تدبیرِ اُمور ِکائنات
آیت يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(السجدہ:۵ )
’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی رُوداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔‘‘
کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔اس وقت میرے سامنے تفسیر کشاف ہے۔صاحب کشاف کی توجیہات سے مجھے اتفاق نہیں ہے،کیوں کہ قرآنی الفاظ ان توجیہات کی تصدیق نہیں کرتے۔ان پر تبصرہ لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔آپ کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لفظ یَعْرُجُ اِلَیْہِ کا لغوی مدلول پیش نظر رہنا چاہیے۔نیز یہ لفظ ’’الامر‘‘ قرآن کی اصطلاح میں کن کن معنوں میں مستعمل ہوتا ہے؟