پاکستان میں اسلامی نظام اور مسلم لیگی قیادت

ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اور اس کے بعد ’’نواے وقت‘‘ میں جناب کے حوالے سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہما لائوں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکتِ خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوازا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائداعظمؒ کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چودھری خلیق الزماں اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔
نواے وقت میں جو افسوس ناک بحث چل نکلی ہے، جناب کی طرف سے خاموشی اس کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ جناب کی معمولی سی تردید، اس آڑے وقت میں جبکہ ملت کو ’’نواے وقت‘‘ کی راہ نمائی اور جناب کی قیادت کی از بس ضرورت ہے، ختم کرنے میں ایک مجاہدانہ کردار ادا کرے گی۔

مسلم حکومتوں کے معاملے میں جماعت اسلامی کا مسلک

انگلستان سے ایک صاحب نے مجھے لکھا ہے:
مختلف مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کے ساتھ اسلامی کارکنوں کے تعاون سے بہت کچھ نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس چال کے ذریعے سے مسلم حکومتوں کے معاملے میں اسلام کے موقف کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں اُلجھا دیا گیا ہے۔ اسلامک کونسل آف یورپ نے اس کانفرنس میں اسلام کی بہت سی بنیادی تعلیمات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ بعض لوگ جو آپ کی تحریک سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں ان کی اس کانفرنس میں شرکت لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنے کی موجب ہوئی ہے کہ انھیں آپ کی تائید حاصل ہے اور یہ چیز مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کی پالیسیوں کو سندِ جواز بہم پہنچاتی ہے۔ ہم پورے زور کے ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریک کے کارکنوں کو مسلم حکومتوں کی خدمت انجام دینے والی قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں اور پلیٹ فارموں سے الگ رکھنے کے لیے اپنا پورا اثر استعمال کریں ۔
اس خط کے ساتھ ایک محضر نامہ بھی ہے جس پر بہت سے اشخاص کے دستخط ہیں ۔

قضیۂ فلسطین میں جماعت کا رویّہ

بعض اصحاب پوچھتے ہیں کہ فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیا کی خود غرضی و اسلام دشمنی کے نتائج آشکارا ہیں ۔جماعت اسلامی نے اس معاملے میں کبھی اپنی پالیسی کا اظہار کیوں نہ کیا؟

تحریک اسلامی کی دعوتی ترجیحات

اگر آپ اپنی اسلامی تحریک کو کفار و مشرکین سے شروع کرتے اور ’’نسلی مسلمانوں ‘‘ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا؟ (اس کے علاوہ اس مراسلہ میں ’’نسلی مسلمان‘‘ کی اصطلاح پر بھی سخت آزردگی کا اظہار کیا گیا ہے)

جماعتِ اسلامی اور علماے کرام

جماعتِ اسلامی اور علماے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت برا اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے( جو قلیل ہے )اور دوسری جماعت علماے حق کی ہے جو اہل دیوبند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں )اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔اگر اس گروہِ عظیم کے اکابر واصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائر دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔
تاحال ابھی اختلافات کی ابتدا ہے۔بریلویوں کی طرف سے’’خطرے کی گھنٹی‘‘ شائع ہوئی ہے۔معلّمین اہل دیو بند کی طرف سے دو چار اشتہار شائع کیے گئے ہیں ۔ان کا تدارک ہوسکتا ہے، غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر تھوڑی دیر جماعت کے تمام مقاصد کی سیاست کو سامنے نہ بھی رکھا جائے تب بھی سوء ظنی عامۃ المسلمین کی دور کرنی تو ان حالات میں ازروے اسلام ضروری ہے۔
جماعتِ اسلامی کی طرف سے میری دانست کے موافق شاید’’کوثر‘‘ میں ان شکایات کا جائزہ کچھ سرسری طور پر لیا گیا ہے۔باقی مستقل طور پر ان کے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔اس میں تاخیر وتاجیل بتقاضاے وقت میرے خیال میں ہرگز درست نہیں ۔
موٹے موٹے اعتراضات یا شکایات قریباً سامنے آچکے ہیں جو عبارتوں کی قطع وبرید کرکے تیار کیے گئے ہیں ،یا باستنباط تجویز ہوئے ہیں ۔بہرکیف ان کا نمبروار تسلی بخش جواب جماعت کی طرف سے آجا نا چاہیے اگر وہ معاملہ جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔
اور اگر آپ کی ذات سے متعلق ہے تو اس کو آپ ذاتی طور پر بطریق احسن واضح کریں تاکہ ایک سلیم الطبع آدمی کو پھر سوال وجواب کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے۔
ان ساری تسلی بخش تفصیلات کے بعد پھر بھی ضدی قسم کے لوگ اگر جوں کے توں سوال جڑتے رہیں تو اس وقت آ پ بے شک جواب سے سروکار نہ رکھیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں ۔ اور جماعت کے تمام افراد کو بھی یہی تلقین ہونی چاہیے کہ اپنے مسلک کی وضاحت کے سوا اعتراض وجواب سے خاموشی اختیار کی جائے اور معاملہ اﷲ جل جلالہ کے سپرد کردیا جائے۔

اعتراضات میں ایک دل چسپ ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہی مودودی صاحب سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے نام پر اہلِ حدیث کو حنفی بنا کے رہیں گے۔چنانچہ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔یعنی پہلے تو اس جماعت میں آنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تمھارا فقہی مسلک جماعت میں آنے کے بعد بھی برقرار رہے گا، مگر جماعت میں آنے کے بعد ایسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو خود کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور اس کا مسلک سراسر بدل جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کی مخالفت: ایک مصالحانہ تجویز

پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔پاکستان کا ایک خاص طبقہ جماعت اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی اور علماے کرام کی باہمی چپقلش افسوس ناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔کیا اس معاملے کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نام ور علما کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں ،ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کرکے چند نام ورعلما کے الفاظ لکھ دیے ہیں ) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کردے۔ ان علماے کرام کی غیر جانب داری ،علم وتقویٰ اور پرہیز گاری شک وشبہہ سے بالا ہے ( کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانب دار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں ، اور دو بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں )۔اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقیناً اضافہ ہوگا۔اور اگر علماے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں ۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہوسکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔
نوٹ: اس تجویز کی نقول اخبار تسنیم، نواے وقت اور نواے پاکستان کو ارسال کردی گئی ہیں ۔