دستور کو اسلامیانے میں مشکلات اور ان کا تجزیہ

اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں ، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کررہی ہے،اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کررکھا ہے، اور اسی وابستگی کے جذبے کے تحت اپنی ناقص آرا پیش کررہا ہوں ۔
پاکستان میں دستور وانتخاب کا مسئلہ از سر نو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ وفیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے،اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔کتاب وسنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراونفاذ بھی موجودہ دستو رکی رو سے لیجس لیچر او رصدر مملکت کی منظور ی کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آرا کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں ،سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جو اسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں ، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہوجائیں ، اور بہت سے وہ کام جنھیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا،مباحات کی فہرست میں داخل کردیے جائیں ۔ موجودہ دستور نے قرآ ن وسنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آرا کی منظوری وتعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضا مندی اور دستخطوں کا پابند بنادیا ہے، اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح وتوضیح کا محتاج بنادیا ہے۔حالاں کہ پورے دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارت،ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم وتقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے، کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔
ان معروضات میں اگر کوئی وزن اور حقیقت محسوس فرمائی جائے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اسے صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے دل آپ کی حمایت واعانت کے لیے کھول دے۔

تدریج کی حکمتِ عملی

آپ نے اپنے مکتوب کے دوسرے پیراگراف کے آخری حصے میں تحریر فرمایا ہے کہ’’ہمیں اپنے آخری مقصود کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں ، تاکہ ان میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں ۔‘‘ دراصل یہ ایک سخت مغالطہ ہے جو بہت سی تحریکات کو، بالخصوص مسلمانوں کی بیش تر جماعتوں کو پیش آتا رہا اور وہ کسی قریب الحصول مقصد میں ایسے ڈوبے کہ: ع
دریں ورطہ کشی فروشد ہزار! کہ پیدا نہ شد تختۂ برکنار({ FR 967 })
کا مصداق بن کر رہ گئے۔ حالاں کہ درمیانی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل ہے تو محض ایک ذریعہ ہونے کی۔اگرچہ آپ کا یہ اہتمام قابل ستائش ہے کہ ’’آخری مقصود نگاہوں سے اوجھل نہ رہے‘‘ لیکن میرے نزدیک درمیانی چیزوں کو قریب الحصول مقصد کا درجہ دینا ہی خطرے سے خالی نہیں ۔ ان کی حیثیت محض ذریعے کی رہنی چاہیے،مقصد کی حیثیت سے ان پر ہرگز زور نہ دینا چاہیے۔
آئیڈیل ازم اور حکمت عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا صحیح طریقہ جماعت کے مقصد اورطریق کار میں یکسانیت وہمواریت کا برقرار رہنا ہے۔نیز مقصد اور طریق کار کے درمیان ایسا ربط قائم رکھنا ہے جو ہر معاملے پر راستے کے ہرموڑ کو منزل کی طرف پھیر دینے والا ہو،موجودہ دور کے ذہنی انتشار اور پراگندگی افکار پر غالب آنے کے لیے سب سے بڑی دانائی اور حکمت عملی یہ ہی ہے کہ مقصد کی ہمہ گیری کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔
لادینی دستور کی موجودگی میں ہماری جنگ ایک کھلے دشمن کے ساتھ تھی۔فرعون اور ابولہب کی ذہنیتوں سے مقابلہ درپیش تھا۔ آہن وسیف اور خار وآتش سے گزرنے والا وہ راستہ اگرچہ خوف ناک ضرور تھا مگر فریب ناک نہیں تھا۔ لیکن ایک نیم دینی دستو رکی موجودگی میں ہمارا سابقہ منافقانہ ذہنیتوں سے پڑ جاتا ہے۔جس طرح حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو پیش آیا تھا۔ پھر نیم ملا ّ خطرۂ ایمان کی مشہور کہاوت سے بھی آپ بے خبر نہیں ہوں گے۔میرے نزدیک جہاں ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دینا بڑی کامیابی ہے ،وہاں ریاست کا نیم دینی ریاست بن کر رہ جانا بھی ایک بہت بڑے خطرے کا آغاز ہوسکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے لیے بھی بہت سے داخلی فتنے پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے اس صورت حال کا جلد سے جلد تدارک کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ دستور کا نام اسلامی دستورہونا برعکس نہند نام زنگی کافور کا مصداق ہوجائے گا، اور دستور کا یہ اعلان کہ کوئی قانون، کتاب وسنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا،۱۸۵۷ء کے ملکۂ وکٹوریہ کے مشہور اعلان کی طرح کامحض کاغذی محضر بن کررہ جائے گا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مذہبی معاملات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔‘‘

