنقیحات حاصل کی اور اس میں وہ عبارات مل گئیں جو مفتی صاحب نے نقل کی تھیں ۔اب میں ان عبارات کے متعلق آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کی ان سے مراد کیا ہے۔ آپ کسی نہ کسی طرح وقت نکا ل کر جواب دیں تاکہ میرے اورمیرے دو تین رفقا کے شکو ک رفع ہوسکیں ۔ اس وقت تنقیحات میرے سامنے موجود ہے اور قابل غور عبارات یہ ہیں :
(۱) ’’قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں ۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے بنظر غائر مطالعہ کیا ہو۔‘‘(صفحہ۲۱۲) ساری عبارت نقل کرنے کی ضرورت نہیں ۔ واضح فرمایے کہ اس عبارت کا مطلب کیا ہے؟نفی تفسیر سے کون سی تفسیر کی نفی مراد ہے!کیا اس تفسیر کی نفی مراد ہے جو اسرائیلیات پر مشتمل ہو؟ یا موضوع حدیث سے کسی آیت کی تفسیر کی گئی ہو؟ اورپروفیسر کو غائر مطالعہ کیا بغیر احادیث وآثار صحابہ و تابعین کے حاصل ہوسکتا ہے تو تفسیر کی حاجت کیوں نہیں ؟
(۲) ’’قرآن اور سنت رسولؐ کی تعلیم سب پر مقدم ہے مگر تفسیروحدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں ۔‘‘(صفحہ۱۲۹) اس عبارت کو خواہ ماقبل وما بعد سے ملایا جائے یا قطع وبرید کرکے الگ کرلیا جائے،بظاہر اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم واحادیث نبویہﷺ کی تعلیم مفسرین و محدثین حضرات کی تعلیم سے نہ لی جائے، بلکہ براہ راست ان سے مطالب اخذکیے جائیں ۔اگر یہ مطلب ہے توآپ کو معلوم ہے کہ صحابۂ کرام کو بھی براہِ راست اخذ مطالب کی اجازت نہ تھی،بلکہ وہ بھی محتاج تفسیر رسولﷺ تھے۔ بعض صحابہؓ نے بعض سے آیات کے مطالب سیکھ لیے۔ توپھر آج کس طرح بغیر تفسیر مفسرین متقدمین قرآن حکیم کے مطالب اخذ کیے جاسکتے ہیں ؟ اس مقام پر اگرچہ آپ نے یونی ورسٹی کو مخاطب کیا ہے، مگر ان کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ قرآن وسنت رسولﷺ کی تعلیم کو لازم قرار دے کر ان کے مطالب بغیر تفسیر وحدیث کے متقدم ذخیروں کے اخذکریں ۔ کیا بچہ بغیر والدین کے خود بخود بولی سیکھ سکتا ہے؟ بہرکیف اگر یہ مطلب ہو جو بظاہر صاف معلوم ہوتا ہے تو بجاے اصلاح کے بہت نقصان دہ ہے۔

ترویجِ فقہ اور اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش

آپ نے تنقیحات میں لکھا ہے کہ ’’وہ ابھی تک اصرار کررہے تھے کہ ترکی قوم میں وہی فقہی قوانین نافذ کیے جائیں جو شامی اور کنز الدقائق میں لکھے ہوئے ہیں ۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے کہ شامی وغیرہ کتب فقہ میں اسلامی قوانین نہیں لکھے ہوئے؟کیا وہ فقہاے اسلام کے خود ساختہ قوانین ہیں جوکہ قرآن وحدیث کے مخالف ہیں ؟ بہرکیف اس کے متعلق آپ کی راے کیا ہے؟ان کتابوں میں یقیناً بعض ایسے مسائل ہیں جو مرجوح ہیں ، مگر ان سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان میں سارے مسائل قوانین اسلام کے خلا ف ہیں ۔ کیا ان میں جزئیات کے علاوہ مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد وغیرہ کا ذکر بسیط نہیں ہے؟اگر ہے تو ان میں کیا کمی ہے۔
اُمید ہے کہ تکلیف فرما کر ہمیں اطمینا ن دلائیں گے۔

فرضی قیاس آرائی

پنچایتی نظام اگرکسی جماعت کے امیر کو’’صالح‘‘نمائندہ تجویز نہیں کرسکتا تو اس جماعت کے افراد کیوں کرصالح قرار دیے جاسکتے ہیں ؟

تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون

ایک بات عرصے سے میرے ذہن میں گشت کررہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ میں اﷲ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم ا ور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کردے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے،جن کے قلب ودماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے،اُمت کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے، تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں ،تعمیری انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے، اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یک جائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا گو ہیں ۔
جس بات کو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی اورالجھی ہوئی ہے اور مجھ جیسے کم صلاحیت انسان کے لیے یہ ہرگز زیبا نہیں کہ ایسے اہم معاملے پر قلم اٹھائے۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت کے بھروسے پر ہم نے یہ مخاطبت شروع کی ہے۔ شاید کہ وہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کردے۔
آپ نے اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ یہ کام ہم نے اﷲ کے لیے اور اﷲ کے ہی بھروسے پر شروع کیا ہے،اگر مجھ سے غلطی ہورہی ہے تو وہ میری اصلاح کردے۔ نیز آپ نے اس طرح کے اختلاف پر بھی فراخ دلی کے ساتھ غور وخوض کرنے کا علی الاعلان اطمینان دلایا ہے جو حق پسندی اور نیک نیتی پر مبنی ہو،اور ہم اس بات پر پوری طرح مطمئن ہیں کہ آپ نے واقعتاً ایسے مواقع پر کسی طرح کی تنگ دلی کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔
آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ میں نے دین کا ابتدائی شعور تبلیغی جماعت سے حاصل کیا۔اب تک میرا تعلق اس جماعت سے قائم ہے۔اﷲ اس کو قائم رکھے اور اس سے زیادہ کی توفیق عطا فرمائے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میرا گہرا ربط جماعت اسلامی سے بھی پیدا ہوچکا ہے اور اب میرا زیادہ وقت اسی جماعت کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ میں فخر نہیں کرتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اب ایک زندہ جماعت ہے اور دین دار طبقے کی نگاہ بھی اب اس طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ لیکن جو بات کہ میرے نزدیک انتہائی افسوس ناک ہے،وہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی کشاکش ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے تبلیغی احباب سے جو اس حلقے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، گفتگو کی اور بالکل بے تکلفانہ یہ اعتراض کیا کہ آپ غیر مسلموں کے قبول اسلام اور ہدایت کے لیے دعا کرسکتے ہیں لیکن آپ کے دل میں وسعت نہیں ہے تو صرف جماعت اسلامی کے لیے۔آپ ایک فاسق وفاجر مسلمان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لیے ہرطرح کی محنت کرسکتے ہیں اور مشقت اٹھا سکتے ہیں ۔ان کی ہر بداخلاقی اور ٹھوکر کو برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن جماعت اسلامی جو آپ کی نگاہ میں گمراہ ہے ،وہ قابل توجہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت آپ کے نزدیک ہے۔ ان سے ملنا، ان کی باتوں کو سننا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کو سمجھنا بھی آپ کے نزدیک گمراہی کو دعوت دینا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے احباب کی حالت بھی اس لحاظ سے ان سے کچھ بہترنہیں ہے۔ہم اپنے تجربے کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی لوگوں کو دیکھ کر ان میں ایک حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم نے ہر چند ان سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت دین ہی کی تبلیغ تو کرتی ہے، کوئی بددینی تو نہیں پھیلاتی،اگرصرف کلمہ اور نماز کی ہی حد تک مان لیا جائے تو کیا یہ دین کی تبلیغ نہیں ہے؟کیا یہ بنیادی چیز نہیں ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ علم وعمل کے کسی مقام پر ہو،زندہ نہیں رہ سکتا؟ کیا ان کی شب وروز کی محنتیں خالصتاً لوجہ اﷲ نہیں ہیں ۔ ہم نے مانا کہ ان کے دماغ میں وہ وسعت نہیں ہے، لیکن ایک کمزور اور نحیف شخص کی کمزور سی محنت جو دین کے لیے ہو، کیا یہ اﷲ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے؟میں تو کہتا ہوں کہ ایک سادہ لوح انسان جو اپنی تمام بے وقوفیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اﷲ کی رضا کے لیے اس کے دین کی سربلندی کی کوشش کرے،وہ شاید اس اعتبار سے بڑھ جائے گی کہ اس میں آمیزش کا امکان نہیں ہے۔بخلاف اس کے ایک ذی علم اور باصلاحیت انسان کے اس توشۂ معاد میں آمیزش کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس کو اپنے علم وعمل وحکمت پر تکبر آسکتا ہے۔
بہرحال یہ بات تو اپنے اپنے لیے ہوئی۔جہاں تک دینی مفاد کا تعلق ہے، نہ معلوم میرا یہ خیال کس حد تک صحیح ہے کہ ایسے ہی لوگ اگران کے ذہن میں اسلامی نظام کی اہمیت پیدا ہوجائے تو میرے لیے ممد ہوسکتے ہیں ۔ ایسا مخلص گروہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی ہوس نہ کرے بلکہ جو کچھ سوچے سمجھے اور چاہے وہ صرف آخرت کے لیے، اس سے زیادہ مفید انسان بنے بناے اور کہاں مل سکتے ہیں ۔ہم اس پر اصرار تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے علم وفہم کی حد تک اس خیال کو بہت قریب پاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا قیام ایسے ہی لوگوں پر تھا۔
میری اس مخاطبت کااصل مدعا یہ ہے کہ اگر ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کو بڑھ کر اپنا لینے کی کوشش کریں تو یہ کس حد تک ممکن العمل او رموجب خیر ہوگا؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ ایک جماعت دوسرے میں ضم ہوجائے۔نہیں بلکہ جو جس طور پر کام کررہا ہے،کرتا جائے۔اپنے اپنے حدود میں رہتے ہوئے ہم ان کے ہم درد ہوجائیں اور وہ ہمارے لیے دعا گو بن جائیں ۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان سے اختلاف کامٹ جانا ہی بہت بڑی چیز ہے۔

