ایک اشتہار کا تجزیہ

ہمیں ایک اشتہار وصول ہوا ہے جسے ہندستان سے لا کر پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں : حضرت مولانا مدنی کا بصیرت افروز بیان مولانا مولوی عبدالحمید بلند شہری مدرس مدرسۂ اشر ف العلوم گنگوہ ضلع سہارن پور کے ایک خط کا وہ اقتباس ہے جو انھوں نے حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی عمّت فیوضہم کو لکھا ہے۔ ذیل میں صرف وہ حصہ ہے جس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنا نام جماعتِ اسلامی رکھا ہے۔ ’’یہ خیال اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب سے مودودیت جو کہ گنگوہ میں صورت فتنہ اختیار کیے ہوئے ہے،کچھ تبادلۂ خیالات اور کچھ ان کے اخبارات کا مطالعہ تردیداً کیا گیا۔ یہ لوگ صحابہؓ تک کو متجاوز کہہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت علی،ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا وعنہم کو احیاے تبلیغ دین میں متجاوز عن الاعتدال کے الفاظ اختیار کیے ہیں ۔ نیز خود مسلک اعتدال میں فرماتے ہیں کہ میں نے اشخاص ماضی وحال بلاواسطہ دین کو کتاب السنۃ، کتاب اﷲ سے سمجھا ہے۔نیز حضرت حاجی علیہ الرحمۃ و مجدد الف ثانی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں :ان حضرات نے ابتداے زندگی میں تو اچھا کام کیا مگر اخیر عمر میں ایسی مسموم غذا مسلمانوں کو دے گئے ہیں کہ آج تک مسلمان اس کے زہر سے محفوظ نہیں ہے۔ اور یہی تنقیدات تصوّف پر بہت کی ہیں ۔ بعض اہل گنگوہ نے دیگر بعض کو حضرت بو سعید علیہ الرحمۃ کے مزار پر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ ایک سنیاسی ہے جو پتھروں میں پڑاہے۔ اور یہ مشہور مقولہ ہے مودودیوں کا کہ دیو بند، مظاہر العلوم میں قربانی کے مینڈھے تیار کیے جاتے ہیں ۔علما پر زبردست ریمارک، خاص کر ماضی وحال کے بزرگوں پر غرض بالتفصیل پھر عرض کروں گا۔اس وقت یہ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ آیا ہم کھل کر ان لوگوں کو جواب دیں ۔کیوں کہ خاص کر گنگوہ سے مجھ کو واسطہ ہے۔ وہاں پر میں اشرف العلوم میں خدمت کرتا ہوں اور شب وروز یہ منکرات سامنے آتے رہتے ہیں تو لامحالہ کہنا پڑتا ہے۔ جواب شافی سے نوازیں ۔‘‘ ({ FR 985 }) عبدالحمید بلند شہری انبیا علیہم الصلاۃ و السلام کے علاوہ خواہ صحابہ کرام ہوں یا اولیاے عظام یا ائمۂ حدیث وفقہ وکلام کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔سب سے غلطیاں توہوسکتی ہیں ، مگر ان کے متعلق اعتمادیت کی شہادتیں قرآن وحدیث میں بکثرت موجود ہیں اور ان کے اعمال نامے اور اتقا وعلم کی تاریخی روایات معتبرہ اس قدر اُمت کے پاس ہیں کہ قرون حالیہ کے پاس ان کا عشر عشیربھی نہیں ہے۔ ان پر تنقید ان ہی جیسے پایۂ علم واتقا والا کرسکتا ہے۔ہمارے زمانے کے ٹٹ پونجیے، جن کے پاس علم ہے نہ تقویٰ،کیا منہ رکھتے ہیں کہ زبان دراز کریں سواے اپنی بدبختی کے اظہارکے اور کیا حیثیت رکھتے ہیں : ع چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنۂ پاکاں زند({ FR 986 }) اﷲ تعالیٰ ان کی تعریف فرماتے ہوئے فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ… (الفتح:۲۹) ’’محمد اللّٰہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت۔‘‘ دوسری جگہ ہے: وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ … (الحجرات:۷ ) ’’مگر اللّٰہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘ تیسری جگہ ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ … ( آل عمران:۱۱۰) ’’اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘ چوتھی جگہ ہے: وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا… (البقرہ:۱۴۳) ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امتِ وسط‘‘ بنایا ہے۔‘‘ اور یہ کم بخت ان کی شان میں ہذیان بکتے ہیں ۔جناب رسول اﷲ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : اتَّقُوا اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا({ FR 1040 }) ’’خدا سے ڈرو میرے اصحاب کے متعلق، میرے بعد ان کو نشانۂ ملامت مت بنائو۔‘‘ آپؐ فرماتے ہیں کہ: خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ({ FR 1041 }) اور یہ بدبخت ان کی شان میں بدگوئیاں کرتے ہیں ۔سواے بدنصیبی کے اور کیا ہے۔ ان خبیثوں سے گفتگو اور مناظرہ وغیرہ کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔اﷲ تعالیٰ ان کی اور ہماری ہدایت فرمائے۔آمین! دارالعلوم اور مظاہر العلوم یا ان کے بنیاد رکھنے والوں اور طلباء اور مدرسین کے متعلق ہر گمراہ اور مخالف اہل اسلام اور مخالف اہل سنت ایسے ہی الفاظ کہتا ہے۔‘‘ ({ FR 988 }) ننگ اسلاف حسین احمد غفرلہ‘ دارالعلوم دیو بند،۱۳ ذی الحجہ۱۳۶۹ھ المشتہر: مولوی سیّد شفیق الرحمٰن،محلہ عالی کلاں سہارن پور(مطبوعہ جدت برقی پریس،مراد آباد)
