منسوخ احکام پر عمل

ترجمان اکتوبر نومبر ۱۹۵۵ئ میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ احکام منسوخہ پر اب بھی عمل جائز ہے، اگر معاشرے کو انھی ضروریات سے سابقہ ہوجائے۔ اگر احکام شارع نے منسوخ فرمائے ہیں تو پھر ان احکام کو مشروع کرنے والا کون سا شارع ہوگا؟اگرہر ذی علم کو اس ترمیم وتنسیخ کا حق دیا جائے جب کہ إعْجَابُ کُلُّ ذِیْ رَأیٍ بِرَأیِہِ ({ FR 2231 })کا دور دورہ ہے تو کیا یہ تَلاعُب بِالدِّیْنِ (دین کے ساتھ کھیلنا) نہ ہوگا؟ آیا احکام منسوخہ میں تعمیم ہے یا تخصیص؟محرمات اب پھر حلا ل ہوسکتے ہیں یا حلا ل شدہ احکام اب پھر منسوخ ہوسکتے ہیں ؟ مہربانی فرما کر وسعت سے بحث فرماویں ، کیوں کہ یہ بنیادی اُمور سے متعلق ہے۔

حدیث کا قرآن کومنسوخ کرنا

اُصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حدیث قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے۔کیا یہ نظریہ ائمہِ فقہا سے ثابت ہے؟اگر ہے تو اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

قرآن کی تأویل کا صحیح طریقہ

اسلام کو سمجھنے کی کوشش میں جس مسئلے کو میں نے سب سے زیادہ پریشان کن پایا،وہ قرآن کی تأویل وتعبیر کا مسئلہ ہے۔گزارش ہے کہ اس معاملے میں میرے ذہن کی اُلجھن کو دُور کیا جائے تاکہ تأویل قرآن کے اُصولوں کو جاننے کے ساتھ یہ بھی معلوم کرسکوں کہ مخصوص مسائل پر ان اُصولوں کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔

محکمات اور متشابہات کا مفہوم

قرآن مجید کہتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔اس کی کچھ آیات محکم ہیں اور وہی کتاب کی اصل وبنیاد ہیں ۔دوسری متشابہات ہیں ۔سو جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ،وہ اس کتاب کی ان آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کو معنی پہنائیں ۔‘‘({ FR 2232 })(آل عمران:۷)
کیا یہ صحیح ہے کہ آیاتِ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی صاف اور صریح ہیں ؟ اور اس بِنا پر ان کی تأویل وتعبیر کی حاجت نہیں ہے؟اگر یہی بات ہے تو کیا یہ فرض کرلیا جائے گا کہ ان کے معنی سب لوگوں پر واضح ہیں ؟اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور ایک ہی درجے کا تعقل رکھتے ہیں ؟

تعددِ ازواج کی اجازت والی آیت کا محکم ہونا

سورۂ النساء کی تیسری آیت جس میں تعددِ ازواج کی اجازت مذکور ہے،محکم ہے یا متشابہ؟ اگر وہ محکم ہے تو اس کے معنی میں اتنا اختلاف کیوں ہے اور اس کی۱ تنی مختلف تاویلیں کیوں کی جاتی ہیں ؟

قرآن کی تأویل میں حدیث کی اہمیت

اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ تعدد ازواج والی آیت کے معنی بالکل صاف ہیں تو کیا اس کی کوئی ضرورت ہے کہ وہ حدیث کی طرف رجوع کرے؟ واضح رہے کہ میں بجاے خود تعدد ازواج کے مسئلے میں دل چسپی نہیں رکھتا،بلکہ یہاں زیر بحث قرآن کی تأویل کا مسئلہ ہے۔

قرآ ن کی نزولی ترتیب کی ضرورت

جب قرآن کی مختلف آیات ایک ہی موضوع سے متعلق ہوں اور ان کا مضمون ایک دوسرے سے مختلف پایا جائے تو ایک آدمی کس طرح فیصلہ کرے کہ ان میں سے کون سی آیت کس کی ناسخ ہے؟اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایک آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو کیا یہ بات اسے ناسخ قرار دینے کے لیے کافی ہے؟اگر یہ صحیح ہے تو کیا قرآن کو تاریخ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کرنا مفید نہ ہوگا؟

انفرادی تأویل کا حق

کیا ایک اسلامی ریاست میں افراد کو یہ حق ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک آیات محکمات کے جو معنی خود سمجھتا ہو،اُن کی پیروی کرے؟کیا اُس کا یہ حق ہوگا کہ اُن آیات کی کسی ایسی تعبیر کو ماننے سے انکار کردے جو اُس کی ذاتی تعبیر سے مختلف ہو۔خواہ وہ حکومت کے مقرر کیے ہوئے کسی کمیشن ہی نے کیوں نہ کی ہو؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۷ کا فائدہ کیا ہے؟