قضیۂ فلسطین میں جماعت کا رویّہ
بعض اصحاب پوچھتے ہیں کہ فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیا کی خود غرضی و اسلام دشمنی کے نتائج آشکارا ہیں ۔جماعت اسلامی نے اس معاملے میں کبھی اپنی پالیسی کا اظہار کیوں نہ کیا؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
بعض اصحاب پوچھتے ہیں کہ فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیا کی خود غرضی و اسلام دشمنی کے نتائج آشکارا ہیں ۔جماعت اسلامی نے اس معاملے میں کبھی اپنی پالیسی کا اظہار کیوں نہ کیا؟
اگر آپ اپنی اسلامی تحریک کو کفار و مشرکین سے شروع کرتے اور ’’نسلی مسلمانوں ‘‘ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا؟ (اس کے علاوہ اس مراسلہ میں ’’نسلی مسلمان‘‘ کی اصطلاح پر بھی سخت آزردگی کا اظہار کیا گیا ہے)
جماعتِ اسلامی اور علماے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت برا اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے( جو قلیل ہے )اور دوسری جماعت علماے حق کی ہے جو اہل دیوبند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں )اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔اگر اس گروہِ عظیم کے اکابر واصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائر دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔
تاحال ابھی اختلافات کی ابتدا ہے۔بریلویوں کی طرف سے’’خطرے کی گھنٹی‘‘ شائع ہوئی ہے۔معلّمین اہل دیو بند کی طرف سے دو چار اشتہار شائع کیے گئے ہیں ۔ان کا تدارک ہوسکتا ہے، غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر تھوڑی دیر جماعت کے تمام مقاصد کی سیاست کو سامنے نہ بھی رکھا جائے تب بھی سوء ظنی عامۃ المسلمین کی دور کرنی تو ان حالات میں ازروے اسلام ضروری ہے۔
جماعتِ اسلامی کی طرف سے میری دانست کے موافق شاید’’کوثر‘‘ میں ان شکایات کا جائزہ کچھ سرسری طور پر لیا گیا ہے۔باقی مستقل طور پر ان کے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔اس میں تاخیر وتاجیل بتقاضاے وقت میرے خیال میں ہرگز درست نہیں ۔
موٹے موٹے اعتراضات یا شکایات قریباً سامنے آچکے ہیں جو عبارتوں کی قطع وبرید کرکے تیار کیے گئے ہیں ،یا باستنباط تجویز ہوئے ہیں ۔بہرکیف ان کا نمبروار تسلی بخش جواب جماعت کی طرف سے آجا نا چاہیے اگر وہ معاملہ جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔
اور اگر آپ کی ذات سے متعلق ہے تو اس کو آپ ذاتی طور پر بطریق احسن واضح کریں تاکہ ایک سلیم الطبع آدمی کو پھر سوال وجواب کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے۔
ان ساری تسلی بخش تفصیلات کے بعد پھر بھی ضدی قسم کے لوگ اگر جوں کے توں سوال جڑتے رہیں تو اس وقت آ پ بے شک جواب سے سروکار نہ رکھیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں ۔ اور جماعت کے تمام افراد کو بھی یہی تلقین ہونی چاہیے کہ اپنے مسلک کی وضاحت کے سوا اعتراض وجواب سے خاموشی اختیار کی جائے اور معاملہ اﷲ جل جلالہ کے سپرد کردیا جائے۔
آپ کی جماعت تعصب اور تنگ نظری پر کیوں قائم ہے؟
کیا جماعت اسلامی میں رہنے کے لیے آپ کی تحریروں سے اتفاق ضروری ہے؟
اعتراضات میں ایک دل چسپ ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہی مودودی صاحب سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے نام پر اہلِ حدیث کو حنفی بنا کے رہیں گے۔چنانچہ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔یعنی پہلے تو اس جماعت میں آنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تمھارا فقہی مسلک جماعت میں آنے کے بعد بھی برقرار رہے گا، مگر جماعت میں آنے کے بعد ایسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو خود کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور اس کا مسلک سراسر بدل جاتا ہے۔
پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔پاکستان کا ایک خاص طبقہ جماعت اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی اور علماے کرام کی باہمی چپقلش افسوس ناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔کیا اس معاملے کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نام ور علما کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں ،ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کرکے چند نام ورعلما کے الفاظ لکھ دیے ہیں ) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کردے۔ ان علماے کرام کی غیر جانب داری ،علم وتقویٰ اور پرہیز گاری شک وشبہہ سے بالا ہے ( کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانب دار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں ، اور دو بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں )۔اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقیناً اضافہ ہوگا۔اور اگر علماے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں ۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہوسکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔
نوٹ: اس تجویز کی نقول اخبار تسنیم، نواے وقت اور نواے پاکستان کو ارسال کردی گئی ہیں ۔
جماعتِ اسلامی کے تحت قائم شدہ حلقۂ ہم درداں تو ہمارے علاقے میں پہلے سے تھا، لیکن باقاعدہ جماعتی کام حال ہی میں شروع ہوا ہے۔عوام کا رُجحان جماعت کی طرف کثرت کے ساتھ دیکھ کر علماے دیو بند، سہارن پور،دہلی اور تھانہ بھون نے جو فتاویٰ شائع کیے ہیں ،وہ ارسال خدمت ہیں ، اور علماے دیو بند کا ایک فتویٰ جو کہ ابھی زیر کتابت ہے،مفصل کتابی شکل میں آنے والا ہے،آنے پر ارسال کردیا جائے گا۔
ان فتووں کے جواب میں سکوت مناسب نہیں ۔غور کرکے جواب دیجیے۔ اگرکوئی اور وجوہ آپ کو ان کے فتووں کے بارے میں معلوم ہوں تو وہ بھی تحریر کریں کہ اس قدر شدت کے ساتھ یہ طوفان کیوں اُٹھ رہا ہے؟
تقسیم ہند کے بعد اب آپ کا تعلق ہندستان کی جماعتِ اسلامی سے کیا ہے؟کچھ تعلق ہے یا نہیں ؟
مولانا ابواللیث اصلاحی جو کہ ہندستان کی جماعت کے امیر ہیں ،حقیقت میں امیر ہیں یا صرف خانہ پری کے لیے فرضی امیر ہیں ؟