تبلیغ اسلام کے لیے وجہِ جواز

تبلیغ کے لیے اسلام کے جوش کو کس طرح حق بجانب ٹھیرایا جاسکتا ہے جب کہ قرآن کہتا ہے کہ مختلف اُمتوں کے لیے خدا نے مختلف طریقے مقرر کیے ہیں اور وہ سب طریقے خدا ہی کے ہیں ؟

فَلَہٗ مَا سَلَفَکی تفسیر

تفہیم القرآن میں حرمتِ سود والی آیتفَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ({ FR 2237 }) (البقرہ:۲۷۵) پر حاشیہ لکھتے ہوئے جناب نے جو استدلال فرمایا ہے،اس پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ وہ شخص جو پہلے کے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہا ہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ سود کے حرام ہونے پر صحابہ کرامؓ نے کیا عمل فرمایا؟اگر انھوں نے اخلاقی حیثیت کی بِنا پر مستحقین کو مال واپس کیا ہے تو آپ کا استدلال صحیح ہوسکتا ہے،نیز اگر صحابہؓ کا عمل ایسا ثابت ہے تو آپ کو تفہیم القرآن میں اس کا حوالہ دینا چاہیے۔

ذبیحہ جس پر اللّٰہ کا نام نہ لیا گیا ہو

یہاں برطانیا آکر میں کچھ عجیب سی مشکلات میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ سب سے زیادہ پریشانی کھانے کے معاملے میں پیش آرہی ہے۔اب تک گوشت سے پرہیز کیا ہے۔صرف سبزیوں پر گزارہ کررہا ہوں ۔ سبزی بھی یہاں آپ جانتے ہیں صرف اُبلی ہوئی ملتی ہے اور وہ بھی زیادہ تر آلو۔ انڈا یوں بھی کم یاب ہے اور پھر اس پر راشن بندی ہے۔ہفتے میں دو تین انڈے مل سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبداﷲ صاحب امام ووکنگ مسجدلندن سے ملا۔انھوں نے یہ بتایا کہ کلام پاک کی رُو سے ایک تو سو ر کا گوشت حرام ہے،دوسرے خون،تیسرے مردار اور چوتھے وہ جانور جو اﷲ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر ذبح کیا جائے۔پھر انھوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک یہاں کے طریقہ ذبح کا تعلق ہے،اس سے شہ رگ کٹ جاتی ہے اور سارا خون نکل جاتا ہے۔ چوں کہ اس خون کا نکلنا طبی نقطۂ نظر سے ضروری ہے،لہٰذا اس کا یہاں خاص خیال رکھا جاتا ہے۔البتہ یہ ضرور صحیح ہے کہ گردن پوری طرح الگ کردی جاتی ہے،لیکن کلام پاک میں اس سلسلے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ۔ دوسرے یہ کہ یہاں جانور کسی کے نام پر ذبح نہیں کیے جاتے، بلکہ وہ تجارتی مال کی حیثیت سے سیکڑوں کی تعداد میں روزانہ ذبح ہوتے ہیں ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اﷲ کا نام تو نہیں لیا جاتا لیکن کسی اور کا بھی نام نہیں لیاجاتا، پس وہ غیر اﷲ سے منسوب نہ ہونے کی وجہ سے کھایا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں ان سے بہت کچھ بحث رہی مگر طبیعت نہیں مانتی کہ یہ گوشت جائز ہوسکتاہے۔
پھر کھانے میں جو سوپ دیا جاتا ہے وہ کبھی کبھی توصرف سبزیوں سے بنا ہوا ہوتا ہے،مگر آج ہی اتفاق سے اس میں ایک ٹکڑا گوشت کا نکل آیا۔ شکایت کی تو معلوم ہوا کہ کبھی کبھی گوشت اور سبزی ملا کر بھی سوپ بنایا جاتا ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ جہاں سو دو سو آدمی اطمینان سے یہ سب کچھ کھا پی رہے ہوں وہاں دو چار آدمیوں کا لحاظ کون کرے گا؟ پھر مکھن،پنیر اور میٹھا کھانا بھی دستر خوانوں پر آتا ہے۔ ان چیزوں میں بھی حرام دودھ یا چربی کی آمیزش ہونے کے بارے میں قوی شبہہ ہوتا ہے۔علاوہ بریں باورچی حرام کھانوں میں استعمال ہونے والے چمچے اُٹھا کر دوسرے کھانوں میں ڈالتے رہتے ہوں گے۔یہ کچھ عجیب پیچیدگی ہے جسے حل کرنے میں مشورہ مطلوب ہے۔

