کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا مطلب

قرآن کریم میں کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کا کیامطلب ہے؟ الہامی قانون کے ساتھ وہ کون سی ترازو اُتاری گئی ہے جس پر ہم اپنی سوسائٹی کے جواہر اور سنگ ریزوں کے وزن اور قیمت کا انداز ہ کرسکیں ۔مفسرین کا یہ کہنا کہ انسانیت کے اخلاقی اعتدال کا نام میزان ہے،درست نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو شخصی ضمیر کے اخلاقی احساسات سچائیوں کا صحیح وزن وقیمت متعین نہیں کرسکتے۔دوسرے یہ کہ میزان کے ساتھ کتاب اُتاری گئی ہے اور انسانی ضمیر کی میزان پیغمبروں اور کتابوں کے ساتھ نہیں اُتاری جاسکتی،وہ پہلے بھی تھی اور بعد کو بھی رہے گی۔

’’نُور‘‘ اور ’’کتابِ مُبین‘‘ کا مطلب

تفہیم القرآن کے مطالعے سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ المائدہ میں قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ:۵۱) کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب (جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘
اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں … اسی کے حاشیہ (نمبر۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے:
’’جو شخص اللّٰہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔‘‘ گویا آپ ’’نور‘‘ سے رسولِ کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتابِ مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں ۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللّٰہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتابِ مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہ ٖکی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعے (نہ کہ جن کے ذریعے) سے اللّٰہ تعالیٰ اُن لوگوں کو …‘‘
رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟— رسول یا قرآنِ مجید؟ —یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسولِ اکرمﷺ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتابِ مبین!‘‘ البتہ قرآنِ کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ النساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت۲۵۷، سورۂ الشوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ التغابن آیت ۸) ’’نُور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتابِ مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔
اب یہ سوال ہے، ’’نور‘‘ اور ’’کتابِ مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واو‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اَور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقینا ’’واو‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اَور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واو‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر :
الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ۝ ( الحجر:۱)
’’یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں ۔‘‘
کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’ الۗر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں ؟‘‘ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں )
اسی طرح سورۂ ’النمل‘ کی ابتدائی آیت:
طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ۝ (النمل:۱ )
’’طٰسٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔‘‘
طٰسٓ، ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں ‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید’ ’قرآن‘‘ اور شے ہو اور ’’کتابِ واضح‘‘ اور چیز! حالانکہ ’’قرآن‘‘ اور’ ’کتابِ واضح‘‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ ’’وائو‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں ) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیرِ نظر قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ میں بھی ’وائو‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔
آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہیے تھا:
تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے…
اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا: ’’… جو شخص اللّٰہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکرو عمل…‘‘
رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلُنَا … عَنْ کَثِیْرٍکے الفاظ میں ہوچکا ہے۔
متأخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اسی حصے کا ترجمہ: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ …‘‘ کیا ہے۔
انھی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآنِ مجید نہ صرف فی نفسہٖ نُور ہے بلکہ یہ دوسری اشیا کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے۔‘‘
امید ہے آپ ان گزارشات کی روشنی میں تفہیم القرآن کے اس حصے پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریقِ دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔

نباتات و حشرات کی مَوت و حیات

سورۃ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے: ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللّٰہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مُردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسبِ ذیل ہے:
’’پچھلی برسات کے بعد جو نباتات مرچکی تھی، یا بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا (یعنی مرچکے تھے) یکا یک پھر اُسی شان سے نمودار ہوگئے (یعنی دوبارہ زندہ ہوگئے) پھر بھی تمھیں نبیؐ کی زبان سے یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللّٰہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔‘‘
زندگی بعد الموت کی یہ مثال بالکل خلافِ حقیقت و مشاہدہ ہے۔ کوئی پیڑیا پودا مکمل طبعی موت کے بعد زندہ نہیں ہوتا، چاہے کتنے ہی برساتیں گزر جائیں ۔ صرف وہ جڑیں پُھوٹتی ہیں جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی رہتی ہے۔ دوم کیڑے مکوڑے گرمیوں میں یقیناً مر جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عرصۂ دراز تک بے حس و حرکت (hybranted)پڑے رہتے ہیں یا انڈے، لاروا، پیوپاکی صورت میں زمین، لکڑیوں ، دروازوں ، سوراخوں ، پانی وغیرہ کسی جگہ پر موجود رہتے ہیں اور مناسب درجۂ حرارت و رطوبت اور موافق موسم کے آتے ہی اپنے اپنے خول سے نکل آتے ہیں ۔ مکھی، مچھر، پروانے، کھٹمل اور زمین کے تمام حشرات الارض کے مختلف ادوارِ زندگی ہوتے ہیں ۔ اور دنیا کے ہر خطے کی آب و ہوا کے مطابق وہ درجات مختلف اوقات میں پایۂ تکمیل پاتے ہیں ۔ لہٰذا یہ مثال کہ نباتات یا حشرات الارض موت کے بعد دنیا ہی میں دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں ، قطعی خلافِ حقیقت ہے۔
اس تفسیر کو قلم بند کرنے سے پہلے اگر آپ علمِ نباتات (Botany) اور علم الحشرات (Entomology) کے کسی عالم یا متعلم سے مشورہ کر لیتے یا ان کے متعلق کوئی کتاب ہی مطالعہ فرما لیتے تو ایسے اہم موضوع پر اتنی عام غلطی نہ سرزد ہوتی۔ ایسی پر مغز اور عظیم تفسیر میں ایسی خلافِ سائنس یا خلافِ حقیقت و مشاہدہ بات پڑھ کر وہ لوگ جن کو آپ سے عقیدت نہیں ہے یا جو آپ کی عظمت کے قائل اور علمیت سے واقف نہیں ہیں بقیہ مضامین کو بھی اس پیمانے پر ناپیں گے۔ مَیں یہ گزارشات اپنے محدود علم اور ایک ماہرِ حشرات الارض سے مشورہ کرنے کے بعد لکھ رہا ہوں ۔