جواب

یہ اشتہا ر بازی بجاے خود اس نوعیت کی ہے کہ اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے سخت انقباض محسوس ہوتا ہے اورناظرین ترجمان القرآن گواہ ہیں کہ اس طرز کے اشتہارات اور اخبارات ورسائل کے مضامین سے کبھی ان صفحات میں تعرض نہیں کیا گیا ہے۔مگر افسوس ہے کہ بعض نادان مرید اور شاگرد اب ایسے اکابر کو اس میدان میں اُتار لاے ہیں جو اپنے علم وتقویٰ اور روحانی مشیخت کے لحاظ سے ہندستان وپاکستان کی مذہبی دنیا میں معتمد علیہ ہیں ۔ اس لیے مجبوراً پچھلی اشاعت میں بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑی تھی، اور اب اس اشاعت میں دوبارہ اس پر اظہار خیال کرنا پڑ رہا ہے۔ہماری طرف سے اس سلسلے میں یہ آخری گزارشات ہیں ۔خدا کرے کہ اس کے بعد پھر ان صفحات کو اس طرز خاص کے پروپیگنڈے کی جواب دہی سے آلودہ کرنے کی نوبت نہ آئے۔
تہذیب سے عاری زبان کا استعمال
(۱) سب سے پہلے نمایاں چیز جو مولانا حسین احمد صاحب کے اس بیان میں نگاہ کو کھٹکتی ہے وہ ان کی زبان ہے،جسے ممکن ہے مولانا خوداپنے شایان شان سمجھتے ہوں ، مگر ہم ان کے ساتھ اتنا حسن ظن رکھتے ہیں کہ یہ زبان ہمیں ان کے مرتبے سے فروتر نظر آتی ہے۔کسی شخص یا گروہ سے اختلاف ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔سخت سے سخت اختلافات ہوسکتے ہیں اور سخت سے سخت اظہار راے شریفانہ زبان میں کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ زبان کہ جس سے اختلاف ہوااس کے خلاف ٹٹ پونجیے،کم بخت، بدبخت اور خبیث جیسے رکیک الفاظ استعمال کرڈالے جائیں ،ایک مہذب آدمی کے بھی شایان شان نہیں ہے،کجا کہ ایک ایسا مردِ بزرگ اس کو اختیا رکرے جو اس برعظیم کی سب سے بڑی درس گاہ کا مسند نشین ہے اور جس کی طرف ہزارہا آدمی تعلیم دین ہی کے لیے نہیں ،تزکیۂ نفس کے لیے بھی رجوع کرتے ہیں ۔جب قوم کے مقتدا اور مربی ومعلم اس طرح کی باتوں پر اُتر آئیں تو بعید نہیں کہ ان سے اخلاق وتہذیب کا سبق لینے والے اصاغر احترام آدمیت سے بالکل ہی عاری ہوجائیں اور اس قوم میں نام کو بھی ایک دوسرے کی عزت کا پاس باقی نہ رہ جائے۔ ع
إذَا كَاَنَ رَبُّ الْبَیُتِ بِالطَبْل ضَارِباً
فَلا تَلُمْ الصِّبْيَانَ فِيْهِ عَلَى الرْقْصِ({ FR 1042 })
مولانا کو اگر یاد نہ ہو تو ہم انھیں یاد دلاتے ہیں کہ کسی وقت ہم نے بھی ان کے نظریۂ قومیت اور ان کی کانگریس سے موافقت پر تنقید کی ہے۔وہ تنقید اب بھی ہماری کتابوں (’’مسئلۂ قومیت‘‘ اور’’مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ دوم) میں موجود ہے۔ وہ اور ان کے شاگرد اور مرید ہماری ان تنقیدی عبارات کو دیکھ کر خود راے قائم فرمائیں کہ دونوں زبانوں میں کتنا فرق ہے۔بالفرض دس بارہ برس بعد ان کا بدلہ لینا ہی ضروری تھا تو وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَۃٍ سَيِّئَۃٌ مِّثْلُہَا({ FR 1154 }) (الشورٰی:۴۰) کے اُصول پر لیا جاسکتاتھا۔ یہ تعدی آخر کس آئین کی رُو سے حضرت کے لیے جائز ہوگئی؟
بغیر تحقیق کے فتو ٰی بازی
(۲) دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے، وہ مولانا کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ روش ہے جو انھوں نے دوسروں کے دین واعتقاد پر اظہارِ راے کرنے میں اختیار کی ہے۔ان کے سامنے ایک مفروضہ سوال پیش نہیں کیا گیا تھا،بلکہ ایک جماعت کا نام لے کر اس پر چند الزامات لگائے گئے تھے۔ تنابز بالأ لقاب سے قطع نظر ’’مودودیوں ‘‘اور’’مودودیت‘‘ کے الفاظ سے جس جماعت کا ذکر کیا گیا ہے،مولانا اس سے بالکل ناواقف نہ تھے۔ان کو خوب معلوم تھا کہ ہندستان و پاکستان میں ہزارہا مسلمان اس سے وابستہ اور لاکھوں اس سے متا ٔ ثر ہیں ۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس جماعت کے خیالات کہیں چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ لکھے لکھائے مطبوعہ شکل میں موجود ہیں ۔