اقامتِ دین کے لیے سعی ،نظریت او ر عملیت میں توازن

اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر دے کہ آپ نے میری معروضات پر توجہ فرمائی اور انھیں قابل التفات سمجھا۔آپ کے حوصلہ افزا جواب کے بعد ا س سلسلے میں چند اور گزارشات آپ تک پہنچادینا ضروری سمجھتا ہوں ، اسے خدا نخواستہ تحریری مباحثہ نہ تصور فرما لیا جائے،بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے افکار پریشاں ہیں جو سال ہا سال سے مسلمانو ں کی سیاست اور عالمی پیچیدگیوں کاطالب علمانہ مطالعہ کرتا چلا آرہا ہے، اور اس بات کو اپنا ایمان ویقین تصور کرتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا دنیا وآخرت میں واحد ذریعۂ نجات ہے۔
اگر انتخابات سے ہمارا آخری مقصود یہ ہی ہے کہ موجودہ نیم دینی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے اور دستورکے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جا سکے، تو اس کے لیے پہلا اور زیادہ بہتر طریقہ یہی تھا کہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے، اہل تقویٰ اور اہل بصیرت، مسلمانوں پر مشتمل، لیجس لیچر کا قیام عمل میں لایا جائے اور براہِ راست اس کے لیے جدوجہد کی جاتی رہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں اس براہِ راست کوشش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے جب کہ ملک بھر میں مختلف ومتضاد طبقے، دستور کے نام پر اسلام کی عجیب وجدید تعبیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن جماعت کے اہل الراے حضرات کی اکثریت اگر اسے مناسب نہیں سمجھتی ہے،تو پھر جداگانہ اور مخلوط طریق انتخاب کے درمیان پوری توجہ کے ساتھ تمیز کی جانی چاہیے کہ کون سا طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیاد ہ آسان اور اقرب الی الصواب ہے۔
فی الحقیقت،جب تک خدا کی حاکمیت کو واضح طور پر نہ تسلیم کیا جائے، کتاب وسنت کو مثبت طور پر قانون سازی کا ماخذ اور دستور پر بالا دست نہ مان لیا جائے، کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ واہل بصیرت ارکان پر مشتمل لیجس لیچر کا قیام عمل میں نہ آجائے اور کتاب وسنت کی تعبیر وتوضیح کا حق اصول سلف کے مطابق،ماہرین علوم اسلامیہ وحاملین شریعت کے لیے خاص نہ کردیا جائے، اس وقت تک ذرا سی غفلت سے موجودہ دستور کو غیر اسلامی مقاصد کے لیے بڑی آسانی اور آزادی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر ان مردود مقاصد کو اسلامی مقاصد کی حیثیت سے عام کیا جاسکتا ہے۔

جماعت اسلامی کے افرادکی اصلاح کی کوشش

میرے قریبی حلقوں میں جماعت کے کارکن حضرات،جن کے اخلاص،دیانت اور سرگرمی کامیں دل سے قدر داں ہوں اور جن کے احترام سے میرا قلب ہر وقت معمور رہتا ہے ،وہ اپنے عام اجتماعات میں نہ تو دستور کے ناقص پہلوؤں پر عوام کو توجہ دلاتے ہیں اور نہ مسئلۂ انتخاب کے سلسلے میں خالص اسلامی مجلس شوریٰ کا نظریہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور کامل اسلامی دستور بن چکا ہے، صرف جداگانہ انتخاب کی ایک آخری اسلامی مہم باقی ہے۔پھر عوام سے ربط بڑھانے کا طریقہ بھی تنقیدی اور منفی ڈھنگ کا ہوتا ہے جس سے خواہ مخواہ مقامی، شخصی اور جزوی اختلافات کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔جماعتی عصبیت میں اتنے کلیت پسند بن جاتے ہیں کہ بعض سیاسی ومذہبی امور پر جزوی وفروعی اختلاف کو بھی جماعت سے ذاتی یا گروہی عناد کا درجہ دے دیتے ہیں ، اور اس ملک کی گزشتہ سیاسی ومذہبی تاریخ سے شاید پوری طرح واقف نہ ہونے کی بِنا پر یا جماعتی غلو کے غیر شعوری جذبے کی بِنا پر موجودہ حالات کو گزشتہ معاملات سے اس طرح کڑی در کڑی ملاتے ہیں کہ پیش روئوں کے کاموں کی اکثر غلط ترجمانی ہوتی ہے اور اسلاف کی بصیرت اسلامی اور خلوص مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔اگرچہ اس بارے میں جماعت کے بعض اہل قلم اور آپ سے بھی کم وبیش شکایت ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے قریبی کارکن اور معزز ارکان جماعت تو اس بارے میں بجاے خود بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور اس وقت اور اس ماحول کے معیار پر گزشتہ معاملات کو قیاس کرنے کے عادی سے بن گئے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سے کام کیاجائے اور مقصد سے نیچے نہ آیا جائے۔بایں ہمہ موجودہ سوسائٹی میں مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز اور قابل احترام ہیں ۔اﷲ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کی صحیح صحیح خدمت لینے کے قابل بناے۔

