زکاۃکی شرح
جن مختلف سامانوں اور چیزوں پر زکاۃ واجب ہوتی ہے ان پر زکاۃ کس شرح سے لی جائے؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی ولادت 25 ستمبر 1903ء کو اور وفات 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔ بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
جن مختلف سامانوں اور چیزوں پر زکاۃ واجب ہوتی ہے ان پر زکاۃ کس شرح سے لی جائے؟
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں جن املا ک پر زکاۃ واجب تھی، کیا خلفاے راشدین نے ان کی فہرست میں کوئی اضافہ فرمایا؟اگر کوئی اضافہ یا تبدیلی کی گئی تو کن اُصولوں پر؟
کیا خلفاے راشدین کے زمانے میں نقدی،سکوں ،مویشیوں ،سامان تجارت، زرعی پیداوار پر زکاۃ کی شرح میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے؟اگر ایسا ہوا تو سند کے ساتھ تفصیلی وجوہ بیان کیجیے۔
تمام کتب فقہ میں مذکور ہے کہ چاندی کا نصابِ زکاۃ دو سو درہم(ساڑھے باون تولے) ہے اور سونے کا ۲۰ دینار(ساڑھے سات تولے)۔ اور علما فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس چاندی اور سونا دونوں ہوں اور ہر ایک نصاب مقررہ سے کم ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے لگا کر، یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر، دونوں میں سے جو صورت بھی اَنُفعُ لِلْفْقَراءِ ہو، مجموعے کو دیکھیں گے۔ یہاں تک تو بات صاف ہے۔
لیکن وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر صرف چاندی ہو تو چاندی کا نصاب ہوگا اور اگرصرف سونا ہو تو سونے کا نصاب حساب کی اساس ہوگا۔ اس بِنا پر لازم آتا ہے کہ اگر کسی کے پاس۶۰روپے ہوں تو اس پر زکاۃ عائد ہوگی مگر جس کے پاس۶تولے سونا ہے، وہ زکاۃ سے بَری ہے۔ حالاں کہ مال دار ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ موجودہ نرخ کے مطابق تقریباً۵۰۰ روپے کا مالک ہے۔بہرحال علما کے فتوے شخص اوّل پر زکاۃفرض قرار دیتے ہیں اور شخص ثانی پر زکاۃ عائد ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔ لیکن کم مال دار سے زکاۃ لینا اور زیادہ مال دار کو چھوڑدینا تعجب انگیز بات ہے۔
میں تو اپنی جگہ یہ سمجھا ہوں کہ زمانۂ قدیم میں چاندی اور سونے کی مالیت میں وہ نسبت نہ تھی جو آج کل ہے۔ آج کل تو۱:۷۵ یا۱:۸۰ کی نسبت ہے مگر دورِ نبویؐ میں تقریباً۱:۷ کی تھی۔ زکاۃ کی فرضیت میں مالیت کا اعتبارکیا گیا ہے اور۱۴۰مثقال چاندی کنوز کا بنیادی نصابِ زکاۃ ہے۔ نبی ﷺ نے زکاۃ کا نصاب متعین کرتے ہوئے اسی چاندی کی مقدار کو ذکر فرمایا۔ اس دَور میں ۱۴۰ مثقال چاندی کی مالیت کا سونا چوں کہ۲۰ مثقال (ساڑھے سات تولے) ہی بنتا تھا اس لیے یہ نصاب قرار پایا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ تاقیامِ قیامت سونے کی زکاۃ کے لیے ساڑھے سات تولے ہی مستقل نصاب متعین رہے۔ بلکہ سونے کی وہ مقدار نصابِ زکاۃ ہوگی جوساڑھے باون تولے چاندی کی ملکیت کے برابر ہو یعنی جس شخص کے پاس سونا ہو،وہ اس کی قیمت لگا کر دیکھے۔ اگر وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے،یا اس سے بڑھ جاتی ہے‘ تو اس پرزکاۃادا کرے۔
میرے اس خیال کی تائید نہ کسی فقہی کتاب کی عبارات کرتی ہیں نہ علماے وقت ہی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں ۔اس وجہ سے مجھے اپنی راے پر اعتماد نہیں ہے۔آپ جس پہلو کو مرجح قرار دیں میرے لیے موجب اطمینان ہوگا۔
زکاۃ سے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضوراکرمﷺ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ڈھائی فی صد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اُسے گھٹا یا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن پاک میں زکاۃ پر جابجا گفتگوآتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکرنہیں کیا گیا، اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اُسے ضرو ربیان کیا جاتا۔ اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضورﷺ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجازنہیں ہیں ۔ رہی صاحب موصوف کی دلیل، تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں ، اور یوں نہ پڑھی جائیں ، یوں پڑھی جائیں جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔پھر تو رسول خدؐا کے احکام، احکام نہ ہوئے،کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز جو میں نے کہی تھی،وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضروریات درپیش ہوں تو وہ حدیث اِنَّ فیِ الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ({ FR 2048 }) کی رو سے مزید رقوم وصول کرسکتی ہے۔خود یہی حدیث زکاۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارتاً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکاۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟لیکن وہ صاحب اپنے مؤقف کی صداقت پر مصر ہیں ۔براہِ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرمادیجیے۔
مختلف اثاثوں اور سامان پر کتنی مدت گزرنے کے بعد زکاۃ واجب ہوتی ہے؟
زکاۃ قمری سال کے حساب سے واجب ہونی چاہیے یا شمسی سال کے حساب سے؟ کیا زکاۃ کی تشخیص اور وصولی کے لیے کوئی مہینہ مقرر ہونا چاہیے؟
زکاۃ کی رقم کن مصارف میں خرچ ہونی چاہیے؟
کارخانوں اور دوسرے تجارتی اداروں پر زکاۃ کے واجب ہونے کی حدود بیان کیجیے۔
کن کن اثاثوں اور چیزوں پر اور موجودہ سماجی حالت کے پیش نظر کن کن حالات میں زکاۃواجب ہوتی ہے؟بالخصوص نقدی، سونا،چاندی،زیورات او رجواہرات کے بارے میں زکاۃ کی کیا صورت ہوگی؟