مچھلی کے بلا ذبح حلال ہونے کی دلیل

میری نظر سے’’ترجمان القرآن‘‘ کا ایک پرانا پرچہ گزرا تھا، جس میں انگلستان کے ایک طالب علم نے گوشت وغیرہ کھانے کے متعلق اپنی مشکلا ت پیش کی تھیں ۔ جس کے جواب میں آں جناب نے فرمایا تھا کہ وہ یہودیوں کا ذبیحہ یامچھلی کا گوشت کھایا کرے۔ مجھے یہاں مؤخر الذکر معاملہ یعنی مچھلی غیر ذبح شدہ پر آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ کیوں کہ غالباً آپ بھی جمہور مسلمانان کی طرح اس کا گوشت کھانا حلال خیال فرماتے ہیں ۔
میرے خیال میں حلال وحرام کا فیصلہ بغیر اﷲ تعالیٰ کے کسی انسان کا حق نہیں ہے۔کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ:
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ (النحل:۱۱۶)
’’اور یہ جو تمھاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کراللّٰہ پر جھوٹ نہ باندھو جو لوگ اللّٰہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔‘‘
لیکن قرآن کی رُو سے مچھلی غیر ذبح شدہ کی حرمت تو موجود ہے، کیوں کہ یہ بھی ایک حیوان ہے اور تمام حیوانات کو(بغیر سور،کتا،بلی وغیرہ مستثنیات)ذبح کرنے کاحکم صریحاًموجود ہے۔ مثلاً:
(۱) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ…… ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ( المائدہ:۳)
’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون …… یہ سب افعال فسق ہیں ۔‘‘
مچھلی بھی ’’مَیْتَۃ‘‘ میں شامل ہے۔
(۲) يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ۝۰ۭ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۝۰ۙ …فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ ( المائدہ:۴)
’’لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہو، تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں …وہ جس جانور کو تمھارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو، البتہ اس پر اللّٰہ کا نام لے لو اور اللّٰہ کا قانون توڑنے سے ڈرو۔‘‘
یہاں تمام طیبات کو ذبح کرنے اور ان پر خدا کا نام لینے کی تصریح ہے۔مچھلی کی استثنا نہیں ہے۔
(۳) فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِہٖ مُؤْمِنِيْنَ ( الانعام:۱۱۸)
’’پھر اگر تم لوگ اللّٰہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللّٰہ کا نام لیا گیا ہو اس کا گوشت کھائو۔‘‘
یہ اثباتی پہلو ہے اسی امر کاکہ صرف خدا کے نام کا ذبح شدہ جانور کھایا کرو۔یہاں بھی مچھلی بغیرذبح شدہ کی استثنا نہیں ہے، بلکہ اسے خدا کا نام لے کر باقی حیوانات کی طرح ذبح کرنا چاہیے۔
(۴) وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ ( الانعام:۱۲۱)
’’اور جس جانور کو اللّٰہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے۔‘‘
یہ نہی کا پہلو ہے۔ یہاں تصریف آیات کے بہترین نمونے ہیں تاکہ اگر ایک طرح سے کوئی سمجھ نہ سکے تو دوسری طرح سمجھ جائے۔اثباتی اور نہی ہر دو پہلو قرآن مجید کے عام اسلوب کے مطابق اس معاملے میں بھی موجود ہیں ۔ اور یہاں تو غیر ذبح شدہ حیوان کو کھانا فسق قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر بھی إلاَّ السَّمَکَ وُالْجَرَادَکے الفاظ بھی نہیں ہیں ۔لہٰذا غیر ذبح شدہ مچھلی کا گوشت کھانا قطعاًحرام ہے۔
اب عرض ہے کہ مچھلی غیر ذبح شدہ کی حلت اگر کہیں قرآن کریم میں ذکر کی گئی ہے تو مہربانی فرما کر مجھے بذریعہ ’’ترجمان القرآن‘‘ مطلع فرمائیں ۔ عام علماے اسلام تو مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَائَ نَا({ FR 2238 })کی دلیل پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ قرآن کے بیّن احکام کی موجودگی میں اس قسم کی دلیل ہرگز کام نہیں دے سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ احادیث رسول ﷺمیں مچھلی غیر ذبح شد ہ کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن قرآن کے مقابلے میں قرآن کی دلیل پیش ہونی چاہیے۔ ہم ان احادیث کو بسرو چشم مان لیتے ہیں جو قرآن کے موافق ہوں ،لیکن اگر کوئی حدیث قرآن کے صریح فرمان کے خلاف ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث رسول کریم ﷺ نے ہرگز نہیں فرمائی،بلکہ موضوع ہے، اور احادیث کو قرآن پر قاضی سمجھنا تو خارج از بحث ہے۔
لہٰذا چوں کہ بندہ آں جناب کے سامنے قرآن کے دلائل پیش کرتا ہے،اس لیے استدعا ہے کہ آپ بھی قرآن ہی سے دلائل پیش کریں ۔چار دلائل کے مقابلے میں ایک دلیل بھی کافی سمجھی جائے گی۔