اس کے باوجود ایک سائل نے جیسے کچھ بے سروپا الزامات بغیر کسی حوالے اور ثبوت کے اس پر لگا دیے،ان کو مولانا نے جوں کا توں تسلیم کرلیا اور ان پر ایک تند وتلخ جواب غالباً یہ جانتے ہوئے سائل کے حوالے کردیا کہ اس سوال وجواب کو ان کے اپنے معتقدین اشتہار بازی کے لیے استعمال کرنے والے ہیں ۔انھوں نے کوئی ضرورت یہ تحقیق کرنے کی نہیں سمجھی کہ جس گروہ کے متعلق یہ سوال کیا جارہا ہے،اس نے صحابۂ کرام ؇ اور دوسرے بزرگوں کے متعلق فی الواقع کیا لکھا ہے، کس سیاق وسباق میں لکھا ہے،اور اس کی دوسری تحریرات کیا شہادت دیتی ہیں کہ وہ ان بزرگوں کے متعلق کیا خیالات رکھتا ہے؟انھوں نے یہ معلوم کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہ سمجھی کہ اس گروہ کے بعض اشخاص کی طرف منسوب کرکے جو باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں ، وہ فی الواقع کس نے کہی ہیں ؟ اُس کی اس گروہ میں کیا حیثیت ہے؟اور اس کی کسی بات کو پورے گروہ کے خیالات کی ترجمانی قرار دیا بھی جاسکتا ہے،یا نہیں ؟ بالفرض اگر مولانا کے پاس اس گروہ کی مطبوعات پڑھنے کے لیے وقت نہ تھا،اور نہ بیان کردہ اُمور کی تحقیق ہی کے لیے وہ فرصت پاتے تھے، تو آخر کس طبیب نے مشورہ دیا تھا کہ حضرت اس معاملے میں راے ضرور دیں ؟ میں پوچھتا ہوں ، کیا مذہبی پیشوائی کی ایسی ذمہ دارانہ مسند پر بیٹھ کر ایک متقی عالم کی یہ روش ہونی چاہیے؟کیا تقویٰ اور دیانت اسی چیز کانام ہے؟کیا یہی وہ تزکیۂ نفس ہے جس سے حضرت خود بہرہ مند ہیں اور دوسروں کو بہرہ مند فرما رہے ہیں ؟ کیا اس جواب کی تحریر کے وقت حضرت کو نبیﷺ کے یہ ارشادات یاد تھے کہ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فِسْقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ({ FR 1043 })اوركُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ({ FR 1044 }) کیا یہ جواب لکھتے وقت حضرت نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچا تھا کہ ہمیں اور انھیں ایک وقت مرنا اور اپنے رب کی عدالت میں حاضرہونا ہے،وہاں اگر سائل کے الزامات محض بہتان وافترا ثابت ہوگئے تو حضرت اس کی توثیق کی پاداش سے کیا دے کر بچیں گے؟
معترضین کی بد دیانتی کے طریقے
(۳) مولانا اور ان کے گروہ کے دوسرے حضرات،جن کی تحریریں حال میں جماعتِ اسلامی کے خلاف شائع ہوئی ہیں ،اس بات کو بالکل بھول گئے ہیں کہ کسی شخص یا گروہ کے عقیدہ ومسلک کے متعلق کوئی راے قائم کرنا یا ظاہر کرنا دیانتاً اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کہ انصاف کے ساتھ اس کی تمام یا اکثر تحریروں کو خود نہ پڑھ لیا جائے۔کسی خدا ترس آدمی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ محض سنی سنائی باتوں پر دوسروں کو ضال اور مضل قرار دے بیٹھے،یا چند نیاز مندوں کی پیش کی ہوئی نشان زدہ عبارتوں پر راے قائم کرلے اور اسے شائع کردے۔یا پہلے کسی کی خبر لینے کا عزم کرلیا جائے اور پھر اس کی کتابیں اس غرض سے کھنگالی جائیں کہ کہاں اس کو مطعون کرنے اور اس پر الزام تراشنے کی کوئی گنجائش ملتی ہے۔یا ایک شخص کی بعض عبارتوں سے ایسے معانی اور نتائج نکالے جائیں جن کی تردید خود اسی شخص کی بہت سی عبارتیں کررہی ہوں ۔ اس طرح کی حرکتیں وہ لوگ تو کرسکتے ہیں جن کے پیش نظر صرف دنیا اور اس کی زندگی ہے۔ مگر جنھیں خدا اور آخرت کا بھی کچھ خیال ہو،ان سے ایسی حرکات بالکل خلاف توقع ہیں ۔
ان حضرات کی وہ تمام تحریریں ہم نے بالاستیعاب پڑھی ہیں جو انھوں نے ہمارے خلاف لکھی ہیں ۔ ان کا پورا تجزیہ کرنے کے بعد جو کچھ ہم نے پایا ہے،وہ یہ ہے:
[i] بعض مقامات پر ہماری اصل عبارتیں نقل کرنے کے بجاے اپنے نکالے ہوئے نتائج اپنے الفا ظ میں بیان کیے گئے ہیں اور انھیں ہمارے سر تھوپ دیا گیا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں ۔ یہ حرکت تمام ایسے مقامات پر کی گئی ہے جہاں الزام لگانے والے نے یہ محسوس کیا کہ اگر وہ ہماری عبارت کو ہمارے الفاظ میں نقل کرے گا تو اپنا الزام ثابت نہ کرسکے گا۔
[ii] بعض مقامات پر ہمارے چند فقرے ایک سلسلۂ عبارت سے الگ کرکے ان سے اپنے من مانے نتائج نکالے گئے ہیں ۔حالاں کہ اگر وہی مضمون پوراپڑھاجائے یا وہ کتاب پوری پڑھی جائے جس کے چند فقروں پر ان نتائج کی بنا رکھی گئی ہے، تو اس سے بالکل برعکس نتائج نکلتے ہیں ۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یا تو محض کسی کے دکھائے ہوئے نشان زدہ فقرے مفتی صاحب نے ملاحظہ فرمالیے اور فتویٰ رسید کردیا،یاپھر پورا مضمون پڑھنے کے باوجود دانستہ الزام تراشی فرمائی۔