لاٹھی سے اژدہا بننے کا معجزہ

تفہیم القرآن، سورۃ الاعراف حاشیہ۸۷ کی مندرجہ ذیل سطر قابلِ توجہ ہے:
’’خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔‘‘ مندرجہ بالا جملے میں عجیب یا غیر عجیب کی بحث سے قطع نظر، میری گزارش صرف یہ ہے کہ جس انڈے سے کوئی جاندار شے پیدا ہوتی ہے مثلاً اژدہا، مچھلی، چھپکلی، مرغی، کبوتر وغیرہ اس انڈے کے اندر مادہ، بے جان نہیں ہوتا، بلکہ قطعی جاندار ہوتا ہے۔ یعنی اس انڈے میں نر و مادہ کے تولید کا مجموعہ (ovum+sperm)موجود ہوتا ہے ۔ بے جان مادے والا انڈا وہ ہوتا ہے جو مادہ، بغیر نر کے دیتی ہے اور اس کو عرفِ عام میں خاکی انڈا کہتے ہیں اور جس میں سے کسی طرح بھی بچہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کے باعث تو آپ کی دلیل مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی قوتِ معجزہ کو غلط سائنٹی فِک استدلال سے ثابت کرنا اور بھی عجیب ہوجاتا ہے۔

قومِ ثمود کے مساکن

ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ راے درج کی ہے:
قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انھوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بناے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی، جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں ۔ (ص۳، کتاب مذکور)
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں خاکسار کے شرح صدر کے لیے اپنی تحقیق سے آگاہی بخشیں گے۔