تخلیقِ انسانی کے مدارج

مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن جلد دوم میں صفحہ۵۴۰سے۵۴۴ تک
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ( المؤمنون:۱۲-۱۴)
’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللّٰہ سب کاری گروں سے اچھا کاری گر۔‘‘
کی تشریح کرتے ہوئے علم الجنین کے جن مدارج ستہ کو قرآنی الفاظ کے ساتھ چسپاں کرلیا ہے،اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔مولانا کے علم وفضل کی عظمت کے اعتراف کے باوجود مجھے اس بات کے اظہار کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ وسلف صالحین میں سے کسی نے بھی ان مدارج ستہ کو بیان نہیں کیا ہے۔ممکن ہے میں غلط فہمی کی بِنا پر کہہ رہا ہوں ،آپ اس مقام کا بغور مطالعہ کرکے اس’’تحقیق جدید‘‘ کے بارے میں اپنی راے سے مطلع فرمائیں ۔نیز اگر آپ کو مولانا کی اس تشریح سے اختلاف ہو تو پھر فرمایئے کہ آپ کے نزدیک اس آیت کا مطلب کیا ہے اور قدیم تفسیر پر مولانا نے جو اعتراضات کیے ہیں ،آپ کے پاس ان کا کیا جوا ب ہے؟

شکار کرنے اور شکار کھیلنے میں فرق

امیر لوگ آج کل جس طرح شکار کھیلتے ہیں ،اسے دیکھ کر دل بے قرار ہوتا ہے۔ سابق زمانہ میں تو شاید لوگ قوت لایموت کے لیے شکار کو ذریعہ بناتے ہوں گے۔مگر آج کل تو یہ ایک تفریح اور تماشا ہے۔بعض لوگ جنگل یا کسی کھیت میں جال لگا کر خرگوش پکڑتے ہیں ،پھر ان کو بوریوں میں ڈال کر کسی میدان میں لے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے کتے چھوڑتے ہیں ۔ خرگوش کو کھلی جگہ میں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی تو وہ دوڑ دوڑ کر ہار جاتا ہے اور کتے اسے پھاڑ ڈالتے ہیں ۔اس پر خوب تفریح کی جاتی ہے۔

تکبیر پڑھ کرشکار پر کتا چھوڑنا

یہ بھی دریافت طلب ہے کہ بندوق سے شکار کرنا کیسا ہے؟اس معاملے میں میرے سامنے پارۂ دوم کی یہ آیت ہے کہ وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ({ FR 2240 }) (البقرہ:۲۰۵) کتب فقہ میں یہ مسئلہ جو درج ہے کہ تکبیر پڑھ کر شکار پر کتا چھوڑا جائے یا بندوق چلائی جائے تو شکاراگر زخمی ہوکر بغیر ذبح کیے مرجائے تو بھی وہ حلال ہے،اس کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے؟

خنزیر اور دیگرحرام اشیاکی حرمت کی وجہ

قرآن نے چند چیزیں حرام کیوں قرار دی ہیں ؟طبی نقطۂ نگاہ سے یا کسی اور وجہ سے؟ ان میں کیا نقصانات ہیں ؟خنزیر کو خاص طور پر نام لے کر کیوں شدت سے حرام قرار دیا گیا ہے؟کیا یہ سب سے زیادہ مضر حیوان ہے؟چیر نے پھاڑنے والے جانور اور خون وغیرہ کیوں حرام قرار دیے گئے ہیں ؟

جن قوموں میں انبیا ؊ مبعوث نہیں ہوئے ،اُن کا معاملہ

قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات وشکوک طبیعت میں پیداہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں ۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی واعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے،لیکن آیت کا صحیح مفہوم ومطلب نہ سمجھ میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اُردو و عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں ،مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں ۔البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں ۔آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کررہا تھا،سورۂ یٰسٓ زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیت پر میں ٹھیر گیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ (یٰس:۶)
’’ تاکہ تم ڈرائو ان لوگوں کو جن کے آبا و اجداد نہیں ڈراے گئے تھے، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:
لِاَ نَّ قُرَیْشًا لَمْ یَأتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ({ FR 2242 })
’’کیونکہ قریش کی طرف محمد ﷺسے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔‘‘
دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سرزمین عرب میں کوئی نبی ورسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنۃ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا،وہ بری الذمہ ہونی چاہییں ،البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو،پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں ،تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہییں ۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل:۱۵)
’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘

یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