انسانی اعضا کی پیوند کاری

کیا ایک مسلمان زندگی میں اپنی آنکھیں عطیہ کرسکتا ہے کہ موت کے بعد کسی مریض کے لیے استعمال ہوسکیں ؟ کیا یہ قربانی گناہ تو نہ ہو گی اور قیامت میں یہ شخص اندھا تو نہ اٹھے گا؟
جواب

آنکھوں کے عطیے کا معاملہ صرف آنکھوں تک ہی محدود نہیں رہتا۔بہت سے دوسرے اعضا بھی مریضوں کے کام آسکتے ہیں اور ان کے دوسر ے مفید استعمال بھی ہوسکتے ہیں ۔ یہ دروازہ اگر کھول دیا جائے تو مسلمان کا قبر میں دفن ہونا مشکل ہوجائے گا۔اس کا سارا جسم ہی چندے میں تقسیم ہوکر رہے گا۔ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے جسم کا مالک نہیں ہے۔اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مرنے سے پہلے اپنے جسم کو تقسیم کرنے یا چندے میں دینے کی وصیت کردے۔جسم اس وقت تک اس کے تصرف میں ہے جب تک وہ اس کے جسم میں خود رہتا ہے۔ اس کے نکل جانے کے بعد اس جسم پر اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس کے معاملے میں اس کی وصیت نافذ ہو۔اسلامی احکام کی رو سے یہ زندہ انسانوں کا فرض ہے کہ اس کا جسم احترام کے ساتھ دفن کردیں ۔
اسلام نے انسانی لاش کی حرمت کا جو حکم دیا ہے وہ دراصل انسانی جان کی حرمت کا ایک لازمہ ہے۔ ایک دفعہ اگر انسانی لاش کا احترام ختم ہوجائے تو بات صرف اس حد تک محدود نہ رہے گی کہ مردہ انسانوں کے بعض کارآمد اجزا زندہ انسانوں کے علاج میں استعمال کیے جانے لگیں ، بلکہ رفتہ رفتہ انسانی جسم کی چربی سے صابن بھی بننے لگیں گے (جیسے کہ فی الواقع جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جرمنوں نے بناے تھے)۔انسانی کھال کو اُتار کر اس کو دباغت دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے جوتے یا سوٹ کیس یا منی پرس بناے جا سکیں ۔ (چنانچہ یہ تجربہ بھی چند سال قبل مدراس کی ایک ٹینری کرچکی ہے)۔ انسان کی ہڈیوں اور آنتوں اور دوسری چیزوں کو استعمال کرنے کی بھی فکر کی جائے گی، حتیٰ کہ اس کے بعد ایک مرتبہ انسان پھراس دور وحشت کی طرف پلٹ جائے گا جب آدمی آدمی کا گوشت کھاتا تھا ۔میں نہیں سمجھتا کہ اگر ایک دفعہ مردہ انسان کے اعضا نکال کر علاج میں استعمال کرنا جائز قرار دے دیا جائے تو پھرکس جگہ حد بندی کرکے آپ اسی جسم کے دوسرے ’’مفید‘‘استعمالات کو روک سکیں گے اور کس منطق سے اس بندش کو معقول ثابت کریں گے۔ (ترجمان القرآن،جنوری ۱۹۶۲ء)