عبادات میں اخلاص پیداکرنے کا مطلب

ہمیں یہ کیوں کر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیں اور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں ؟… قرآن وحدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا،بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع وسجودکے علاوہ کچھ نہیں پاتے،یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو تو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی،اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں عبادت کے لیے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے،دل کو نااُمید ومایوس کرتی ہیں ۔
اگر کوئی شخص اپنی عبادت کو معلوم شدہ نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرے اور اپنی دانست میں کر بھی لے پھر بھی ممکن ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسا نقص رہ جائے جس کا اسے علم نہ ہوسکے اور یہی نقص اس کی عبادت کو لاحاصل بنادے…اسلام کا مزاج اس قدر نازک ہے کہ اپنی بشریت کے ہوتے ہوئے اس کے مقتضیات کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے۔

اعمال کےصلے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی نیت

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صرف ان اُعمال کے صلے کا وعدہ کیا گیا ہے جن کا تمام مقصد اور تمام محرک صرف اُس کی خوش نودی ورضا کا حصول ہو۔ مثلاًاگر کسی کی غربت وبے کسی پر رحم کھا کر ہم اس کی مدد کریں اور مدد کرنے میں اس کو ممنون کرنے یا اس سے آئندہ کوئی کام نکالنے یا کچھ لینے کا خیال نہ ہو بلکہ صرف اﷲ کا واسطہ منظور ہو تو کیا یہ بھی شرک ہے؟کیوں کہ اس کے ساتھ سلوک کرنے کا ابتدائی محرک ہماری رقت قلب ہے۔جس طرح آپ کے نزدیک خدمت ملت میں اگر کہیں قومیت کا رنگ پیدا ہوجائے تو عبادت نہیں رہتی۔

مقصود بالذات عباد ت

نماز،روزہ،زکاۃ ،حج اور جہاد ان عبادات میں شرعاً مقصود بالذات کون سی عبادت ہے اور اولیٰ درجہ کس کو حاصل ہے؟ کیا نماز، روزہ، حج، زکاۃ اسلام میں مقصود نہیں بلکہ ان کی حیثیت ذرائع اور وسائل کی ہے،مقصود دراصل جہاد ہے؟یہ عقیدہ آپ کا ہے یا نہیں ؟

عبادات کے اخلاقی فوائد

خطبات میں عبادات کے مقاصد کے تذکرے پر یہ اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ آپ نے صرف ان کے دنیوی فوائد کا تذکرہ کیا ہے اور انھی کو اہم بتایا ہے۔ عبادات کے اخروی فوائد کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا، یا اگر کیا بھی ہے تو ثانوی درجے کی حیثیت سے۔اس کے جواب میں بھی ہم اپنے علم کے مطابق وضاحت کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر معترضین ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔
بہرحال ان مسائل میں کتابوں کے اصل مصنف کی تصریحات کا مطالبہ عام طور پر کیا جاتا ہے اور ہم بھی یہی راے رکھتے ہیں کہ خود آپ کی توضیح زیادہ مفید ہوگی۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتابوں کی عبارتوں میں ضروری ترمیم کردی جائے۔
آخر میں یہ خوش خبری بھی عرض خدمت ہے کہ اندھی مخالفت کا یہ طوفان جتنا جتنا زور پکڑ رہا ہے،ہماری دینی دعوت بھی اسی کے ساتھ روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔آپ ہمارے لیے خدا تعالیٰ سے دعا فرمایئے۔

