سورة الشوریٰ ،آیت ۲۳کی تشریح
تفہیم القرآن ،سورئہ الشوریٰ آیت ۲۳ ح۴۱ صفحہ ۵۰۱ آپ نے اپنی راے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقے کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
تفہیم القرآن ،سورئہ الشوریٰ آیت ۲۳ ح۴۱ صفحہ ۵۰۱ آپ نے اپنی راے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقے کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔
تفہیم القرآن جلد چہارم سورۃ الشوریٰ کے حاشیہ۲۰ صفحہ ۴۸۸-۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:
’’بعض لوگوں نے…یہ راے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں ، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو ماننا اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی راے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک راے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح؈ کی امت کو خراب کر دیا۔‘‘
بعدازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رسالہ دینیات کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص راے میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورئہ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵ تا۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اس کے حاشیے میں آپ کی تشریح میں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ جہاں تک عملی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ مادہ فوطے (testicle) میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار میں کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالیinguinal canalمیں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ غدود کا نام prostate ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو میں سمجھ نہ سکا۔ البتہ اس کا کنٹرول ایک ایسے نروس سسٹم سے ہوتا ہے جو کہ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان جال کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک خاص حد تک۔ اس کا کنٹرول ایک اور غدود جوکہ دماغ میں ہوتا ہے، اس کی رطوبت سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں اخراج کا ہے (جو کہ ایک نالی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے)۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے (جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ) کہ آپ سائنٹی فِک علم پر یقین رکھتے ہیں ۔
مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بے حد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعاے خیر کرتا رہتا ہوں ۔ میں آج کل امریکا میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فنِ علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔راہ نمائی کیجیے کہ اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے؟
نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ان اصطلاحات پر پوری راہ نمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔
قرآنِ مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا({ FR 2275 }) ( الشمس :۷-۸ ) یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولاجیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے؟
نفس کو دبانے اور اس کا تزکیہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
متقی کو رزق کی فراہمی کا بہت جگہ ذکر آیا ہے مگر کئی ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو باوجود نہایت متقی ہونے کے نہایت تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان داری سے رزق کمانے والوں کی حالت تو بہت کمزور ہے مگر بد دیانت لوگوں کی آمدنی وافر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر قلبی اطمینان کو بہت ضعف پہنچتا ہے اور ایمان داری کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ عموماً لوگ غلط طریقے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں اور شریعت کی پابندی کرنے والے لوگ جو ایسے غلط طریقوں سے بچتے ہیں ، کامیاب نہیں ہونے پاتے۔ امید ہے آپ ان اُلجھنوں کو دور فرمائیں گے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ایمان ہے کہ قرآن شریف ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں راہ نمائی عطا فرماتا ہے تو سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی اور نئے نئے سائنسی راز جاننے کے لیے بھی اس میں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان اس میدان میں ترقی کرکے انسانی فلاح و بہبود اور اپنے دفاع میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ قرآن شریف سے اپنے فارغ وقت میں میں نے چند ایسے راز جاننے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں نے ایک ادنیٰ سا اٹامک انرجی کا انجینئر اور سائنس دان ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے معنی اپنے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہی نظریے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس کے صحیح مفہوم سمجھنے اور وضاحت کے لیے براہ کرم ان آیات کا مطلب مجھے سمجھا دیں تاکہ میں اپنی تحقیق سائنس کے اس شعبے میں صحیح طرح سے جاری رکھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز ایجاد کرسکوں ۔
سورہ آیات
(۱) ھود ۹۴ -۹۵
(۲) الحجر ۸۳ -۸۴
(۳) المؤمنون ۴۱
(۴) یٰسٓ ۲۸-۲۹
(۵) صٓ ۱۴-۱۵
(۶) الحاقہ ۱،۲،۳،۴،۵،۱۳،۱۴،۱۵
(۷) القارعہ ۱،۲،۳،۴،۵
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو پھر بعد میں بتا دوں گا۔ ان آیات کی مدد سے ہم ایٹم کی شعاعوں ، ایٹم کی حیثیت، زمین کی گردش، آواز وغیرہ کے آپس کےinteractionکے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں ۔
آپ نے سورۂ البقرہ کے حاشیہ نمبر۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں ۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں ، یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیو ں نہیں کرتے؟