سیلِ عَرِم کا زمانہ

(۱)تفہیم القرآن میں آپ نے سیلِ عَرِم کا جو زمانہ۴۵۰ء متعین فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں (یعنی ان کا ماخذ کیا ہے؟)
(۲)ارض القرآن کی اشاعت سے پہلے بھی۴۵۰ء والی روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ارض القرآن کی اشاعت کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیل عرم۴۵۰ء میں آیا۔ نکلسن کی تاریخ ادب العرب میں بھی سیل عرم کا زمانہ۴۴۷ء یا۴۵۰ء لکھا ہے، لیکن یہ روایت بوجوہ محل نظر ہے۔
(۳) قرآن حکیم کی مختلف تفاسیر (بشمول تفہیم القرآن) کا بغور مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس سیل عرم کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس کا تعلق سبا کے طبقۂ ثانیہ سے ہے نہ کہ سباے حمیر سے، جن کو قوم تُبَّع کہا گیا ہے۔ اسی طرح ’’تفرُّقِ سبا‘‘ کا واقعہ ولادت مسیح سے پہلے ہوا نہ کہ بعد میں ۔
(۴) سیل عرم کے نتیجے میں سدّ مارب ٹوٹ گیا اور سبا کے باغ اجڑ گئے۔ اس کے معاًبعد (تجارتی راستوں پر دوسری اقوام کے غلبے کی وجہ سے) ان کے قبائل کا شیرازہ بکھر گیا۔
(۵)اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء تسلیم کیا جائے تو ’’تفرق سبا‘‘ بھی اس کے بعد ہونا چاہیے۔ لیکن عرب (اور بالخصوص مدینہ منورہ) کی مختلف تواریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سبا کے مختلف قبائل ۴۵۰ء سے کہیں پہلے سارے عرب میں منتشر ہوگئے تھے۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ ان کا قبیلہ از دیا اسد جو یثرب میں آکر آباد ہوگیا تھا اس پر یہودی سردار فیطون (یا فطیون) نے بے پناہ مظالم ڈھاے۔ غسانی سردار ابوجبیلہ نے ان مظالم کا انتقام لیا۔ اس واقعہ کے بعد مشہور تبع ابوکرب اسعد یا حسان بن کلیکرب کا ورود یثرب میں ہوا۔ (ابوکرب اسعد کا زمانۂ حکومت۴۰۰ء تا۴۲۵ء ہے اور حسان کا۴۲۵ء تا۴۵۵ء) عرب مؤرخین نے تبابعہ کے حالات غلط یا صحیح تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں لکھا کہ سیل عرم تبابعہ کے عہد میں آیا۔ اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قبائل سبا کا شیرازہ۴۵۰ء کے بعد منتشر ہوا۔ حالانکہ تاریخ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سبا کے تجارتی راستوں پر بہت پہلے دوسروں کا غلبہ ہوگیا تھا اور یہی بات ان کے انتشار کا باعث ہوئی تھی۔ یہ بالکل دوسری بات ہے کہ ان منتشر قبائل میں سے بعض نے پھر عروج حاصل کرلیا۔ یہ بھی درست ہے کہ سیل عرم کا ’’تفرق قبائل‘‘ سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ لیکن سورئہ سبا میں جس سیل عرم کا ذکر ہے اس کے سیاق و سباق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق سبا کے طبقہ ثانیہ سے ہے جس کا دورِ عروج۱۱۵ ق م میں ختم ہوگیا۔ سدمارب بلاشبہہ اس کے بعد بھی کام دیتا رہا (اس کی مرمت کس نے کرائی، تاریخ اس کے بارے میں خاموش ہے) لیکن وہ باغ جنھیں ’’جنتین‘‘ کہا گیا ہے پھر معرض وجود میں نہ آسکے۔ سد مارب تو سباے حمیر کے عہد میں اور ان کے بعد بھی کام دیتا رہا۔ ۴۵۳ء میں یہ ایک بار پھر ٹوٹا تو ابرہہ نے اس کی مرمت کروائی۔ آخری بار یہ کب ٹوٹا، اس کے متعلق بھی مختلف روایتیں ہیں ۔
(۶) تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سبا کے طبقہ اولیٰ(اور ثانیہ) کا مسکن شہر ’’مارب‘‘ (سبا) تھا اور ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق اسی بند سے ہے جو مارب کے متصل تعمیر کیا گیا تھا۔ سباے حمیر کا مسکن مارب نہیں تھا۔ اس لیے قرآن کریم کے بیان کردہ ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق یقیناً سباے حِمیَر کے زمانے سے نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ حمیر نے اپنی حکومت کو مارب تک وسعت دے لی تھی لیکن مارب کو حمیر کا مسکن نہیں کہا جا سکتا اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے سبا کے مسکن میں بند توڑ سیلاب بھیجا۔ (مسکن سے مراد مرکزی شہر یا سبا کی قوت و شوکت کا مرکز ہے)

قرآنی احکام کے جزئیات میں رد ّو بدل

میں ایک جواں سال طالب علم ہوں ۔۱۹۷۰ء سے جماعت اسلامی کا ذہنی ہم درد اور آپ کا ایک عقیدت مند۔ لیکن آپ کے ساتھ عقیدت ہو یا کسی کے ساتھ دشمنی، میرے پیش نظر ہمیشہ خاتم النبیین (ﷺ) کی یہ حدیث شریف رہتی ہے کہ محبت اور نفرت کا معیار صرف قرآن پاک اور سنت صادقہ پر رکھو۔ میں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خداے واحد کی بارگاہ میں بھی یہ عرض کرسکتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اسلام کے سمجھنے، شعوری طور پر اس پر عمل کرنے اور اسلام کی خدمت کرنے اور اقامت دین کے مقدس فریضے کو انجام دینے کا جذبہ پیدا کیا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد میں اس مسئلے کی طرف آتا ہوں جس نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ یہ چیز واقعتاً میرے دل میں کھٹکتی ہے۔ یہ آپ کی وہ تحریر ہے جو آپ کی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں مندرج ہے۔ میرے پاس اس کتاب کا مارچ ۱۹۷۰ء کا اڈیشن ہے۔ ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ ’’رسول اللّٰہ نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں ، کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسی قسم کا ردّ و بدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ان میں اسی حد تک رد و بدل ہوسکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ اجازت دیتے ہوں ۔ اس چیز میں آپ نے قرآن پاک کو بھی شامل کر دیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۲۷ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں ۔ میرے خیال میں یہ چیز قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں ، فرمانِ الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشے میں بھی ردّ و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّ و بدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) اس تحریر میں ’’قرآنی احکام کے جزئیات‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟
(۲) اگر اس سے مراد کوئی آیت پاک ہے تو کیا کوئی غیر صاحبِ وحی اس میں ردّ و بدل کا مختار ہے؟
(۳) رسولِ اکرمؐ کے تشریف لے جانے کے بعد کیا قرآن پاک کے احکام میں رد و بدل ہوسکتا ہے؟
(۴)اور کیا خود رسول اکرمﷺ قرآنی احکام کی جزئیات میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرسکتے تھے؟
(۵)ختم نبوت کے خلاف کیا یہ تحریر ایک ثبوت اور دلیل کا باعث نہیں بنتی ہے؟
(۶) آپ نے جو بات لکھی ہے کیا آپ اس کے سلسلے میں قرآن پاک، سنتِ رسول یا مسلک ائمہِ اربعہ سے ثبوت دے سکتے ہیں ؟
(۷) اگر کوئی دلیل اس سلسلے میں آپ کے پاس نہیں تو کیا آپ اپنی راے سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہیں ؟
مولانا صاحب، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بات کا بتنگڑ بنا کر اس کی تشہیر کرتے اور اسے کسی شخص کے خلاف نفرت و حقارت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے حق سمجھ کر لکھا ہے۔ میرا مطالعہ صرف آپ کی کتب تک محدود نہیں بلکہ اس مختصر عمر میں میں نے اسلاف کی مقدس تحریروں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور یہ کتب مطالعہ کرنے اور جذبہ اسلام پیدا کرنے میں آپ کی کتب کا پورا اور ۱۰۰ فی صد حصہ ہے، جس کے لیے میں اللّٰہ تعالیٰ سے آپ کے لیے جزاے خیر کا طالب ہوں ۔