[iii ] بعض مقامات پر ہماری عبارات میں کھلی کھلی تحریفیں کی گئی ہیں ۔کہیں آگے پیچھے اپنے الفاظ ملا لیے گئے ہیں اور کہیں ایک فقرے کو ان فقروں سے الگ کیا گیا ہے جو اصل مدعا کو ظاہر کرتے تھے۔ اس طرح کی تحریفات غالباً یہ سمجھتے ہوئے کی گئی ہیں کہ جن لوگوں کی نظر سے ہماری اصل مطبوعات گزری ہیں ،ان کی نگاہ میں چاہے محرف کی رتی برابر وقعت باقی نہ رہے،مگر بہت سے ناواقف لوگ تو دھوکا کھا ہی جائیں گے۔
[iv]بعض مقامات پر ہماری عبارت تو صحیح نقل کی گئی ہے،مگر ہمارا منشا سمجھنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی گئی اور خالص بدظنی کے ساتھ ہمارے الفاظ سے بالکل غلط معنی نکال لیے گئے۔ حالاں کہ ہم سے پوچھا جائے تو ہم اپنے الفاظ کا صحیح محمل بتا سکتے ہیں اور اپنی دوسری تحریروں سے ثابت کرسکتے ہیں کہ ان الفاظ سے ہمارا اصل مدعا کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک عبارت اگر دو یا زائد معنوں کی متحمل ہو تو معتبر صرف وہی معنی ہوں گے جو خود مصنف بیان کرے اور جن کی شہادت اس کی دوسری عبارتیں دیں ،نہ کہ وہ جو ایک معاند بیان کرے۔
[v]بعض مقامات پر کسی ما ٔخذ اور حوالے کے بغیر ہماری طرف ایک عقیدہ یا مسلک یا جریمہ منسوب کردیا گیا ہے۔حالاں کہ ہم اس سے بارہا بالفاظ صریح براء ت ظاہرکرچکے ہیں اور ہماری تحریروں سے ہرگز اس الزام کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ہم حیران ہیں کہ یہ آخر دیانت کی کون سی قسم ہے کہ کسی کو زبردستی گمراہ،بدعقیدہ اور مجرم بنانے کی کوشش کی جائے، درآں حالے کہ وہ بار بار اس سے براء ت ظاہر کررہا ہو۔
[vi]بعض مقامات پر ہمارے خلاف ایسے اعتراضات کیے گئے ہیں جن کے مدلل جوابات ہماری تحریروں میں موجود ہیں ۔ یہ اعتراض اگر ان تحریروں کو پڑھے بغیر کیے گئے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کو دوسروں پر اعتراض جڑنے کا بڑا شوق ہے،مگر ان کے مسلک سے واقف ہونے کی تکلیف گوارا نہیں ہے۔ اور اگر جوابی دلائل سے واقف ہونے کے باوجود ان اعتراضات کو دہرایا گیا ہے اور جوابی دلائل سے تعرض نہیں کیا گیاتو یہ صریح جھگڑالو ذہنیت کی علامت ہے۔
[vii]بعض مقامات پر ہماری تحریک، یا ہمارے مسلک،یا کسی خاص معاملے میں ہمارے نقطۂ نظر پر ایک جامع راے کا اظہار کیا گیا ہے، مگر اس کی تائید میں کوئی شہادت ہماری تحریروں سے پیش نہیں کی گئی،نہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس راے کی بنیاد کیاہے۔اس طرح کی بے بنیادراے زنیاں کرنے پر اگر کوئی اُتر آئے تو دنیا میں کون ہے جو اس کی راے کی ضرب سے بچ سکتا ہو۔
[viii]بعض مقامات پر ساری اعتراضی تقریر کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک ہم نے کسی فقہی مسئلے کے بیان میں ،یا کسی کلامی مسئلے کی تشریح میں کوئی غلطی کی ہے۔لیکن اسے بیان ایسے مبالغہ آمیز انداز میں کیا گیا ہے کہ گویا، معاذ اﷲ، ہم نے سارے دین کو ہدم کرڈالا ہے۔ حالاں کہ نہ علمی مسائل میں غلطی کرجا نا کوئی دنیا میں نرالا واقعہ ہے اور نہ ہر غلطی لازماً گمراہی ہوتی ہے۔
[ix] بعض مقامات پر ایسے اُمور کو مخالفت اور فتوے بازی کی بنیاد بنایا گیا ہے جن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور فریقین کے پاس اپنے اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں شرعی دلائل موجود ہیں ۔اس طرح کے اختلافی مسائل کو ایک علمی بحث کا موضوع تو بنایا جاسکتا ہے مگر کسی معقول انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان کی بنیاد پر مخالفت کا طوفان اُٹھائے گا اور فتوے بازی پر اُتر آئے گا۔
یہ تجزیہ جو ہم نے ان حضرات کی مخالفانہ تحریروں کا کیا ہے،اس کے ہر جزکی نظیر ہم ان کی تحریروں سے پیش کرسکتے ہیں ۔ وہ جب چاہیں اس کے نظائر ان کی خدمت میں حاضر کردیے جائیں گے۔اس سے پہلے اشتراکی،قادیانی،منکرین حدیث،بریلوی اور مسلم لیگی حضرات اس طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے ہیں ۔بعض مناظرہ با زاہل حدیث نے بھی یہ شیوہ اختیار کیے رکھا ہے۔ بعض اخبارات اور رسائل کا تو برسوں سے مستقل طریقہ ہی یہ رہا ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے ہمارے خلاف راے عام پید اکریں ۔ لیکن ہم کسی ایسے شخص کو قابل التفات نہیں سمجھتے جس کے طرز عمل میں حیا اور خوف خدا کے فقدان کی علامات پائی جاتی ہوں ۔ دیو بند اور مظاہر العلوم کے ان اکابر کو ہم ابھی تک اس صف میں شامل نہیں سمجھتے۔ان سے یہ توقع باقی ہے کہ وہ اس حد تک اپنے آپ کو گرا ہوا ثابت نہ کریں گے۔اسی لیے ہم نے ان پر اتنا وقت صرف کیا ہے۔خدا نخواستہ جس روز اس پہلو سے ہمیں مایوسی ہوگئی،اس کے بعد ان شاء اﷲ ان کے ہزار مضامین اور ان کی لاکھ اشتہار بازیوں کا ایک جواب بھی اِدھر سے سننے میں نہ آئے گا۔
