إِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمْ الثَّقَلَیْنِ کا مفہوم

افسوس اس امر کا ہے کہ ارشاد نبوی إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِي ({ FR 1615 }) کے باوجود ائمۂ اہل سنت نے رفع اختلاف کے لیے اہل بیت کی طرف رجوع نہیں کیا، حالاں کہ امام اعظمؒ اور امام مالکؒ،امام جعفر صادقؒ کے معاصر بھی تھے۔اس طرح رسولؐ کے گھر والوں کو چھوڑ کر دین کے سارے کام کو غیر اہل بیت پر منحصر کردیا گیا اور مسائل دین میں اہل بیت سے تمسک کرنا تو درکنار، ان سے احادیث تک نہیں روایت کی گئیں ،حالاں کہ بقول ’’صَاحِبُ الْبَیْتِ ادری بِمَا فیِ الْبَیْتِ‘‘ دین کا اصل منبع ائمہ اہل بیت تھے۔
جواب

آپ کی اُلجھن کا نقطۂ آغاز یہ حدیث ہے کہ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ الثَّقَلَيْنِ...الخ۔ اس کے متعلق آپ کو سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث مختلف الفاظ میں مختلف سندوں سے روایت ہوئی ہے جن میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض قوی۔ سب سے زیادہ قوی سند سے اور تفصیل کے ساتھ جو روایت آئی ہے وہ حضرت زید بن ارقمؓ سے مسلم میں مروی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ نبیﷺ نے غدیر خم کے مقام پر تقریر کرتے ہوئے فرمایاکہ’’لوگو! میں ایک انسان ہوں ،ہوسکتا ہے کہ اﷲ کا فرستادہ( قضا کا پیغام لے کر) جلدی ہی آجائے،اورمیں اس پر لبیک کہوں (یعنی دنیا سے رخصت ہوجائوں ) میں تمھارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ پہلی اس میں سے کتاب اﷲ ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔پس تم کتاب اﷲ کو لواور اسے مضبوط تھامو۔‘‘اس سلسلے میں آپﷺ نے حاضرین کو کتاب اﷲ کی پیروی پر اُبھارااور اس کی طرف رغبت دلائی۔پھر فرمایا: ’’اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں ۔ میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تم کو اﷲ کی یاد دلاتا ہوں ۔‘‘({ FR 1616 }) اس حدیث میں کوئی اشارہ اس طرف نہیں ہے کہ کتاب اﷲ کے بعد بس میرے اہل بیت ہی ہیں جن سے تمھیں اپنا دین سیکھنا چاہیے اور جن کی پیروی پرحصر کرنا چاہیے۔بلکہ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان دونوں چیزوں کو ثقلین (بھاری چیزیں ) دو الگ الگ معنوں میں فرمایا گیا ہے۔کتاب اﷲ اس لیے بھاری چیز ہے کہ وہی ہدایت کا سرچشمہ ہے اور اسے چھوڑنا یا اس سے منحرف ہونا تباہی وضلالت کا موجب ہے۔ اور اہل بیت کو بھاری اس لیے فرمایا کہ ہمیشہ اکابر نوع انسانی کے اہل بیت ان کے پیروئوں کے لیے سخت وجہِ آزمائش ثابت ہوئے ہیں ۔ کسی نے ان کے حق میں افراط کی ہے اور غلو کرکے پیر زادوں کو معبود بنا ڈالا ہے۔ اورکسی نے ان کے حق میں تفریط کی ہے اوران پر ظلم وستم ڈھائے ہیں ، تاکہ اُمت کو جو فطری عقیدت اپنے رہبر اور ہاد ی کے خاندان والوں سے ہوتی ہے،اس کو زبردستی دبایا جائے۔اسی غرض کے لیے حضورﷺ نے فرمایاکہ میں اپنے اہل بیت کے معاملہ میں تم کو خدا کی یاد دلاتا ہوں ۔ یعنی ان کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور افراط و تفریط کے پہلو اختیار کرنے سے بچو۔
دوسرے،اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حضورﷺ نے اپنی عترت یا اہل بیت(دونوں ہی الفاظ حدیث میں آئے ہیں ) سے دین سیکھنے کا ہی حکم دیا ہے تو ان الفاظ کا مفہوم آخر صرف اولاد علیؓ تک ہی کیوں محدود کردیا گیا؟اس میں ازروے قرآن ازواج نبی بھی داخل ہیں اور ان میں آلِ جعفر،آلِ عقیل، آلِ عباس اور تمام بنو ہاشم بھی داخل ہیں جن پر حضورﷺنے صدقہ حرام کیا۔
تیسرے یہ کہ حضو ر ﷺ نے صرف یہی نہیں فرمایا ہے کہ تَرَكْتُ فِيكُمْ الثَّقَلَيْنِ …({ FR 1664 })بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ…۔‘‘({ FR 1666 }) ’’میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت پر چلو۔‘‘ اوریہ بھی فرمایا ہے کہ: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ({ FR 1667 }) ’’میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ،ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے۔‘‘ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے ایک ارشاد کو تولیا جائے اور دوسرے ارشادات کو چھوڑ دیا جائے؟ کیوں نہ اہل بیت سے بھی علم حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ خلفاے راشدین اور اصحاب نبی (رضی اللّٰہ عنہم) سے بھی؟
چوتھے یہ کہ عقل بھی کسی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت ورفاقت میں سرانجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا،اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنھوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے، اور مردوں میں ایک حضرت علیؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابوبکر، عمر، عثمان ،ابن مسعود ؇ اور دوسرے بہت سے صحابہ کو ملا۔پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کون سی معقول وجہ ہے؟
اس سوال کو رد کرنے کے لیے بالآ خر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ، معاذ اﷲ، منافق تھے۔مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجودکس طرح اس کے قول کو جھٹلا رہی ہے، اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآبؐ اور آپﷺ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔کون معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبیﷺ نے۲۳سال تک اپنے جن رفقا پر پورا اعتماد کیا اور جنھیں ساتھ لے کر عرب کی اصلاح کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا وہ سب منافق تھے؟پھر کیا حضورﷺ ان کے نفاق سے آخر وقت تک بے خبر رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو حضورﷺ کی مردم شناسی وفراست مشتبہ ہوئی جاتی ہے۔ اور اگر یہ غلط ہے، اور یقیناً غلط ہے، تو آخر کیوں دین کا علم حاصل کرنے میں ان سب کی معلومات معتبر نہ ہوں ؟
(ترجمان القرآن، جون،جولائی۱۹۵۲ء)