انقلاب کا راستہ،زبانی تبلیغ یا عملی اقدام

تحریک اسلامی سے مجھے بہت دل چسپی ہے مگر چند روز سے ایک اہم اعتراض دماغ میں چکر لگا رہا ہے،جسے آپ کے سامنے رکھ کر راہ نمائی چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان موجودہ طاغوتی نظام سے بالکل علیحدگی اختیار کرلیں تو ان کی حیثیت ہندستان میں غلام یا اچھوت کی سی رہ جائے گی۔پس کیایہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ جیسے اعلیٰ دماغ حضرات مسلمانوں کو اس نظام سے فائدہ اُٹھانے کی گنجائش دے کر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہیں ، تا آں کہ پوری مسلمان قوم کی ذہنیت ایک ہی طرزِ فکر کی حامل ہوجائے اور پھر موقع آنے پر وہ یک دم نظامِ حق کے لیے اُٹھ کھڑی ہو۔
اگر تمام مسلمان آپ کی تحریک اسلامی کے ساتھ ہوگئے ہوتے تب تو طاغوتی نظام میں جذب ہوئے بغیر کام یابی کا امکان تھا،مگر اب جب کہ مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کے نام سے بھی واقف نہیں اور علما جن کا فرض ہی احیاے دین کی جدوجہد ہے ،اس کو ناقابل عمل بتاتے ہیں ،نظامِ باطل سے کٹ کر کام یابی حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔پھر کیا آپ اس پر متفق نہیں ہوں گے کہ ابھی آپ صرف تبلیغی کام کرتے رہیں اور جب بالعموم مسلمانوں کے ذہن تحریکِ اسلامی کو سمجھنے لگیں اس وقت عملی کا م کا آغاز کیا جائے؟

وقت کے سیاسی مسائل میں جماعتِ اسلامی کا مسلک

اس وقت مسلمانانِ ہند دو فتنوں میں مبتلا ہیں :اوّل کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیت کے مفروضے اورمغربی ڈیموکریسی کے اصول پر ہندستان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔دوم مسلم نیشنل ازم کی تحریک جسے لیگ چلا رہی ہے اور جس پر ظاہر میں تو اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر باطن میں روحِ اسلامی سراسر مفقود ہے۔’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے مطالعے سے یہ بات ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلام کے خلاف ہیں ۔ لیکن حدیث میں آیاہے کہ انسان جب دو بلائوں میں مبتلا ہو تو چھوٹی بلا کو قبول کرلے۔اب کانگریس کی تحریک تو سراسر کفر ہے۔اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کی موت کے مرادف ہے۔اس کے مقابلے میں لیگ کی تحریک اگرچہ غیر اسلامی ہے،لیکن اس سے یہ خطرہ تو نہیں کہ دس کروڑ مسلمانانِ ہند کی قومی ہستی ختم ہوجائے۔لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم لیگ سے باہر رہتے ہوئے اس کے ساتھ ہم دردی کریں ؟ اس وقت ہندستان میں انتخابات کی مہم درپیش ہے({ FR 1021 }) اور یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک طرف تمام غیر لیگی عناصر مل کر مسلم لیگ کو پچھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں جن میں اگر وہ کام یاب ہوجائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی وطنی تحریک مسلمانوں پر زبردستی مسلّط ہوکے رہ جائے گی۔دوسری طرف مسلم لیگ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور وہ اپنی قومی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ان دونوں کا فیصلہ راے دہندوں کے ووٹ پر منحصر ہے۔ایسی صورت میں ہم کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟کیا ہم لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور دلوائیں ؟یا خاموش بیٹھے رہیں ؟یا خود اپنے نمائندے کھڑے کریں ؟