ذکرِ الٰہی اور اس کے طریقے

آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں ۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہوؒ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔
حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیں جو حضرت اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں گزرے ہیں ۔حضرت نے تبلیغ واشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔
سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم فرائض کے پابند، کبائر سے مجتنب خدا یاد آدمی تھے۔دربار میں جاتے تو مسنون طریقے سے دُعاے مغفرت کرتے۔ لوگوں نے دربار کا طواف شروع کردیا تو موصوف نے دربار کے اندر ایک ایسی دیوار بنوا دی جس سے طواف ناممکن ہو گیا۔ ان کے ان اعمال اور خدا یاد ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے بے حد عقیدت تھی۔مگر افسوس کہ اکتساب سے قبل میری کم عمری میں انتقال فرما گئے۔ پھر ایک ا ور بزرگ سے کچھ اوراد حاصل کیے جنھیں باقاعدگی سے پڑھتا تھا کہ۱۹۴۳ء میں جماعت کی رکنیت سے سرفراز ہوا۔
اس کے بعد میرے اندر ایک زبردست کش مکش ہوئی۔ وہ یہ کہ سکون قلب کے لیے رکنیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا کافی محسوس ہوتا رہا۔ مگر ساتھ ہی اپنی توجہات کو سمیٹ کر ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لیے اورادو وظائف کی تشنگی محسوس ہوتی۔اس مقصد کے لیے جب مختلف حضرات کی طرف نظر دوڑاتا تو اقامت دین کے بنیادی تقاضوں سے ان کی غفلت ان کی ساری وقعت گھٹا دیتی۔ اس کش مکش میں مدت ہوئی مبتلا ہوں ۔ بعض دوستوں سے اپنی حالت کا ذکر بھی کرچکا ہوں ۔ بالا ٓخر طبیعت کارجحان اس طرف ہوا کہ اس معاملے میں بھی آپ ہی کی طرف رجوع کروں ۔
میری درخواست ہے کہ اذکارواورادِ مسنونہ میں سے کچھ ایسی چیز یا چیزیں میرے لیے تجویز فرمائیں جو:
(۱) میری طبیعت سے مناسبت رکھتی ہوں ۔ اور
(۲) جن سے پندرہ بیس پچیس منٹ صرف کرکے اپنی توجہات کو سمیٹنے میں مدد لیا کروں ۔مجھے پوری توقع ہے کہ آپ اس معاملے میں بھی راہ نمائی کریں گے۔

دُعا میں ہاتھ اُٹھانا

مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کے پیروں کی ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دُعا میں ہاتھ نہ اُٹھائے جائیں ۔یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً ( الاعراف:۵۵)’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجے اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اُٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اُٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی اس کاالتزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا،وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیاگیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحق نہیں رکھتا۔اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں ۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں ۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائیے۔

نماز میں توجہ کی کمی کا مسئلہ

توجہ اور حضور قلب کی کمی کیا نماز کو بے کار بنادیتی ہے؟نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوری قلب پیدا ہوتی ہے اور ہو نی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں ۔اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔

سورة الاحزاب،آیت:۳۳ سےقادیانیوں کا غلط استدلال

تفہیم القرآن‘ سورۂ آل عمران صفحہ۲۶۸، آیت وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ… (آل عمران:۸۱) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر۶۹ یوں درج کیا ہے کہ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتارہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن نہ قرآن میں ،نہ حدیث میں ،کہیں بھی اس امر کا پتا نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو،یا آپ ؐنے اپنی اُمت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔‘‘
اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمدﷺ نے تو نہیں فرمایا،لیکن خود قرآن مجید میں سورۂ الاحزاب میں ایک میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ … (الاحزاب:۷)
’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑسے بھی۔‘‘
یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبی ﷺسے خطاب ہے۔میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورۂ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورۂ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اﷲ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔
دراصل یہ سوال قادیانیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی درج بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’مِنْکَ‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔

حدیث لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ ابْنُ النَّبیِ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَبِیّاًسے قادیانیوں کا غلط استدلال

اسی طرح قادیانی حدیث لَوْعَاشَ اِبْراھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا({ FR 1821 }) ’’اگر رسول اﷲؐ کے صاحب زادے ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے،‘‘ سے بھی امکان نبوت کے حق میں استدلال کرتے ہیں ۔ براہِ کرم ان دلائل کی حقیقت واضح فرمائیں ۔