حضرت سلیمان ؈ کا۹۹ یا۱۰۱ بیویوں کے پاس جانا

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت سلیمان ؈ نے ارشاد فرمایا کہ آج رات میں اپنی تمام بیویوں سے،جن کی تعداد ایک سو ایک یا ننانوے تھی،مجامعت کروں گا۔ ہر ایک بیوی سے ایک شہسوار پیدا ہوگا جو خدا کی راہ میں جہاد کرے گا۔ کسی نے کہا ان شائ اﷲ بھی ساتھ کہیے لیکن حضرت سلیمان ؈ نے پروا نہ کی۔چنانچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کوئی حاملہ نہ ہوئی۔ (بخاری،ج دوم،ص۹۳) امید ہےآپ اس حدیث کی وضاحت کرکے میری پریشانی و بے اطمینانی رفع فرمائیں گے۔شکر گزار رہوں گا۔
جواب

اس مضمون کی احادیث[صحیح] بخاری کتاب الانبیاء،({ FR 1656 }) کتاب الجہاد اور کتاب الایمان والنذور میں موجود ہیں ۔ ان مختلف احادیث میں سے کسی میں حضرت سلیمان ؈ کی بیویوں کی تعداد۶۰، کسی میں ۷۰،کسی میں ۹۰،کسی میں ۹۹اور کسی میں ۱۰۰بیان کی گئی ہے اور سب کی سندیں مختلف ہیں ۔اتنی مختلف سندوں سے جو بات محدثین کو پہنچی ہو،اُس کے متعلق یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ بالکل ہی بے اصل ہوگی،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو نبی ﷺ کے بیان کو سمجھنے میں حضرت ابوہریرہؓ سے کوئی غلطی ہوئی ہے، یا وہ پوری بات سن نہیں سکے ہوں گے۔ممکن ہے حضور ﷺ نے فرمایا ہو کہ حضرت سلیمان ؈ کی بہت سی بیویاں تھیں جن کی تعداد یہودی۶۰،۷۰،۹۰،۹۹ اور۱۰۰ تک بیان کرتے ہیں اور حضرت ابوہریرہؓ نے سمجھا ہو کہ یہ حضور ﷺ کا اپنا بیان ہے۔اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت سلیمان ؈ کے قول کو اس طرح بیان کیا ہو کہ’’میں اپنی بیویوں کے پاس جائوں گا اور ہر بیوی سے ایک مجاہد پیدا ہوگا‘‘ اور حضرت ابوہریرہؓ یہ سمجھے ہوں کہ’’ایک رات میں جائوں گا۔‘‘ اس طرح کی غلط فہمیوں کی مثالیں متعدد روایات میں ملتی ہیں جن میں سے بعض کو دوسری روایتوں نے صاف کر دیا، اور بعض صاف ہونے سے رہ گئیں ۔ زبانی روایتوں میں ایسا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اور اس طرح کی چند مثالوں کو لے کر پورے ذخیرۂ احادیث کو ساقط الاعتبار قرار دینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔
رہا ان شائ اﷲ کا معاملہ، تو یہ کسی روایت میں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؈ نے جان بوجھ کر ان شائ اللّٰہ کہنے سے احتراز کیا تھا۔اس لیے اس میں توہین انبیا کا کوئی پہلو نہیں ہے۔یہ الفاظ آپ نے آخر کس روایت میں دیکھے ہیں ’’کسی نے کہا،ان شائ اﷲ بھی ساتھ کہیے، لیکن آپ نے پروا نہ کی؟‘‘حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ
فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَلَمْ يَقُلْ({ FR 1491 }) (ان کے ساتھی نے ان سے کہا ان شاء اﷲ، مگر انھوں نے نہ کہا)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیما ن ؈ کے منہ سے یہ بات نکلی تو پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے خود کہا ’’ان شائ اﷲ‘‘اور حضرت سلیمان ؈ نے اس کے کہہ دینے کو کافی سمجھ لیا اور اپنی زبان سے اس کا اعادہ نہ کیا۔
(ترجمان القرآن ، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)