ضمنی باتوں کی بنیاد پر الزامات
(۴) ہمارے لیے یہ بات سخت حیران کن ہے کہ ہماری مخالفت میں صرف علماے دیو بند ہی نہیں ، دوسرے گروہوں کے علما بھی جن باتوں کو بار بار چھانٹ چھانٹ اور اُبھار اُبھار کر سامنے لا رہے ہیں ،وہ قریب قریب سب کی سب ایسی ہیں جن کو ہم نے احیاناً کسی بحث کے ضمن میں یا کسی سوال کے جواب میں لکھ دیا ہے۔بلکہ بعض باتیں تو ایسی نکا ل نکال کر لائی جارہی ہیں جو برسوں سے ترجمان القرآن کے پرانے فائلوں میں دبی پڑی تھیں اور خود ہمیں بھی یاد نہ تھیں کہ وہ ہمارے قلم سے نکلی ہیں ۔ان میں شاید کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کی ہم نے خاص طورپر تبلیغ کی ہو،یا جس کے ماننے کی لوگوں کو دعوت دی ہو، یا جس کو ہم نے بار بار دہرایا ہو۔لیکن ہمارے یہ مخالف علما اپنے فتووں اور مضامین اور اشتہارات میں ان کاذکر اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ہمارا اوڑھنا اوربچھونا یہی مسائل ہیں ،انھی کے ذکر وبیان میں ہم نے اپنی عمر کھپائی ہے، اور انھی کو پھیلانے میں ہم دن رات لگے ہوئے ہیں ۔ اس کے برعکس جن خیالات کو پھیلانے کی فی الواقع ہم برسوں سے کوشش کررہے ہیں ،جن چیزوں کو ہم نے بار بار لکھا اور کہا ہے،جن باتوں کو ماننے کی دنیا بھر کو دعوت دی ہے،جس چیز کو قائم کرنے کی سعی میں ایک مدت دراز سے ہم اپنی جان کھپا رہے ہیں ، اور جن چیزوں کو مٹانے کے لیے ہم نے اپنا پورا زور صرف کردیا ہے،ان کا یا تو سرے سے ان حضرات کی تحریروں میں کہیں ذکر ہی موجود نہیں ہے، یا کبھی کبھار کسی نے ’’ہنرش نیزبگو‘‘ کی شرط پوری کرنے کے لیے ان کا ذکر کیا بھی ہے تو بس ایک اچٹتا ہوا اشارہ کردیا ہے۔کیا ان حضرات میں سے کوئی صاحب ذرا سی تکلیف فرما کر ہمیں بتائیں گے کہ اس انتخاب میں کیا حکمت پیش نظر ہے؟
قرآن سے جو اُصول ہم نے سمجھا ہے وہ تو یہ ہے کہ آدمی اپنے ان کاموں سے جانچا جاتا ہے جن کی اسے زیادہ تر فکر ہو،جن میں وہ اکثر مشغول رہے۔یہ غالب فکر اور اکثری مشغولیت اگر حق ہو تو کبھی کبھار کے غلط کام بلا توبہ بھی معاف ہوسکتے ہیں کہ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ({ FR 1140 }) (ھود:۱۱۴) مگر یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے دور حاضر کے بزرگان دین ایک گروہ کے وقتی اور احیانی اورعارضی کاموں کو اس مقصد کے لیے چنتے اور پکڑتے پھرتے ہیں کہ اس کی مستقل دعوت اور اس کے شب وروز کے مشغلے اور اس کی غالب فکر پر ان کے ذریعے سے پانی پھیر دیں ۔ یہ حرکتیں دیکھ کر دل بے اختیار اﷲ تعالیٰ کا شکرادا کرتا ہے کہ اس نے آخرت کی عدالت کے جملہ اختیارات اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہیں ۔ اگر خدا نخواستہ کچھ بھی اختیار ان حضرات کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہوتا تو نہ معلوم یہ کن ترازوئوں سے خلق خدا کو تولتے اور کس طرح ذرا ذرا سی باتوں پر لوگوں کے عمر بھر کے اعمال حبط کردیتے۔
ان حضرات کی خاص کوشش یہ ہے کہ ان باتوں کو کسی نہ کسی طرح ہمارے سرمنڈھیں جن سے ہمارے خلاف عوام کے جذبات بھڑک سکتے ہوں ۔مثلاًیہ کہ جماعتِ اسلامی والے عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ،اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں ، گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر سلب ایمان کا حکم لگاتے ہیں ،صحابہ کرامؓ کی توہین کرتے ہیں ، بزرگان دین اور خصوصاً اکابر صوفیہ کو بر ابھلا کہتے ہیں ،ان کا امیر مجدد اور مہدی ہونے کا مدعی ہے،اور آگے کچھ اور بننا چاہتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان الزامات کا ثبوت فراہم کرنے میں جیسی کچھ محنت کی جارہی ہے اور جس جاں فشانی کے ساتھ ہزاروں صفحات کے مضامین میں سے لفظ چن چن کر ہمارے خیالات کا ایک ایسا مجموعہ تیارکیا جارہا ہے جو خود ہمارے علم میں بھی پہلی مرتبہ انھی حضرات کے واسطے سے آیا ہے۔وہ چاہے اور کی نگاہ سے مخفی ہو مگر ہماری نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہم اس کمال فن کی داد تو ضرور دیتے ہیں ،کیوں کہ ہم ہر کمال فن کے قدر شناس ہیں ،خواہ وہ نقب زنی وجیب تراشی کا ہی کمال کیوں نہ ہو۔مگر معلوم صرف یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کی فکر چھوڑ کر آخر اس کام میں یہ عرق ریزی کس لیے کی جارہی ہے؟اور یہ اُصول قرآن،حدیث یا طریق سلف میں کہاں سے اخذ کیا گیا ہے کہ تم ضرور ڈھونڈ کر لوگوں کو مطعون کرنے کے وجوہ تلاش کرو اورپھر بھی کام نہ چلے تو اپنی طرف سے کچھ ملا کر فردِ جرم مکمل کردو؟