چند قرآنی مفردات کی توضیح

فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ…… وَبَصَلِھَا ( تفہیم القرآن، جلد اول، ص۷۹-۸۰، رکوع۶)
آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’اپنے رب سے دُعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں ، لہسن، پیاز دال وغیرہ پیدا کرے۔‘‘
’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمے سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّائِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثّائِھَا ’’ککڑیوں ‘‘ کو کہتے ہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے، عبداللّٰہ یوسف علی نے بھی قِثّائِھَا کو انگریزی میں cucumbers لکھا ہے! بصل پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمے میں ترتیب یوں ہوگئی ہے۔ ’’پیاز دال وغیرہ‘‘، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا۔ کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟

حروفِ مقطّعات کے معانی

تفہیم القرآن میں آپ نے حروفِ مقطّعات کی بحث میں لکھا ہے کہ دورِ نزولِ قرآن میں الفاظ کے قائم مقام ایسے حروف کا استعمال حسن بیان اور بلاغت زبان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ ان کے معنی ومفہوم بالکل معروف ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اس وقت ان کے استعمال پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ ان حروف کی تشریح چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ان کے سمجھنے پر ہدایت کا انحصار ہے۔ اس بارے میں میری حسب ذیل گزارشات ہیں :
اگر ان حروف کے معانی ابتدائی دور میں ایسے معروف تھے تو یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ ان کا استعمال شعر وادب میں متروک ہوگیا اور دفعتاً ان کے معانی اذہان سے کلیتاً محو ہوگئے۔اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اگر آج بلاد عربیہ میں چند ایسے الفاظ کا استعمال متروک ہوجائے جو قرآن میں بھی آئے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد دنیاے اسلام میں قرآن کے ان الفاظ کا صحیح مفہوم متعین نہیں رہے گا۔پھر اس سے بھی عجیب تر آپ کا یہ استدلال ہے کہ چوں کہ ان حروف کے معانی کے تعین پر ہدایت و نجات کا مدار نہیں اس لیے ان کی تشریح وتوضیح کی ضرورت نہیں ۔اس طرح تو قرآن کے بیش تر حصے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مطلب سمجھنے پر ہدایت کا انحصار نہیں ،اور اُس حصے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔اس نظریے کے تحت تو تجدد پسند حضرات سے کچھ بعید نہیں کہ وہ قرآن کے ایک حصے کو اہمیت دیں اور دوسرے حصے سے صرف نظر کرلیں ۔براہ کرم آپ اپنے موقف کی دوبارہ وضاحت فرمائیں ۔

قدیم عربوں میں حروفِ مقطعات کا رواج

تفہیم القرآن میں حروف مقطعات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ اسلوب شعراے جاہلیت میں معروف تھا جو بعد میں متروک ہوگیا۔ اس سلسلے میں چند معروضات ہیں :
(۱) کیا اس کی مثال شعراے جاہلیت کے اشعار میں یا خطبا کے خطبوں میں ملتی ہے؟
(۲) صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اس کے اثبات میں کچھ منقول ہے؟
(۳) کیا حروف مقطعات کا اسلوب اگر بعد میں متروک ہوگیا، تو یہ ’’عربیِ مبین‘‘ کے خلاف تو نہیں ؟