مآخذ قانون کی تفصیل
متذکرہ بالا چار مآخذ کے علاوہ اور کون سی چیزیں ماخذ قانون ہیں ؟ کیا علّت، دوسرے ممالک کے رواج، عرف، عادت، تعامل، سنن القبل] شرع ما قبلنا[، عموم بلویٰ، صاحب امر کی ہدایات، معاہدات وغیرہ کو مآخذ قانون بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ فقہا نے ان تمام کو مآخذ قانون کی فہرست میں تو نہیں لکھا لیکن دوران بحث میں ان تمام کاتذکرہ مآخذ قانون کی حیثیت سے کیا ہے، اور خلفاے راشدین کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاًحضرت عمرؓ نے زراعت ومالیاتی قانون میں شامی،مصری اور ایرانی قانون کی پیروی کی،رجسٹر اور حسابات رکھنے کے طریقے ان سے اخذ کیے، غیر اسلامی حکومتوں کے تاجروں پر اتنا محصول عائد کیا جتنا کہ ان کی حکومتیں مسلمان تاجروں پر عائد کیا کرتی تھیں … تو کیا اس سے یہ اُصول مستنبط نہیں ہوتا کہ قرآن وحدیث کی مقرر کردہ حدود کے اندر دوسرے ممالک کے قانون سے استفادہ،اور نہ صرف استفادہ بلکہ اس کو بعینہٖ اخذ کیا جاسکتا ہے؟حضرت عمرؓ کا عمل تو کم ازکم یہی ثابت کرتا ہے۔ آج اگر اسلامی حکومت وجود میں آئے تو کیا وہ مغربی ممالک کی سیاسی،معاشرتی،ادبی، اقتصادی اور سائنٹی فِک ترقیات کو نظر انداز کرکے نئے سرے سے اپنی عمارت کی بنیاد نہ رکھے گی،محض اس غلط تصور اور تعصب کی بنا پر کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے،وہ غلط ہے؟کیایہ تصور بالکل اسی طرح غلط نہیں کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے، وہی صحیح ہے؟اگر یہ ایک انتہا ہے تو وہ دوسری انتہا ہے۔پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مغرب کی جو باتیں شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں ،ان کو بعینہٖ یا ان میں ادل بدل کرکے لے لیا جائے۔