علماکے فتووں میں تغیر کا سبب
(۵) ایک اوربات جو ہمارے لیے اس سے کچھ کم حیران کن نہیں ہے،وہ ہمارے معاملے میں بعض اکابر کے نقطۂ نظر کا تغیر ہے جو پچھلے چند برس میں رُونما ہوا ہے۔حالاں کہ ہمارے خیالات برسوں پہلے جو کچھ تھے وہی آج ہیں ، اور ہماری تحریریں جن پر آج ہم ضال اور مضل، بلکہ بدبخت اور خبیث تک ٹھیراے جارہے ہیں ،اس وقت سے بہت پہلے شائع ہوچکی تھیں جب کہ ان بزرگوں کی نگاہ میں ہم کم ازکم ضالّ اور مضل تو نہ تھے۔
۱۹۴۵ء کے آغاز میں انجمن اصلاح القریٰ، ریواز آباد، ضلع لائل پور سے جناب مولانا کفایت اﷲصاحب کی خدمت میں ہمارے متعلق ایک ا ستفسار بھیجا گیا تھا۔اس کا جو جواب مولانا کی طرف سے وصول ہوا،اس کے الفاظ یہ تھے:
مودودی صاحب کی تحریرات بیش تر صحیح ہیں اور ان کی تحریک میں نظری طور پر کوئی غلطی اور گمراہی نہیں ہے۔صرف یہ بات محل غور ہے کہ موجودہ زمانے میں اس تحریک کے مفید وبار آور ہونے کے ظروف مساعد ہیں یا نہیں ،اور یہ کہ محرک صاحب حال ہے یا صرف صاحب قال۔
ایک اور صاحب نے ضلع بارہ بنکی سے اسی زمانے میں مولانا کی خدمت میں جماعتِ اسلامی کے متعلق ایک سوال بھیجا تھا جس کا یہ جواب آیا تھا:
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا نظریہ اُصولا تو صحیح ہے، مگر آج کل عملی نہیں ہے۔جیسے کوئی کہے کہ حدود شرعیہ جاری ہونی چاہییں ۔یہ بات اُصولاًتو صحیح ہے مگر اس زمانے میں قطع یدسارق پر اور رجم زانی پرجاری کرنا عملاًممکن نہیں ہے،کیوں کہ غیر اسلامی حکومت حائل ہے۔ تاہم اگر کوئی ان کی جماعت میں داخل ہوکر حسب استطاعت اسلامی خدمت کرے تو مضائقہ نہیں ہے۔
آج وہی مولانا کفایت اﷲ صاحب ایک دوسرا فتویٰ صادر فرماتے ہیں ، جو سہارن پور کے شائع شدہ ایک اشتہار میں یوں درج ہے:
مودودی جماعت کے افسر مولوی ابوالاعلیٰ مودودی کو میں جانتا ہوں ،وہ کسی معتبر اور معتمد علیہ عالم کے شاگرد اور فیض یافتہ نہیں ہیں ۔اگرچہ ان کی نظر اپنے مطالعے کی وسعت کے لحاظ سے وسیع ہے،تاہم دینی رجحان ضعیف ہے،اجتہادی شان نمایاں ہے، اور اسی وجہ سے ان کے مضامین میں بڑے بڑے علماے اعلام،بلکہ صحابہ کرامؓ پر بھی اعتراضات ہیں ۔اس لیے مسلمانوں کو اس تحریک سے علیحدہ رہنا چاہیے، اور ان سے میل جول، ربط واتحاد نہ رکھنا چاہیے۔ ان کے مضامین بظاہر دل کش اور اچھے معلوم ہوتے ہیں ،مگر ان میں ہی وہ باتیں دل میں بیٹھتی جاتی ہیں جو طبیعت کو آزاد کردیتی ہیں اور بزرگان اسلام سے بدظن بنادیتی ہیں ۔
اسی۱۹۴۵ء کے آخری مہینوں میں مولانا حسین احمد صاحب سے جماعتِ اسلامی کی دعوت کے متعلق سوال کیا گیا تھا اور اس کا جواب انھوں نے یہ دیا تھا:
مولانا مودودی کا نظریہ بہت سی تحریروں میں اور رسالوں وغیرہ میں شائع ہوتا رہا ہے۔ مجھ کو اس قدر فرصت نہیں کہ بالاستیعاب دیکھوں ۔جس قدر مضامین نظر سے گزر ے ہیں ،حالات موجودہ میں ناممکن العمل ہیں ۔واﷲ اعلم
میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ موجودہ دور میں اور اس ماحول میں کیا شرعی تکلیف ہم پر ان اُمور پر حسب دستور عائد ہوتی ہیں یا نہیں ۔
ایک اور صاحب نے جو اُس وقت فیروز پور جھرکہ میں نائب تحصیل دار تھے،جماعت کی تمام مطبوعات مولانا کو بھیجی تھیں اور ان سے درخواست کی تھی کہ انھیں ملاحظہ فرما کر یہ بتائیں کہ جمعیت علماے ہند کے مسلک اور جماعتِ اسلامی کی دعوت میں سے کون حق پر ہے۔ نیز خصوصیت کے ساتھ ’’ایک اہم استفتا‘‘ کی طرف توجہ دلا کر پوچھا تھا کہ اس پمفلٹ کو پڑھ کر میرا دل اپنی ملازمت سے اُچاٹ ہوگیا ہے،آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیاکروں ۔ اس کا جو جواب حسین آباد ضلع مظفر نگر سے مولانا کے اپنے قلم کا لکھا ہوا (مؤرّخہ۳۰ ذی الحجہ۱۳۶۴ھ) وصول ہوا، اس کے الفاظ یہ تھے:
