خالق کی پالیسی کی مصلحت

انسانی زندگی میں بہت سے واقعات وحوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب وفساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت ومصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم وخبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے،تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے، کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں ، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہن انسانی کو ان سوالات کی پیدائش کے قابل تو بنا دیا جائے،لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اَور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے۔اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذ باﷲ)
جواب

آپ جن اُلجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ،ان کے متعلق میرا انداز ہ یہ ہے کہ میں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غور وفکر کا آغاز کرتے ہیں ، وہ بہرحال کلی سوالات نہیں ہیں بلکہ کل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں ،اور بعض سے کل کے متعلق کوئی صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔
آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں ۔ اگر خلق بے خالق اور نظم بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیر ضروری ہیں ۔ کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا، اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے ،اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت وربوبیت کا کیا سوال۔ لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں ، ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدائش،ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق ومدبر کی کن صفات کے آثار وشواہد نظر آتے ہیں ۔ کیاو ہ غیر حکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم وبے خبر ہوسکتاہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غو رکیجیے اور خود راے قائم کیجیے۔
اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار واحوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ و ہ حکیم وخبیر ہے، مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے، اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار واحوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہورہے ہیں ،وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں ۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے،اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں ۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کلی اصلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے، تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اورنہ آپ کے بس میں کہ اس امر واقعی کو بدل ڈالیں ۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے یا نہیں سمجھ سکتے،ہم پر یہ جھنجلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم وخبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں ؟
آپ کا یہ استدلال کہ یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو،ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے، کیوں کہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنادیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا، اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا یہ سزا آپ اس کو دے دیں ۔ اب مجھے بتائیے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینا ن حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کر لیا؟ اس جھنجلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے،جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’’انسان‘‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے، اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بِنا پر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے،ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے جو مقام انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں ،لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کاجواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اٹھ کر مقامِ الوہیت پر نہ پہنچ جائیں ، اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی،کیوں کہ آپ انسان بناے گئے ہیں ، پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بناے گئے ہیں ۔ مگر ہر سوا ل کا جواب پانے کے ذرائع آپ کونہیں ملیں گے، کیوں کہ آپ انسان ہیں خدا نہیں ہیں ۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’’جھول‘‘قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔
(ترجمان القرآن، فروری۱۹۵۶ء)