اِلہامی کتابوں میں اختلاف کی وجہ

بائبل کی کتاب’’رسولوں کے اعمال‘‘(باب۱۰) میں ہے کہ تمام چارپایوں والے جانور حلال ہیں ۔ بخلاف اس کے بائبل کا عہد نامہ قدیم اور قرآن،دونوں بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔اگر یہ سب کتابیں خدا کی طرف سے بذریعہ وحی نازل ہوئی ہیں تو مسلمان ان کے اس اختلاف کی کیا توجیہ کرتے ہیں ؟(واضح رہے کہ مجھے کسی خاص قسم کے گوشت کے کھانے یا نہ کھانے سے دل چسپی نہیں ہے بلکہ میں اس تضاد کو رفع کرانا چاہتا ہوں جو کتب آسمانی میں پایا جاتا ہے یا مجھے محسوس ہوتا ہے)

قرآن اور کتب مقدسہ کی تصدیق

قرآن جگہ جگہ یہودی اور مسیحی کتب کوالہامی کتابوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مگر بائبل کے بہت سے علما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کتابیں محض تاریخی دستاویزیں ہیں جن میں سے بعض کو ایک سے زیادہ مصنفوں نے تیار کیا ہے اور ان کے اندر الہامی ہونے کی شہادت کم ہی ملتی ہے۔اب کیا قرآن ان کتابوں کے معاملے میں وحی والہام کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کرتا ہے؟کیا بائبل کے علما کی راے غلط ہے؟یا ہم یہ فرض کریں کہ محمدﷺ کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی تغیر ہوگیا ہے؟

قرآن کریم کا رسول اللّٰہﷺ کی تصنیف نہ ہونا

میرے ایک عزیز جو اَب لا مذہب ہو چکے ہیں ، قرآن شریف کو (معاذ اﷲ) رسول اللہﷺ کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ ان کی بہت سی باتوں کو اس وجہ سے ناقابل عمل سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت کے لیے تھیں جب قرآن نازل ہوا۔اُمید ہے آپ جواب دیں گے۔

تفہیم القرآن میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کا ترجمہ

تفہیم القرآن میں آپ نے الحمد للہ کا ترجمہ ’’تعریف اللّٰہ کے لیے ہے‘‘ کیا ہے۔ حالانکہ مترجمین سلف و خلف نے اس کا ترجمہ ’’تمام خوبیاں اللّٰہ کے لیے‘‘، ’’سب تعریف اللّٰہ کے لیے‘‘ کیا ہے۔ تفہیم القرآن کا ترجمہ کچھ نامکمل، یا ناتمام سا محسوس ہوتا ہے۔

قُطبین کے قریب مقامات میں نمازاور روزے کے اوقات

میرا ایک لڑکا ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان گیا ہوا ہے،آج کل وہ ایک ایسی جگہ قیام رکھتا ہے جو قطب شمالی سے بہت قریب ہے۔وہ نمازوں اور روزوں کے اوقات کے لیے ایک اُصولی ضابطہ چاہتا ہے۔بارش، بادل اور دھند کی کثرت سے وہاں سور ج بالعموم بہت کم دکھائی دیتا ہے۔کبھی دن بہت بڑے ہوتے ہیں ،کبھی بہت چھوٹے۔بعض حالات میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں بیس گھنٹے کا فصل ہو تا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بیس گھنٹے یا اس سے زائد کا روزہ رکھنا ہوگا؟

غیر اسلامی حکومت کے ذریعے سے زکاۃ کی تحصیل

حالاتِ حاضرہ کا پیدا کردہ ایک سوال دریافت کرتا ہوں ۔یہ کہ کیا ہماری شریعت میں کسی کافر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہم سے صدقاتِ واجبہ وصول کرے یا یہ کہ حکومتِ کفر کی قانونی قوت کے ذریعے ان کی وصولی کا اہتمام کیا جائے، اور وہ اس طرح کہ اسمبلی میں ایک زکاۃ بل پاس کرالیا جائے؟اُمید ہے کہ واضح جواب دیا جائے گا۔

زکاۃ اور مسئلۂ تملیک

علماے حنفیہ بالعموم ادائگی زکاۃ کے لیے تملیکِ شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلہِ تملیک کے بغیررفاہِ عام کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکاۃدینا صحیح نہیں ۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات وسوالات علماے کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن، محرم۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس کی بِنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں ،وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکاۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں ۔ لیکن اجتماعی طور پر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکاۃ کی وصولی وصرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزوی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔کیوں کہ زکاۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکاۃ کی تقسیم وتنظیم،حمل ونقل اور متعلقہ ساز وسامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرطِ تملیک کی پابندی محال ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے:
جس فتوے پر یہ سوالات کیے گئے ہیں ،میرے نزدیک وہ آیت اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ… کی اس تأویل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے جو حنفیہ نے اختیار فرمائی ہے۔اس مطلب کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ پر ایک نگاہ ڈال لیں ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ ( التوبۃ:۶۰)
’’صدقات تو فقرا کے لیے ہیں اور مساکین کے لیے،اور ان لوگوں کے لیے جو ان پر کام کرنے والے ہوں ،اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو…۔‘‘

فطرہ کی مقدار

فطرہ کی مقدار کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔کوئی سوا سیر گیہوں دیتا ہے تو کوئی پونے دو سیر‘ اور کوئی سوا دوسیر۔ صحیح مقدار کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کا عمل کیا ہے؟

فطرہ کس پر واجب ہے؟

فطرہ کے سلسلے میں دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ اگر کوئی شخص خود صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی صاحب نصاب ہے توفطرہ محض بیوی پر واجب ہوگا یا شوہر پر بھی؟ اور یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی فطرہ دیا جائے گا یا نہیں ؟