محترماً! میں اس قدر مصروف اور عدیم الفرصت ہوں کہ روزانہ ڈاک کا دیکھ لینا بھی نہیں ہوسکتا، چہ جائے کہ کتابوں کا دیکھنا اور جواب لکھنا۔ مودودی صاحب فارغ ہیں ،جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں ، اور جب چاہتے ہیں چھپوا دیتے ہیں ۔جمعیت العلماء ہند نے جو طریقہ سیاسیات میں اختیار کیا ہے، وہ حسب استطاعت اَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْن کی بنا پر ہے۔ موجودہ گردو پیش میں جو طاقت اور قدرت موجود ہے،اُسی پر اس کی حرکت وسکون کا مدار ہے۔مودودی صاحب جو فلسفہ پیش فرما رہے ہیں ،اس کے دیکھنے اور اس پرتنقید وتبصرہ کرنے، یا اس کا جواب لکھنے کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر آتی بھی تو مہلت نہیں ہے۔مودودی صاحب اور ان کے موافقین اپنے عمل کوحرکت میں لائیں ۔ ہم ان کا مقابلہ نہ کریں گے اور نہ کوئی محاذ قائم کریں گے۔اگر ہماری سمجھ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے وہی عمل شرعی اور مفید سمجھ میں آیا تو ہم بھی متبع بن جائیں گے۔ورنہ حسب قاعدۂ قرآنیہ لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا({ FR 1141 }) (البقرہ:۲۸۶ ) ہم معذور ہوں گے۔
دوسری چیز آپ نے اپنی ملازمت کے متعلق پوچھی ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں ،آپ کو جب کہ دوسرا طریقہ اکل حلال میسرہے تو آپ کو اس ملازمت کو چھوڑ ہی دینا چاہیے۔اگرچہ وہ ’’اہم استفتا‘‘ میری نظر سے نہیں گزرا مگر جو مضمون آپ نے اس کا ذکر فرمایا ہے،اقرب الی الصواب ہے۔ آپ کے احباب کا حکم میری سمجھ میں نہیں آتا،اگرچہ وہ علما ہیں ۔
آج ٹھیک پانچ برس بعد ذی الحجہ۱۳۶۹ھ میں وہی مولانا حسین احمد صاحب ہمارے متعلق اس راے کا اظہار فرماتے ہیں جو اس مضمون کے آغاز میں نقل کی جاچکی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس انقلاب راے اور اس تغیر فکر ونظر کی علت کیا ہے؟اگر اس وقت سے اب تک کچھ نئی گمراہیاں ہم سے سرزد ہوگئی ہیں جن سے اس وقت تک ہمارا دامن پاک تھا، تو ازراہِ عنایت ضرور ہمیں اس سے آگاہ فرمایا جائے۔یا اگر اب ان حضرات کو ان کتابوں کو پڑھنے سے فرصت مل گئی ہے جنھیں اس وقت نہ پڑھاتھا،اور بالا ستیعاب ان کا مطالعہ فرما کر وہ ہماری گمراہیوں پر آج مطلع ہوئے ہیں ،تو کم ا زکم یہی بات بصراحت ارشاد فرما دی جائے۔اور اگر بات یہ نہیں ہے،بلکہ یہ سارے فتوے اور مضامین اب اس لیے برسنے شروع ہوئے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کی بڑھتی ہوئی تحریک سے اپنے حلقۂ اثر کے آدمیوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ ان بزرگوں کو لاحق ہوگیا ہے،اور ساری فکر انھیں اب ٹوٹنے والوں کو روکنے کی ہے —وہی فکر جس نے اشتراکیوں ،مسلم لیگیوں ، بریلویوں ، قادیانیوں ، اہل حدیث اور منکرین حدیث کو ہماری مخالفت میں متحر ک کر رکھا ہے —تو گستاخی معاف،یہ انداز فکر اہل حق کو زیب نہیں دیتا اور نہ یہ ہتھکنڈے ان کے شایان شان ہیں ۔
یہ تو دکان داروں کے سوچنے کا انداز ہے کہ مقابل کی دکان ان کے گاہکوں اور اسامیوں کو توڑنے نہ پائے۔ بلکہ شاید کوئی شریف دکان دار بھی،اگر تھوڑی سی خدا ترسی اس میں ہو، اس حد تک گرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا کہ محض گاہک بچانے کے لیے حریف دکان دار کے مال میں کیڑے ڈالنے لگے۔ بہرحال اپنی پوزیشن مشخص کرنا ان حضرات کا اپنا کام ہے۔رہے ہم،تو الحمدﷲ کہ ہم دکان دار نہیں ہیں ، نہ کسی کے حریف تجارت ہیں ۔ جس چیز کو ہم نے کتاب وسنت رسول اللّٰہؐ سے حق پایا ہے، اسے خلق اﷲ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔ جسے حق معلوم ہو،قبول کرے،اس کا اپنا بھلا ہے۔ جسے حق نہ معلوم ہو، رد کردے، اس کا معاملہ اس کے خدا سے ہے۔ ساری دنیا اسے قبول کرلے تو بجز آخرت کی منفعت کے ہمیں کوئی اجر اس سے مطلوب نہیں ۔ اور اگر ساری دنیا اسے ردّ کردے تو ہمارا اس سے کوئی نقصان نہیں ۔
معرکہ حق وباطل میں جماعتِ اسلامی کی حیثیت
(۶) آخر میں ہم تمام اُن علما سے جو اپنے آپ کو اہل حق میں سمجھتے ہوں اور جن کو فی الواقع دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی کچھ فکر ہو، تین باتیں صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں :
اوّل یہ کہ ہم اس وقت فسق وضلالت کی اس حکمرانی کو مٹانے کے درپے ہیں جو علوم و افکار پر،اخلاق ومعاشرت پر،تہذیب وتمدن پر اور معیشت وسیاست پر قائم ہے، اور ہماری تمام کوششیں اس کام کے لیے وقف ہیں کہ زندگی کے ان تمام شعبوں پر خدا کے دین کی حکمرانی قائم ہو۔آپ حضرات اگر کچھ بھی تو سّم کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کھلے کھلے آثار آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ دین کی حمایت میں اس وقت وہ کون سی مستعد اور منظم طاقت ہے جس کو فسق وضلالت کی ساری طاقتیں اپنا اصلی حریف سمجھ رہی ہیں اور کس کے خلاف انھوں نے اپنا پورا زور لگارکھا ہے۔ اشتراکیوں سے پوچھیے کہ علما کے اس پورے گروہ کو آپ اپنے لیے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں یا جماعتِ اسلامی کو؟ منکرین حدیث کی اپنی تحریروں میں دیکھ لیجیے کہ اہل حدیث اور دوسرے تمام حامیان حدیث کے خلاف ان کا غصہ زیادہ بھڑکا ہوا ہے یا جماعتِ اسلامی کے خلاف؟ قادیانیوں کے اپنے اخبارات ورسائل آپ کو بتا دیں گے کہ ان کو جماعتِ اسلامی کا زیادہ خوف لاحق ہے یا اپنے دوسرے مخالفین کا؟مغربیت کے علم برداروں کی تحریریں اور تقریریں اور عملی تدبیریں آپ کے سامنے خود شہادت دیں گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پریشان جماعتِ اسلامی سے ہیں یا باقی ماندہ پورے مذہبی طبقے سے؟
اس حالت میں جب کہ ان طاقتوں سے ہماری کش مکش برپا ہے، آپ کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کا وزن کس پلڑے کی طرف جارہا ہے۔آپ لڑنا چاہیں تو شوق سے لڑیں مگر اپنا انجام سوچ لیں ۔اگر خدا کے ہاں آپ سے باز پرس ہوئی اور پوچھا گیا کہ جب طاعت اور فسق، اور ہدایت اور ضلالت کے درمیان معرکہ برپا تھا تو تم نے کس کو کس پر ترجیح دی تھی،اس وقت آپ کیا جواب دیں گے؟اس وقت آپ اپنے یہ فتوے اور یہ مضامین اور یہ اعتراضات حجت میں پیش کرکے بچ نکلنے کی توقع رکھتے ہوں اور آپ کو اُمید ہو کہ ہماری خطائیں اور لغزشیں گناکر آپ ثابت کرسکیں گے کہ اس معرکے کے فریقین میں دراصل کشتنی وگردن زنی ہم ہی تھے،تو بسم اﷲ،اپنی یہ مہم جاری رکھیے اور کچھ کسر ابھی باقی رہ گئی ہو تو اسے بھی پورا کرڈالیے۔
اختلاف کا منصفانہ طریقہ
دوم یہ کہ فی الحقیقت آپ میں سے کوئی نفسانیت کی بنا پر نہیں بلکہ حقانیت کی بنا پر ہم سے ناراض ہے تو اس کو چاہیے کہ زبان کھولنے سے پہلے انصاف کے ساتھ ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرکے اس معاملے میں ایک جچی تلی راے قائم کرلے کہ آیا ہماری حیثیت ایک ایسے گروہ کی ہے جس سے صرف اختلاف کیا جاسکتا ہے،یا ایسے گروہ کی جس کی مخالفت بھی کرنی ضروری ہے،یا ایسے گروہ کی جو مذکورہ بالا معرکے کے فریقین میں سے اس بات کے لیے احق ہے کہ آپ اس کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں ؟چوں کہ اس وقت کش مکش برپا ہے اور یہ ایک قطعی فیصلے پر پہنچے بغیر ختم ہونے والی نہیں ہے، اس لیے آپ کو متفرق مسائل پر اپنی اعتراضی تقریریں مرتب کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا اپنی تمام کردہ وناکردہ خطائوں کے باوجود ہم لوگوں کی بہ نسبت آپ حضرات کے لیے زیادہ قابل برداشت وہ ہیں جو یہاں فسق وضلالت پھیلا رہے ہیں ،یا ہم ایسے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں اشتراکی،قادیانی،منکرین حدیث اور فرنگیت کے علم بردار سب کو آپ برداشت کرسکتے ہیں ؟
مثبت طریقے پر تنقید
سوم یہ کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ اعلان ہے اور آج بھی ہم اس پر قائم ہیں کہ ہماری جس بات کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول ؐ کی سنت کے خلاف ثابت کردیا جائے،ہم بلا تأمل اس سے رجوع کرلیں گے۔اب اگر ہم سے اختلاف رکھنے والے حضرات محض فتنہ پردازی نہیں چاہتے بلکہ اختلافات کا تصفیہ چاہتے ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے، اور یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ انھیں ہم پر جتنے بھی اعتراضات ہوں ،وہ انھیں یک جا نمبروار لکھ کر ہمارے پاس بھیج دیں ۔ہم ان شاء اﷲ ان کی تحریر کو ان صفحات میں لفظ بلفظ درج کردیں گے اور اپنے جوابات سے ان کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ یا اگر وہ خود اپنے ہی کسی اخبار اور رسالے میں اپنے اعتراضات شائع کرنا پسند فرمائیں تو ہم اس شرط کے ساتھ ان کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں کہ اوّل تو آئے دن کی طعنہ زنی بند کرکے اپنے جملہ اعتراضات بیک وقت مرتب فرمادیں ،دوسرے یہ کہ وہ اس بات پر راضی ہوں کہ جس طرح ہم ان کے اعتراضات کو لفظ بہ لفظ نقل کرکے ان کا جواب دیں گے،اسی طرح وہ بھی ہمارے جواب کو اپنے ہاں لفظ بلفظ نقل کرکے پھر جو چاہیں خامہ فرسائی کریں ۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۵۱ء)