تبلیغی جماعت سے ایک دوستانہ شکایت

پچھلے دنوں سکھر میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑ اجلسہ منعقد ہوا تھا، جس میں ہندستان و پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر جناب مولانا محمدیوسف صاحب(صاحب زادہ و جاےنشین مولانا محمد الیاس صاحب مرحوم) خو د تشریف لائے تھے۔جماعتِ اسلامی سکھر نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر جلسہ گاہ کے حدود میں اپنا ایک بک اسٹال لگائے۔چنانچہ منتظمین سے مل کر انھوں نے دریافت کیا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کے ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ اس میں اعتراض کی کون سی وجہ ہوسکتی ہے،آپ شوق سے اپنا مکتبہ لگائیں ۔اس کے بعد ان سے اسٹال کے لیے جگہ بھی طے ہوگئی۔مگر دوسرے روز شام کو جب فضل مبین صاحب امیر جماعتِ اسلامی سکھر نے وہاں جاکر اسٹال لگوانے کا انتظام شروع کیا تو انھیں یکایک منع کردیا گیا۔وجہ پوچھی گئی تو ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ’’ہماری مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ آپ کو مکتبہ لگانے کی اجازت دیں گے اور نہ آپ سے کسی قسم کا دوسرا تعاون لیں گے۔اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ایک سیا سی جماعت ہیں ۔‘‘اس جواب اور اس طرز عمل پر جو تعجب ہوا،اس پر مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ وہاں دوسرے متعدد بک اسٹال موجود تھے اور اس پر ان حضرات کو کوئی اعتراض نہ تھا، مگر جماعتِ اسلامی کے متعلق ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی جلسہ گاہ سے ایک میل تک بھی اس کا مکتبہ نظر نہ آئے۔
اس پر۱۱ ؍اپریل۱۹۴۵ئ کو ڈاکٹر سلیم الدین صاحب امیر جماعتِ اسلامی حلقۂ بالائی سندھ، فضل مبین صاحب امیر جماعت شہر سکھر،اور مولوی قربان علی صاحب رکن جماعت، مولانا محمدیوسف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ ’’اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت مقصد میں متحد ہیں اورصرف طریق کار میں فرق ہے۔ لیکن یہ سلوک جو ہمارے ساتھ کیا گیا ہے،یہ اس باہمی اخلاص اور تعاون کو نقصان پہنچانے والا ہے جو دین کی خدمت کرنے والی ان دو جماعتوں کے درمیان اب تک رہا ہے اور ہمیشہ رہنا چاہیے،کیا آپ واقعی ہمیں ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں ؟‘‘اس پر حضرت جی( مولانا محمد یوسف صاحب اسی نام سے یاد کیے جاتے ہیں ) نے فرمایا:’’میں اس مکتبے وغیرہ کے سخت خلاف ہوں ، اور یہ لوگوں نے طریقہ بنالیا ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے حاصل کرنے کے لیے کتابیں لکھتے ہیں ۔ اسی علم نے خرابیاں پیدا کی ہیں ۔فساد کی جڑ یہی ہے۔ میں کتابیں لکھنے، اخبار چھاپنے اور اسی قسم کی چیزیں کرنے کا سخت مخالف ہوں ۔اصل میں انھی چیزوں نے مسلمانوں کو بے عمل کردیا ہے اور یہ چیزیں مجاہدے کا بدل نہیں ہوسکتیں ۔‘‘