ملکی فسادات میں ہمار افرض

ہم ایک ہندو اسٹیٹ میں رہتے ہیں جہاں برطانوی ہندکے مقابلے میں کتنی ہی زائد پابندیاں عائدہیں ۔ محض نماز روزے کی آزادی ہے، اور یہ آزادی بھی برادرانِ وطن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ان کو تو ہمارے نام سے نفرت ہے اور جو مسلمان جتنا ہی زیادہ پابندِشرع ہے، وہ اتنا ہی زیادہ ان کے بُغض کا مستحق ہے۔ان حالات میں آپ کا کہنا کہ ’’جماعت اسلامی کی پالیسی تو فسادات میں غیر جانب داررہنے کی ہے‘‘، اور یہ کہ’’یہ جماعت تو مظلوم کو مظلوم اور ظالم کو ظالم کہے گی اور بوقت ضرورت بے لاگ گواہیاں دے گی‘‘ اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ چناں چہ میرے ایک دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اس وقت تک خاموش بیٹھے رہیں جب کہ ہمیں گواہی دینے کا موقع آئے؟شہر میں فساد کے شعلے بھڑک اُٹھیں اور ہم بس یہ دیکھتے رہیں کہ کون کس پر ظلم کرتا ہے؟پھر جو قوم صرف مسلمان کے نام کی دشمن ہے،وہ ایسے مواقع پر خود ہم پر ہاتھ اُٹھانے سے کب باز رہ جائے گی؟ وہ اس بات کا لحاظ ہی کیوں کرنے لگی کہ یہ فساد میں شریک نہیں ہیں ،صرف تماش بین کی حیثیت رکھتے ہیں ؟ نیز اگر میرے کسی مسلمان پڑوسی پر غیر مسلموں نے ظالمانہ طورپرحملہ کردیا تو اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ خاموش بیٹھا رہوں اور اس کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں نہ ڈال دوں ؟
موصوف یہ خیال کرتے ہوئے بطور خود کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے دو حل بتاتے ہیں :
ایک تو یہ کہ اگر ہم مقابلے کی قدرت رکھتے ہوں تب تو اپنی مدافعت کی خاطر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ چوں کہ ہم اقلیت میں ہیں اس لیے ایسی جگہ ہجرت کرجائیں جہاں ہماری اکثریت ہو۔
اُمید ہے کہ آں جناب ان حالات میں ہماری مناسب راہ نمائی فرمائیں گے۔اِدھر ریاست کے مسلمانو ں کا حال یہ ہے کہ ان میں پچاس فی صدی بالکل جاہل اور آبا پرست اور پچیس فی صدی نیم خواندہ مگر پکے پیر پرست،بقیہ پچیس فی صدی تعلیم یافتہ مگر ان میں سے بیس فی صد علمِ دین سے کورے اور خانقاہیت سے متاثر، اور باقی پانچ دنیا کے بندے۔

پاکستان میں اسلامی نظام اور مسلم لیگی قیادت

ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اور اس کے بعد ’’نواے وقت‘‘ میں جناب کے حوالے سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہما لائوں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکتِ خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوازا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائداعظمؒ کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چودھری خلیق الزماں اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔
نواے وقت میں جو افسوس ناک بحث چل نکلی ہے، جناب کی طرف سے خاموشی اس کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ جناب کی معمولی سی تردید، اس آڑے وقت میں جبکہ ملت کو ’’نواے وقت‘‘ کی راہ نمائی اور جناب کی قیادت کی از بس ضرورت ہے، ختم کرنے میں ایک مجاہدانہ کردار ادا کرے گی۔

مسلم حکومتوں کے معاملے میں جماعت اسلامی کا مسلک

انگلستان سے ایک صاحب نے مجھے لکھا ہے:
مختلف مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کے ساتھ اسلامی کارکنوں کے تعاون سے بہت کچھ نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس چال کے ذریعے سے مسلم حکومتوں کے معاملے میں اسلام کے موقف کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں اُلجھا دیا گیا ہے۔ اسلامک کونسل آف یورپ نے اس کانفرنس میں اسلام کی بہت سی بنیادی تعلیمات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ بعض لوگ جو آپ کی تحریک سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں ان کی اس کانفرنس میں شرکت لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنے کی موجب ہوئی ہے کہ انھیں آپ کی تائید حاصل ہے اور یہ چیز مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کی پالیسیوں کو سندِ جواز بہم پہنچاتی ہے۔ ہم پورے زور کے ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریک کے کارکنوں کو مسلم حکومتوں کی خدمت انجام دینے والی قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں اور پلیٹ فارموں سے الگ رکھنے کے لیے اپنا پورا اثر استعمال کریں ۔
اس خط کے ساتھ ایک محضر نامہ بھی ہے جس پر بہت سے اشخاص کے دستخط ہیں ۔