یہ ارشاد سن کر ہمیں دو گونہ حیرت ہوئی۔ ایک اس بنا پر کہ حضرت جی اگر مکتبے وغیرہ کے ایسے ہی سخت خلاف تھے تو جماعتِ اسلامی کے سوا دوسرے مکتبے جلسہ گاہ میں کیوں برداشت کیے گئے؟دوسرے اس بِنا پر کہ کتابوں اور رسائل کی اشاعت اور قیمتاً ان کو فروخت کرنے کا گناہ تو دیوبند اور سہارن پور اور تھانہ بھون کے بزرگ بھی کرتے رہے ہیں ،بلکہ خود تبلیغی جماعت کے بھی متعدد نام ور بزرگوں سے اس کا صدور ہوا ہے۔پھر یہ کیا بات ہے کہ وہ یہی کام کریں تو خدمت دین، اور دوسرے کریں تو صرف پیسے بٹورتے ہیں ؟پھر’’اکرامِ مسلم‘‘ کا بھی یہ عجیب تصور ہمارے لیے باعث حیرت تھا کہ فسق کے علم برداروں کے خلاف زبان کھولنا تو اکرام مسلم کے خلاف ہو،مگر ایک دینی خدمت کرنے والی جماعت کے کام اور مقصد کا کھلم کھلا استخفاف کرنا اور اس کی نیت تک پر حملہ کرنا عین اکرامِ مسلم ہو۔
اس کے بعد حضرت جی نے فرمایا: ’’آپ تو حکومت کے طالب ہیں ۔آپ اس چیز کے طالب ہیں جو مردود ہے۔ حضور رسولِ مقبولﷺ کو نبوت حکومت پیش کی گئی،مگر آپؐنے اس کو رد کردیا،ٹھکرا دیا اور نبوت عبدیت قبول کی۔آپ کا یہ خیال کہ حکومت وبادشاہت میں تبدیلی ہوجائے تو اسلام زندہ ہوجائے گا،بالکل غلط ہے۔‘‘
حاضرین میں سے ایک صاحب کے اس سوال پر کہ[أیُّ الْجِھَادِ أَفْضَلُ قَالَ] كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ({ FR 1037 }) کے کیا معنی ہیں ، حضرت نے فرمایا: ’’یہ اس وقت کے لیے ہے جب پورا معاشرہ درست ہو اور صرف حکومت میں خرابی نظر آتی ہو۔ اس وقت کلمۂ حق کہنا درست ہے، تاکہ جو خرابی ابھی صر ف حکومت تک محدود ہے،وہ آگے نہ بڑھنے پائے۔اس وقت یہ موقع نہیں ہے۔‘‘
دورانِ گفتگو میں حضرت جی نے یہ بھی فرمایا کہ’’اس وقت جو لوگ برسرِ اقتدار ہیں ،وہ تم سے بہتر ہیں ۔ایمان میں ،افعال میں ، تدبیر میں اور قابلیت میں وہ آپ سے بہتر ہیں ۔آپ ان کے بجاے کون سے لوگ لائیں گے؟‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اس جماعت کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یہ سوال اس لیے کیا جارہا ہے کہ اگر دو چار جگہ اور اسی طرح کے تلخ تجربات ہوئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اکرام واخلاص اور ہم دردی کا جو تعلق اب تک رہا ہے،اس میں فرق واقع ہوجائے۔لہٰذا اس باب میں جماعت کے کارکنوں کو واضح ہدایات مل جانی چاہییں ۔

جماعت اسلامی کے ممبروں اور ہم دردوں کے سوا ہندستان کے عام مسلمان جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور جو آپ کی اصطلاح میں محض نسلی مسلمان ہیں ،وہ شرعی اعتبار سے دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے خارج؟

کیا آپ ارکانِ جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ؟